Istehkam e Pakistan Ki Koshishen
استحکام پاکستان کی کوششیں
76 سالہ تاریخ کی بلند ترین مہنگائی کے دور سے گزرتا ہوا ہمارا پیارا وطن پاکستان مسلسل استحکام کی کوشش میں مگن ہے۔ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر بنا ہوا یہ ملک شروع سے ہی مشکلات میں دوچار ہے جو آتا گیا حکومت سنبھالتا گیا اور اس کو مزید مشکلات میں دھکیلتا گیا تین مرتبہ مارشل لاؤں سے گزرتے ہوئے اس وطن پر امراء نے بھی حکومت کی اور جمہوروں نے بھی حکومت کی سب نے اپنے حصے کی شمع جلائی اور اس کو یہاں تک پہنچانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جمہوریت کے ذریعے عوام کے منتخب نمائندے ہمیشہ سے ہی اس کی ترقی میں ناکام رہے ہیں کوئی بھی وزیراعظم اس ملک میں اپنے عہد کے پانچ سال پورا نہ کر سکا۔ ہماری قوم کا تو ہمیشہ سے ہی یہ المیہ رہا ہے کہ ہر آنے والی حکومت پر تنقیدی وار کرتے رہتے ہیں۔ ہم نے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور پڑوسی ممالک سے قرضے لیے ہوئے ہیں اور اب وہ قرضے چکانے کا وقت آگیا ہے اور ہمارے پاس اتنے ذخائر موجود نہیں کہ ہم ان قرضوں کی قسطیں ادا کرسکیں۔
ہم نے آئی ایم ایف کے قرضے کی قسط ادا کرنے کے لئے ایک اور آئی ایم ایف پیکج 2025 لے لیا ہے جس کی پہلی قسط ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر کی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو موصول ہوئی ہے جس سے ہمارے ملک میں معاشی استحکام آنے کی امید روشن ہوئی ہے اور حال ہی میں ہمارے وزیراعظم میاں شہباز شریف بھی کہہ چکے ہیں کہ آئی ایم ایف کی اس قسط سے پاکستان ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا ہے اور اس پیکج سے ہمارے ملک میں معاشی استحکام آئے گا۔
قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہمارے ملک کا اولین حل سرمایہ کاری ہی نظر آرہا ہے۔ جس حوالے سے سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کی ہر مشکل حالات میں مدد کی ہے اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے سعودی عرب نے پاکستان میں پانچ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے طے کرنے کا خواہش مند ہے۔ جس سے ملک میں معاشی استحکام آئے گا لیکن معاشی استحکام لانے کے لئے سیاسی استحکام کی بھی ضرورت ہے۔
ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت جس نے الیکشن 2024 میں سب سے زیادہ نشستیں جیتی ہیں ان کو دیوار کے ساتھ لگانا کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ان کی قیادت کو جیلوں میں بند کرنا کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ سیاسی استحکام صرف ایک صورت ممکن ہے کہ حکومت کو سب جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا بانی پی ٹی آئی کو جیل سے نکال کر بنی گالہ ان کی رہائش کا منتقل کیا جائے۔
سینئر سیاستدان میاں نواز شریف یا صدر پاکستان آصف علی زرداری کو ملک کی خاطر اس نفرتی سیاست کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے الیکشن 2024 پر جو بھی تحفظات ہیں اس پر ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے اور اگر ممکن ہو سکے تو اس کا صدر مولانا فضل الرحمن کو بنایا جائے کیونکہ پی ٹی آئی بھی ان پر اطمینان کا اظہار کرے گی۔ وہ کمیٹی ان نشستوں کی جانچ پڑتال کرے جس پر پی ٹی آئی کو تحفظات ہیں اور اگر تو واقعی ان کے تحفظات ٹھیک ہیں تو وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کو ملک پاکستان کی ترقی کی خاطر مستعفی ہوجانا چاہیے اور اگر تو ایسا نہیں ہے تو پی ٹی آئی کو گالی گلوچ کی سیاست چھوڑ کر ملک کی سلامتی کے لیے حکومت کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ کر تمام ملکی مسائلوں کے حل کے لئے مدد کرنی چاہیے۔
ہمارے ملک میں معاشی استحکام صرف سیاسی استحکام سے ہی ممکن ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارا ملک اندھیروں سے نکل کر روشنی میں اکر ترقی کراپ اور گامزن رہے۔