Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Tasneem Ikram/
  4. Hum Ke Thehre

Hum Ke Thehre

ہم کہ ٹھرے

اپنی ربع صدی کی گورنمنٹ کی نوکری کے دوران کی گئی الیکشن ڈیوٹیز کی تناظر میں میں ہمیشہ یہی سمجھتی رہی کہ سامان لینے سے لے کر پولنگ کروانے گنتی کرنے، نتائج مرتب کرنے اور نتائج کو جمع کروانے تک تمام مراحل کی ذمہ داری صرف اور صرف پریزائڈانگ افسر کے نازک کندھوں پر ہوتی ہے۔ باقی عملے کے لئے تو بس راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔

میری اس رائے کو بدلنے میں حالیہ الیکشنز نے ایک اہم کردار ادا کیا جن میں میں پریزائڈنگ کی بجائے سینیئر اسسٹنٹ پریزائڈنگ ہونے کے ناطے میں بہت شانت تھی چاروں اور ہرا ہی ہرا نظر ارہا تھا۔ لیکن عادت سے مجبور میں پھر بھی الیکشن کے روز فجر کی نماز کے فورا بعد گھر سے روانہ ہوگئی۔ پریزائڈنگ کے ساتھ مل کے مختلف انتظامات کیے۔ پریزائڈنگ افیسر نے ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات دیکھ کے ایک کمرہ میرے حوالے کر دیا ویسے بھی دو شیر ایک کچھار میں کہاں سما سکتے تھے۔

جو نہی پولنگ کا ٹائم شروع ہوا تو خواتین نے دھاوا بول دیا میرا خیال تھا کہ یہ لوگ چھٹی کے دن سے لطف اندوز ہوں گے مگر یہ تو صبح سویرے ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کے لئے کمر بستہ ہو چکے تھے۔ اگرچہ لکھنے کی سپیڈ تو میری بہت ہی زیادہ تیز ہے لیکن یہاں تو وقت کم اور مقابلہ سخت تھا۔

بیلٹ پیپر پر ہر خاتون کے کوائف کا اندراج کرنا، ان کے انگوٹھے لگوانا، دو مہریں لگانا اور دو بار اپنے دستخط کرنا سٹیل کا پیمانہ رکھ کے بیلٹ پیپر الگ کرنا، مہر پر سیاہی لگا کر ان کے حوالے کرنا، پرچی پر نشان لگانے کی جگہ کی نشان دہی کرنا، مہر لگانے کاصحیح طریقہ بتانا اور نعرہ مستانہ بلند کرنا کہ "سفید وچ سفید تے ہرے وچ ہرا"۔ واپسی پر متعلقہ خاتون سے نو خانوں والی مہر واپس لینا، شناختی کارڈ واپس لوٹانا اور پھر با آواز بلند لہک لہک کے دوبارہ اعلان کرنا پڑتا کہ "چٹے چہ چٹا تے ساوے چہ ساوا" تب کہیں جا کے ایک ووٹ اپنی منزل مقصود تک کامیابی سے پہنچ پاتا۔

یہی میکانکی عمل گھنٹوں تک بے اندازہ رفتار سے بے تکان کرتے چلے جانا ایک صبر ازما مرحلہ تھا۔ سر کھجانے کی فرصت نہیں تھی اور تمام خواتین کی یہی کوشش کہ سب سے پہلے ان کا ووٹ بھگتا دیا جائے اور بس۔

کوئی بزرگ تھیں تو کسی کا بچہ چھوٹا، کوئی بیمار تھیں تو کسی کو گھر پہنچ کےکھانا بنانا تھا، کسی کی شوگر لو ہو رہی تھی تو کسی کا بلڈپریشر ہائی، کسی کو دکھائی نا دیتا تھا تو کوئی سن نا سکتی تھیں۔ جن کے سب حواس خمسہ درست تھے ان کا ذہنی توازن بگڑا ہوا تھا۔ سوائے چند ایک کے باقی سب کیسز میں کوشش یہی تھی کہ کسی بھی طریقے سے جلد از جلد فارغ ہو سکیں یا مددگار کے طور پر متاثرہ خواتین کو اپنی من مرضی کے مطابق ووٹ ڈلوا سکیں۔ یہ عالم شوق کا دیکھا نا جاے مگر ہمیں با دل نا خواستہ دیکھنا تھا۔ اسسٹنٹ پریزائڈنگ جو ٹھرے۔

بہت رش اور بے ہنگم شور سے مجبور ہو کے کئی بار دل چاہا کہ پولنگ روکنے کے احکامات جاری کر دوں اور ضرورت سے زیادہ تیزی دکھانے والوں کو کورٹ کچہری کی راہ دکھاؤں مگر۔ یہ نا تھی ہماری قسمت۔ ہم کوئی درجہ اول مجسٹریٹ تھوڑی تھے۔

پولنگ ایجنٹس الگ ہی پریشر ککر بنے ہوئے تھے۔ ان کی ایک ہی سیٹی کہ یہ کیا کر دیا؟ وہ کیوں نہیں کیا؟ ایسے نہیں ہونا چاہیئے تھا، ویسے نہیں کرنا تھا۔ سب ریت پر دانوں کی طرح بھن رہے تھے۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ پولنگ ختم ہونے سے پہلے ہی اپنے اپنے امیدوار کی جیت والا فارم 45 کسی نا کسی طرح اچک لیں اور یہ سند امتیاز حاصل کرنے میں صرف پولنگ کا عملہ حائل تھا۔ جو کہ ان کو کامیابی کا جشن منانے سے روک رہا تھا۔

اپنی ازلی خوش مزاجی کی بدولت منت ترلے سے ہی کام لیا۔ کچھ ان کی سنی کچھ اپنی چلائی اور انتخابات کے پر امن انعقاد جیسے قومی فریضے میں اپنا بہترین کرادار ادا کرکے رات گئے گھر واپسی ہوئی۔

Check Also

Kya Falasteen Haar Gaya?

By Asif Mehmood