Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Tasneem Ikram
  4. Ab Inhen Dhoondh Chiragh Rukh e Zeba Lekar

Ab Inhen Dhoondh Chiragh Rukh e Zeba Lekar

اب انہیں ڈھونڈھ چراغ رخ زیبا لے کر

اولاد کے دل میں باپ کا مقام اور مرتبہ ماں متعین کرتی ہے۔ باپ تو روزی روٹی کے چکر میں، دنیا کے بکھیڑوں میں سارا دن گھر سے غائب رہتے ہیں اور ماں پھر بھی انہیں کو پردھان بنائے رکھتی ہے کہ تمہارے باپ کو یہ پسند نہیں، وہ پسند نہیں، آ لینے دو اپنے باپ کو؟ باپ چاہے کچھ بھی نا کہے بچے کے ذہن میں والد کا تصور سپریم پاور کے طور پر ابھرتا ہے اور ہمارے والد صاحب نے تو خود اپنے شفقت آمیز رویے سے ہمارے دلوں میں گھر کر رکھا تھا۔۔

لوگوں سے سنا تھا کہ والد اتنے سخت ہوتے ہیں کہ جب وہ گھر میں قدم رنجہ فرماتے ہیں تو بچے بھاگ کے کسی نا کسی کام میں جت جاتے ہیں اور یوں منہمک نظر آ کے ان کے غصے سے اپنی جان بچاتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں والد صاحب کا ایک منفرد تصور تھا۔ گیلری میں ان کے کھنگورے کی آواز سن کے ہم سب بہن بھای برساتی مینڈکوں کی طرح کونوں کھدروں سے باہر نکل آتے اور ان کے اردگرد جمع ہو جاتے۔ کچھ ان کی سنتے کچھ اپنی سناتے۔ میں نے بات کرنے کا ہنر بھی ان سے سیکھا۔ ہمیشہ رہنمای کرتے کہ بات ٹھہر ٹھہر کر کرتے ہیں اور "گل نوں لکوں نہیں پھڑی دا" (بات/واقعہ ترتیب سے بتاتے ہیں )۔۔

کئی سہیلیوں کے منہ سے سنتے تھے کہ ہمارے والد ہم پر بہت پابندیاں لگاتے ہیں مگر میں نے ابا جی کے منہ سے کسی بھی کام کے لیے کبھی نا نہیں سنی۔ کسی بات کی اجازت لینی ہوتی تو کہتے اپنی امی سے پوچھ لیں۔ امی سے پوچھنا تو وہ کہتیں اپنے ابا جی سے پوچھ لیں اور یوں ہم ایک سے دوسرے کے کورٹ میں گیند کی طرح گھومتے رہتے اور پتا ہی نا چلتا کہ کیسے ہمیں غیر محسوس طریقے سے سمجھابجھا دیا جاتا کہ یہ کام ٹھیک نہیں، یہ نہیں ہو سکے گا اور ہم ہنسی خوشی مان چکے ہوتےاور کوی پابندی والا شایبہ تک نا گزرتا۔۔

ایک بات جو اپنے اباجی کی مجھے بہت پسند آتی تھی بلکہ میں اپنی زندگی میں اس کو لاگو کرنے کی کوشش بھی کرتی ہوں وہ تھی کامیابی اور ناکامی ہر دو صورتوں میں حوصلہ افزای۔۔

ان دنوں جب لوگ بیٹیوں کو سکول کالج بھیجتے ہوے سو بار سوچتے تھے وہ بیٹیوں کی تعلیم وتربیت پر کھلے دل سے خرچ کرتے۔۔ دو تین بیٹیوں کی پرورش پر نبی پاک ﷺ نے جنت کی بشارت دی تھی اور میرے ابا جی نے تو چار چار بیٹیوں کی مقدور بھر شاندار پرورش کی۔۔ اعتماد کا رشتہ تھا ہمارا اور ان کا۔۔

میں نے اپنے "ابا جی" کو "چا چا جی" نہیں کہنا"۔۔ میں اپنے ابا جی کی بیٹی ہوں میں ان کو ابا جی ہی کہوں گی۔۔ پانچ چھ سالہ میں اپنی امی سےضد کیا کرتی تھی اور برسوں بعد جب مجھے اس پس منظر کا پتا چلا کہ ہم بہن بھایوں کو اپنے ابا جی کو چاچا جی کیوں کہنا تھا تومیں اپنے والد صاحب کی دریا دلی، دور اندیشی اور وسعت قلبی کی مزید معترف ہوگئی اور ان کے لیے دل میں موجود ڈھیروں محبت اور عزت اور بھی بڑھ گئ۔۔

جب ہمارے تایا جی بھری جوانی میں دو معصوم بچوں کو چھوڑ کے راہئی ملک عدم ہوئے اور ابا جی نے ان بچوں کو اپنے سایہ عاطفت میں لیا تو انہوں نے میری امی جی سے کہا کہ "جب میرے بچے مجھے ابا جی کہیں گے تو ان بچوں کے ذہن میں اپنے ابا جی کے بارے میں سوال اٹھیں گے اور جواب سن کےان کو احساس محرومی ہوگا"۔۔ تو انہو ں نے فیصلہ کیا کہ گھر میں سب بچے ان کو "چاچا جی" ہی کہا کر یں گے۔

مجھ سے بڑے بہن بھائی ان کے اسی فیصلے کو نبھاتے چلے آ رہے تھے صرف میں نے ہی اس رٹ کو پہلی بار چیلنج کیا تھا یہی نہیں بلکہ سکول میں خود ہی اپنا نام" تسنیم رعنا" سے "تسنیم اکرام" بدلوا لیا۔۔ میں اپنے ابا جی کی بیٹی جو تھی۔۔

ابا جی سے دھیمی طبیعت کے علاوہ میں نے کیا کچھ نہیں سیکھا کچھ حساب نہیں مگر اپنا مسلک چھوڑو نہیں کسی کا مسلک چھیڑو نہیں۔ کمزور اور بے بس کی حمایت۔ سب کے حقوق کی پاسداری۔ صبر اور برداشت لیکن جہاں پر حد ہو جاے فورا اگلے کی حدود متعین کر دینا۔ جھوٹ اور چوری سے نفرت۔ محنت اور جفاکشی۔ وقت کی پابندی۔ رزق حلال۔ ملازمت کے ساتھ پورا پورا انصاف چند ایک ایسی باتیں ہیں جو ان کی تربیت کی ہی مرہون منت رہیں۔۔ اور یہ سب تقریر یا وعظ کرکے نصیحت نہیں کی گئی۔ ان سب خصوصیات کا وہ چلتا پھرتا نمونہ تھے۔۔ سو ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر ہی چلنا تھا۔۔

ہمیں اپنی جگہ پر لگا ھوا دانت چھوٹا سا محسوس ھوتا ھے مگر جب وہ دانت گر جاتا ھے تو اتنا بڑا خلاء چھوڑ جاتا ھے اور انسان وہاں انگلی رکھ رکھ کر تصدیق کرتا ھے کہ "ہیں؟ واقعی ایک دانت گِرا ھے؟"کچھ رشتے جب پاس ھوتے ھیں تو ان کی اہمیت کا اتنا اندازہ نہیں ہوتا مگر جب چھوڑ جاتے ھیں تو ایک دنیا مل کر بھی اس خلا کو پُر نہیں کر سکتی۔ انسان بھری دنیا میں اکیلا رہ جاتا ہے۔ انہی میں سے ایک رشتہ والد کا بھی ہوتا ہے۔ اور میری تو ماں کی جگہ بھی وہی تھے۔۔

کسی بھی خوشی کسی بھی کامیابی کے موقع پر پہلا خیال یہی ہوتا ہے کہ اگر۔۔ اگر ابا جی ہوتے تو۔۔ کتنا خوش ہوتے۔۔ خوشی کے باوجود ایک خلش، ایک کسک سی رہ جاتی ہے اور دکھ پریشانی میں بھی وہی یاد آتے ہیں۔۔ کہ اگر وہ ہوتے۔۔ اگر ہوتے۔۔ تو یہ پریشانی یہ دکھ شاید پیش ہی نا آنے دیتے۔۔

میرا باپ کم نا تھا میری ماں سے۔۔

ماں باپ کی قدر ان کی زندگی میں کریں۔ جب ہمیں خود اس بات کی احتیاج ہوتی ہے اپنی اولاد سے تب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ماں باپ کا نعم البدل کوئی نہیں۔۔

Check Also

Haye Kya Daur Tha Jo Beet Gaya

By Syed Mehdi Bukhari