Be Khayal
بے خیال
حضرت انسان نے صدیوں سے کچھ نہیں کیا سوائے ہماری ذہنی سوچ کو پست کرنے کے۔ خود اس نے جانے کہاں سے چلنا سیکھا (کیا پتا درحقیقت چلنا بھولا ہو) صدیوں سے اپنے بچوں کو بھی ویسے ھی دو ٹانگوں پر چلا رھا ھے۔۔
او بھایی۔۔ کیا پتا وہ کچھ نیا طریقہ ایجاد کرلیں انہیں چھوڑو تو سہی، آئینہ تیار کیا۔۔ ٹھیک کیا۔۔ اب ہمیں اسی آئینہ میں دیکھنے کے عادی تو نا کرو، کیا پتا کوئی پاگل۔ اکھڑ دماغ بندا شیشے کے بجائے کچھ ایسا طریقہ نکال لے جس سے اندر کی کالک نظر آجایے۔
نیوٹن میاں تم نے جو اصول دیے برحق، ہمارا قصور کیا تھا ہمیں بھی تو اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانے دیتے، کیا خبر۔۔ آج ہم۔۔ یہ بچے۔۔ سیب گرنے کی بجائے اخلاقیات انسانی کے اچانک گرنے کے کوئی سائنسی اصول دے دیتے۔
جب سے کرکٹ آئی آج تک باولنگ اور بیٹنگ کے وہی اصول، یعنی ماضی کے انسان نے آنے والے آدمی کو اپنے بنائے گیے اصولوں میں لاز کے نام پر قید کرلیا، یعنی اب کوئی نیا باولنگ یا بیٹنگ کا اسٹائل پیدا نہیں ہوگا، اگر ہوا تو اسے آوٹ آف ایکشن کہہ کر معدوم کردیا جائے گا۔
اگر سوچنے دیتے تو ہو سکتا تھا کہ گیند ہوا میں معلق ہی رہتی، الٹے پاوں سے سیدھے ہاتھ کے اوپر سے گیند پھینکنے کی نئی ورایٹی آتی، بیٹسمین کا موجودہ کھیلنے کا انداز ہی بدل جاتا۔
نسل در نسل ہم اپنے بچوں کو چڑیا گھر دکھاتے آئے، اور انہیں جانوروں کے حقوق پڑھا کر اچھے اور آرام دہ قید خانے بنانے پر راغب کر رھے ہیں، یہ نہیں ہوا کہ ایک آدھ نسل انسانی کو سوچنے دیتے، کیا خبر وہ کوئی خلائی مخلوق کے ہی چڑیا گھر اوہ سوری۔۔ خلائی گھر تعمیر کرلیتے۔
میرے بچوں کو قیس کی دشت نشینی اتنے نفیس و والہانہ انداز میں پڑھائی گئی کہ مجال ھے وہ صحراوں سے نکل کر گلیکسز کی خاک چھاننے کا سوچتے۔
"دل سے دل کو راہ ہوتی ھے"کے مصداق کوئی سائنسی لاء نہیں دے سکے، خیال کو ذریعہء پیغام رسانی اسٹیبلش کرنے کے، یہاں بھی پست ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ای میل متعارف کروا دی گئی۔
پینڈتوں اور مولویوں نے بڑی ہی عرق ریزی اور کشٹ کے بعد ہم انسانوں کو جزا و سزا اور خوف خدا کے واہمے میں لاحق کیا۔۔ اب یہ انسان جنت و جہنم سے نکلے تو کیسے؟ اسے سوچنے ہی نہیں دیتے، ورنہ ھوسکتا تھا کہ زمین پر خداوں کی تعداد بڑھنے کے بجائے خدا شناسوں کی تعداد بڑھ جاتی۔
ہمارے بڑوں نے اپنے بڑوں اور انہوں نے اپنے بڑوں سے جو سیکھا ایک غلام کی طرح ہمیں دے دیا، ان تنگ دامان عقل کو اتنی شرم نہیں آئی کہ جو ہم دیکھتے ہیں وہ آنے والے نہیں دیکھیں گے، یہ نظارے یہ ستارے اسی جگہ موجود نہیں ہونگے۔
تم لوگوں نے جو جانوروں سے علوم اخذ کرنے تھے ان عالموں کو نوید ھو کہ اب وہ سب ویب سایٹ پر دستیاب ھے، جو پیغمبران پیغمبر نے خبریں دیں۔۔ سائنس انکو تحقیق کرکے انہی الفاظ میں مان رھی ھے، لیکن نسل انسانی پھر بھی سوچ نہیں رھی، جانتے ہو ایسا کیوں ھے؟ کیونکہ ہمیں کبھی سوچنے دیا ھی نہیں گیا۔
یورپ نے جتنے علوم نکالے۔۔ اس نے جتنا بھی آج تک سوچا ھے وہ صرف انسانوں کو کسی نا کسی طرح قید میں رکھنے کا سوچا ھے، اسکے سارے علوم کا ماخذ یہی رہا ھے۔
وہ نعرہء آزادی لگاتے ہیں اور قید میں بلاتے ہیں۔ اب اگر آج انسان تھل کو بروئے کار لانے کا سوچے تو یہ سوچ ھی بڑھنے میں زمین ٹھکانے لگ چکی ہوگی۔۔
پتا نہیں اس بے عقل انسان نے کیسے سوچ لیا کہ کیسے تفریق کرلی کہ یہ پھل ہوگا جو بن پکائے کھاتے ہیں اور یہ۔۔ یہ سبزی ہوگی اسے پکانا کڑے گا؟
چلو۔۔ تفریق کرلی نا۔۔ اپنے لیے کی نا۔۔ تو تمہیں مبارک ہو، نصاب میں نئی نسلوں کو پڑھا پڑھا کر کیوں جاہلانہ راستے پر چلاتے ہو، انہیں کچھ وقت دو، ہوسکتا ھے یہ نئے لوگ تیرے پرانے سبھی اصول اکھاڑ پھینکیں!
لو سائنس کی سن لو، جاہل لوگوں نے دوسروں کو جاہل رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، یعنی جو انسان آنکھ بند کرکے دل کی آنکھ سے۔۔ آنکھ کے نظاروں سے بھی پرے کے نظاروں کی خبریں دیتا تھا اسے سایڈ پہ کیا۔۔ اور ان دو آنکھوں کو دوربین دے کر سستے نشے پہ لگا دیا۔۔
ستاروں سے راستے نکالنے والے کو گوگل میپ دے کر زمین تک محدود کردیا گیا۔۔!
انسان۔۔ عقل کو کہیں تابوت سکینہ کی طرح بھلا کر اندھا دھند جاہلانہ ترقی میں گم ہوچکا ھے۔۔ اسکے یہ سب کرنے میں بھی قباحت نہیں مجھے، مگر، یہ میرے بچوں کو تو ذہنی پستی نا دے نا۔۔!
یہ انسان۔۔ جانتے ہو روبوٹ بنانے سے گریزاں کیوں ھے؟ یہ خوف ذدہ ھے کہ کہیں یہ سوچنے نا لگ جایں۔۔!
سائنس دان اور مولوی سبھی چاہتے ہیں کہ کوئی نا سوچے۔
کتنے مزے کی بات ھے نا۔۔!
ہم روبوٹس کا بھی ایک خالق ھے اور وہ نا سوچنے والے کو عقل کا طعنہ دیتا ھے جانوروں سے برا کہتا ھے اور یہ اتنے ناخدا اپنے روبوٹ کو اس ڈر سے نہیں بنا رھے کہ سوچنے نا لگ جائے۔۔!