Bhoola Bisra Shaheed
بھولا بسرا شہید
5 مارچ 1975 کی صبح سیالکوٹ کی تحصیل پسرور میں صدائے فجر بلند ہو رہی تھی۔ اور اسی وقت رانا محمد ابراہیم کی بہن کے ہاں ایک بچے نے آنکھ کھولی۔ دنیا میں آتے ہی اس بچے نے سب سے پہلے رب العالمین کی بڑائی کا اعلان سنا اور پھر جیسے یہ اعلان اس کی گھٹی میں شامل ہو گیا۔ اس بچے کے بازو پر عقاب کا قدرتی نشان تھا اس لیے نانا ابو نے مدثر شہباز نام رکھ دیا۔ وہ بچہ جب تک پسرور اپنے ننھیال میں رہا اسی نام سے پکارا گیا۔ اور جب اپنے آبائی علاقے رحیم یار خان کی تحصیل صادق آباد واپس آیا تو بچے کے والد رانا طالب حسین نے رانا طاہر ندیم نام رکھا۔
رانا طاہر ندیم کا بچپن صادق آباد کی مجاہد کالونی گلی نمبر 8 میں کھیلتے کودتے گزرا۔ ابتدائی تعلیم اپنے محلے کے اسکول سے حاصل کی۔ اسکول میں وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا رہا۔ بچپن کے بعد لڑکپن آیا اور طاہر ندیم کا ذہن ایک خاص سمت میں مڑتا چلا گیا۔ اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک گروپ کریش انڈیا کے نام سے بنایا۔ طاہر اپنے گروپ کے ساتھ مل کر فنڈز اکھٹے کرتا اور انہیں کشمیر کاز کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کو بھیج دیتا۔ یہی طاہر ندیم کا نظریہ تھا یعنی کشمیر کی آزادی اور انڈیا کے ٹکڑے کرنا۔ کریش انڈیا کے تصور پر مبنی ایک فریم طاہر کے کمرے میں لگا ہوا تھا۔
طاہر ندیم کی پڑھائی جاری رہی ساتھ ہی ساتھ وہ کراٹے کی ٹریننگ بھی کرتا رہا۔ پھر اس نے صادق آباد میں ایک کراٹے کلب کھولا اور نوجوانوں کو مردان آہن بنانے کا کام کرنے لگا۔ کچھ عرصے بعد اس نے پاکستان آرمی میں کمیشن کے لیے اپلائی کر دیا۔ مگر اس کے دل میں ایک خلش سی تھی۔ اسے دن رات، اٹھتے بیٹھتے، ہر پہر، ہر ساعت، سسکیوں کی آوازیں سنائی دیتیں۔ اس کی نگاہوں میں کشمیر، فلسطین، عراق و افغانستان کی عصمت دریدہ بہنوں کے تار تار دوپٹے اپنا نوحہ پیش کرتے۔ اس کے ہاتھ بوسنیا، چیچنیا کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنے کو بے تاب رہتے۔ آخر صادق آباد کے اس شہباز نے اپنی پہلی پرواز کا فیصلہ کیا۔ مگر ابھی عشق کے امتحاں اور بھی تھے۔ طاہر کی محنت اور مستقبل میں ملنے والی بلندیوں کو بھانپ کر اس کے ماموں نے اپنی بیٹی سے منگنی کر دی۔ صرف یہ منگنی ہی اس شہباز کے پاؤں کی بیڑی نہیں تھی بلکہ عین اس کی پرواز سے چند روز قبل آرمی کی طرف سے اس کا جوائننگ لیٹر آگیا۔ سارے خاندان میں جشن کا سا سماں تھا۔ رانا طالب حسین کا ہونہار بیٹا آرمی میں افسر بھرتی ہو گیا تھا۔
اُدھر گھر میں خوشی کے شادیانے بج رہے تھے اور اِدھر طاہر ندیم اپنے گھر والوں کے لیے الوداعی خط لکھ رہا تھا۔ خط تکیے کے نیچے رکھ کر طالب حسین کا بڑا بیٹا رات کے اندھیرے میں معسکر خالد بن ولید افغانستان کو کوچ کر گیا۔ وہاں پر طاہر نے سخت جہادی تربیت حاصل کی اور پھر اس کے ماموں اسے واپس لے آئے۔ تین ماہ گھر پر رہنے کے بعد طاہر دوبارہ افغانستان کی اور نکل پڑا۔ اب کی بار مقصد جہاد کی جنداللہ نامی چھ ماہ کے دورانیے کی کمانڈو ٹریننگ حاصل کرنا تھا۔ طاہر کے ٹرینرز کو اس میں استادی کے گر نظر آئے تو طاہر کو بھی استاد مقرر کر دیا گیا۔ اور یوں وہ رانا طاہر ندیم سے استاد ساجد جہادی بن گیا۔ اب کی بار وہ گھر واپس آیا تو یہ اس کی اپنے گھر والوں سے آخری ملاقات تھی۔ اس نے اپنی تشکیل وادی کشمیر میں کروانے کے لیے کوشش کی۔ اور 1996 کے اواخر میں استاد ساجد جہادی وادی جنت نظیر ارض کشمیر کی اور روانہ ہو گیا۔
وادی نیلم کے راستے کشمیر میں داخل ہو کر ساجد جہادی کچھ عرصہ کپواڑہ میں رہا۔ جس وقت جہادی نے وادی میں قدم رکھا تھا تو سردیاں اور برف باری اپنے جوبن پر تھیں۔ مگر جیسے ہی سردیاں ختم ہوئیں تو گرمیوں کا موسم بھارتی فوج کے لیے موت کا پیغام بن گیا۔ جہادی بارود بنانے میں ایکسپرٹ تھا اس لیے آئے روز دشمن کے کیمپوں، جیپوں، بنکروں میں دھماکے ہونے لگے۔ کپواڑہ میں بھارتی فوج نے سڑکوں پر بنکر بنا رکھے تھے جن میں دو دو تین تین فوجی کر وقت موجود رہتے۔ ان بنکروں کی وجہ سے بھارتی فوج کے قافلے بھی محفوظ رہتے اور ان میں موجود فوجی تلاشی کے بہانے سول گاڑیوں کو روک کر ان کی تذلیل بھی کرتے۔ ساجد جہادی کو جب اس صورت حال کا علم ہوا تو اس نے ایک رات کئی بنکروں میں ٹائم بم لگا دیے۔ صبح جب بنکروں میں آبیٹھے تو کچھ ہی دیر بعد درجن بھر فوجیوں سمیت بنکر دھماکے سے اڑ گئے۔ اس کے بعد متعدد فوجی جیپوں پر حملہ اور بھارتی فوجیوں کی روز افزوں ہلاکتیں جہادی کو کھلی وادی میں لے گئی۔ کپواڑہ چھوٹا اور سرحدی گاؤں تھا اس لیے بھارتی فوج وہاں ہونے والے نقصان کو چھپانے میں کامیاب رہتی تھی۔ اس لیے جہادی کی تشکیل چیوا، صفا پورہ میں کر دی گئی۔ پھر جلد ہی ساجد جہادی ایک عام مجاہد سے کمانڈر بنا اور پھر تحصیل کمانڈر، ڈسٹرکٹ کمانڈر سے ہوتا ہوا کمانڈر انچیف کے عہدے تک پہنچ گیا۔
جب 2000 میں پاکستان کے جید علمائے کرام کی سرپرستی میں اور مولانا مسعود اظہر حفظہ اللہ تعالیٰ کی قیادت میں جیش محمد قائم ہوئی تو ساجد جہادی پر ایک بھاری ذمے داری آن پڑی۔ وہ اس وقت حرکۃ الانصار کی طرف سے کمانڈر انچیف تھے۔ اب ایک نئی تنظیم میں شمولیت پر انہیں نہایت تدبر سے کام لینا تھا۔ اس لیے انہوں نے سب سے پہلے اپنے تمام ڈسٹرکٹ کمانڈرز کو خط لکھا کہ اپنے ماتحت تمام مجاہدین کی رائے معلوم کریں۔ اور خود بھی نئی تنظیم اور پرانی تنظیم کے مابین موازنہ کیا اور ساتھ ہی جیش محمد کے ذمے داران سے بھی مستقبل کی گارنٹیز حاصل کیں۔ ڈسٹرکٹ کمانڈرز نے خطوط میں جیش محمد میں شمولیت کا اظہار کیا۔ یوں ساجد جہادی المعروف غازی بابا نے جیش محمد میں شمولیت اختیار کر لی۔ یہ اتنا اہم معاملہ تھا کہ اگر اس میں ذرا بھی غلطی ہوتی تو وادی میں موجود سینکڑوں مسلح مجاہدین میں انتشار پھیل سکتا تھا۔ مگر غازی بابا نے اپنے آپ کو ایک ذمے دار کمانڈر انچیف ثابت کیا۔
غازی بابا نے بھارت کو کئی ناقابل برداشت اور ناقابل فراموش زخم دیے۔ مگر انڈین پارلیمنٹ حملہ خوامخواہ ان پر تھوپا گیا۔ دراصل بھارت غازی بابا سے اتنا خوف زدہ تھا کہ پارلیمنٹ حملے کا ذمے دار انڈین میڈیا نے غازی بابا کو قرار دیا اور ایک بے ڈھنگا سا خاکہ بنا کر مشہور کر دیا۔ خاکے کے نیچے لکھا تھا "غازی بابا?? بھارت کا اسامہ"، اور پکڑنے والے یا اطلاع دینے والے کے لیے انعام وغیرہ کی تفصیل لکھی تھی۔
ایک مصنف نے اپنی کتاب میں لکھا کہ غازی بابا کی گولی سے مرنے والے بھارتی فوجیوں کی تعداد کم از کم 100 تھی۔ اور یہ تعداد ان آخری دو ڈھائی سالوں کی ہے جب غازی بابا سری نگر میں چلتے چلتے کسی فوجی کو پھڑکا دیا کرتے تھے۔ ان کے مائن بلاسٹ، اجتماعی حملوں اور فدائی حملوں میں مرنے والے فوجیوں کی تعداد اس سے علیحدہ ہے۔
آخر اگست 2003 میں غازی بابا نے پاکستان واپس آنے کا پروگرام بنایا اور اپنے گھر بھی بات کی۔ اسی سلسلے میں اپنی ذمے داریاں منتقل کرنے کے لیے نائب کمانڈر راشد بھائی کو سری نگر بلایا۔ مگر غازی بابا کو واپس پاکستان جانا نصیب نہ ہوا۔ 30 اگست 2003 کو بھارتی فوج نے ہزاروں فوجیوں کے ساتھ حملہ کر کے جہاد ہند کے اس شہباز جرنیل کو شہید کر دیا۔ اس حملے میں غازی بابا کے ساتھ نائب کمانڈر راشد بھائی بھی شہید ہوئے۔ غازی بابا کی اہلیہ سعدیہ جہادی کو ان کی سوا سالہ بیٹی کے ساتھ چار روز تک حراست میں رکھا گیا۔
(نوٹ: یہ تمام معلومات غازی بابا پر لکھی گئی کتاب "جہادِ ہند کا شہباز جرنیل " سے لی گئی ہیں جس کی مصنفہ ان کی اہلیہ ہیں۔)