Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Faisal Abbasi
  4. Kashti e Jan To Bhanwar Mein Hai Kai Barson Se

Kashti e Jan To Bhanwar Mein Hai Kai Barson Se

کشتی جاں تو بھنور میں ہے کئی برسوں سے

نو مئی کو پاکستان تحریک انصاف کے مقبول رہنما عمران خان نیازی صاحب کی گرفتاری کے بعد ردعمل کے طور پر جو کچھ ہوا اس کے منطقی نتائج جب ظاہر ہونا شروع ہوئے تو گویا سارا منظرنامہ یکسر بدل گیا۔ عامیانہ نظر کا مشاہدہ تو یہی ہے کہ تحریک انصاف آسمان سے زمین پر آگری مگر گہری نظر سے مشاہدہ کیا جائے تو اس سب کا نقصان دیگر سیاسی جماعتوں بشمول پی ڈی ایم اتحاد کو بھی ہوا۔

یہ بات ذہن نشین رہے سیاست دان اس سے قبل بھی گرفتار کیے جاتے رہے ہیں اور وزیر اعظم کے منصب پر ہوتے ہوئے وزیر اعظم ہاوس کا گیٹ پھلانگ کر بھی ان کی گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں مگر پردہ اسکرین پر کبھی کسی کی تذلیل ہوتی نہیں دکھائی گئی۔ اس لئے عمران خان صاحب سے لاکھ اختلاف کے باوجود ان کی رینجرز کے ہاتھوں توہین آمیز گرفتاری اور پھر اس پر دانشوروں اور عوامی نمائندوں کی خاموشی میرے نزدیک ایک مجرمانہ فعل ہے۔ ایک عوامی لیڈر کی اس طرح تذلیل بلاشبہ قابلِ مذمت ہے۔ اگر پی ڈی ایم رہنماؤں میں ذرا سی عقل، حیا اور اصولوں کی پاسداری ہوتی تو اس گرفتاری کے طریقہ کار کی ضرور مذمت کرتے اور وزیراعظم کا فرض تھا کہ وہ سپریم کورٹ میں بات جانے سے پہلے اس معاملے میں ملوث لوگوں کی نشاندھی کرواتے اور ایسا کرنے سے خود ان کے اپنے وقار میں اضافہ ہوتا۔

مولانا فضل الرحمان صاحب جیسے زیرک اور دور اندیش شخص سے بھی یہ توقع نہیں تھی کہ وہ سویلین لوگوں کے کیسز فوجی عدالتوں میں چلائے جانے کی حمایت کریں گے بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ باوجود اپنے تحمل مزاجی اور بردباری کے یہاں مولانا عمران خان بارے عناد کا شکار ہوئے یا پھر عمران خان صاحب کے اقدامات اور عدلیہ کی غیر معمولی سہولت کاری نے موجودہ حالات میں کسی اپنے اورپرائے کے لئے کوئی رستہ ہی نہیں چھوڑا کہ جس کے ذریعے وہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے جارحانہ انداز کو منصفانہ انداز میں بدل سکے۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے کارکنان سے کسی قسم کے سنجیدہ ردعمل کی توقع رکھنا تو خیر ہتھیلی پر سرسوں اگنے کی توقع سے بھی شاید زیادہ احمقانہ ہو لیکن پارٹی کی سنجیدہ قیادت بھی اس معاملے میں بے بس نظر آئی اور پارٹی پر قابض گھس بیٹھئے اس مرتبہ بھی نقب زنی میں کامیاب رہے اور جذباتی اور سیاسی سمجھ بوجھ سے عاری پارٹی کارکنان سے وہ کچھ کروا ڈالا جس پر اگر پاکستانی افواج رد عمل کے طور پر طاقت کا استعمال کرتی تو بعید ازقیاس نہیں ہے کہ ایک اور مکتی باہنی کا جنم ہوتا۔

فوج کی قیادت نے حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے جس تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا وہ یقیناً قابلِ تحسین ہے۔ مگر اس سب کے باوجود اس وقت بھی سب اچھا نہیں ہے بحران شدید سے شدید تر کی جانب عازم سفر ہے گو کہ اس کا زور کچھ تھم گیا ہے مگر لاوا اب بھی کہیں پک رہا ہے۔ بہر طور موجودہ حالات میں امتحان صرف پی ٹی آئی کا نہیں بلکہ تمام سنجیدہ سیاست دانوں کا ہے۔ ملک کو پھر انیس سو اکہتر جیسے حالات کا سامنا ہے یا شاید اس سے بھی بد تر کا کہ اکہتر کی نسبت آج معیشت کی زبوں حالی کہیں بڑھ کر ہے اور اغیار کی سازشیں ایسی کہ چومکھی لڑائی کا لفظ بھی شاید اس کا احاطہ نہ کر پائے۔ کیا اس کشتی کو پار لگانے کی صلاحیت ملک کی موجودہ قیادت میں ہے؟

خود کو اہل وفا سمجھتے ہیں

اوروں کو بے وفا سمجھتے ہیں

پار کشتی لگا کے دکھلائیں

خود کو گر ناخدا سمجھتے ہیں

اس وقت ملین ڈالر سوال یہی ہے کہ آخران سب بحرانوں کا حل کیا ہے؟ جیسے ہر بیماری کے لئے کوئی نہ کوئی نسخہ ہوتا ہے تو پھر کوئی تو ایسا نسخہ ہوگا جس کےذریعے ان بحرانوں پر قابو پایا جاسکے۔ جی ہاں نسخہ بھی ہے لیکن اگر قوم کا حال اس مریض جیسا ہو جو دوائی دسترس میں ہونے کے باوجود استعمال نہ کرے اور درد کی شدت سے ہائے ہاے چلاتا پھرے تو اس میں قصوروار کون ہوگا؟

قوم کے مسائل کا واحد حال وہ نسخہ ہے جس کے علاوہ پچھتر برس میں تمام نسخہ جات آزمائے جانے کے بعد حال یہ ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ یہ وہی نسخہ ہے جسے غلاف میں سجا طاق کی زینت بنا دم درود، بیماری اور جادو وغیرہ کے لئے تو قابل عمل سمجھا جاتا ہے مگر باقی زندگی کے ننانوے اعشاریہ نو نو فیصد افعال میں اس کے احکامات پر عمل سے انحراف کیا جاتا ہے۔

کیا کبھی وہ کشتی بھی پار لگی ہے جسے ساحل کی مخالف سمت دھکیلا جارہا ہو؟

کشتی جاں تو بھنور میں ہے کئی برسوں سے

اے خدا اب تو ڈبو دے یا کنارا لادے

Check Also

Amjad Siddique

By Rauf Klasra