Koi Mar Gaya Hai Kya, Kis Baat Par Afsos Karen?
کوئی مر گیا ہے کیا، کس بات پر افسوس کریں؟
یہ وہ دور ہے کہ جس میں مجھے باہر نکلنے سے بڑا ڈر لگتا ہے، کوئی بھی انسان نظر نہیں آتا ہر طرف بس موبائل پھر رہے ہیں۔ کیا یہ المیہ نہیں ہے کہ لوگ زبانوں سے بات کرنے کی بجائے انگلیوں سے باتیں کرنے میں لگے ہیں۔ کیا یہ دکھ کم ہے کہ یہ جدیدیت، ہماری جذباتیت کو نگل گئی ہے؟ کوئی مر جائے تو آنلائن پرسہ بھیج دیا جاتا ہے۔ وقت کی تیز رفتاری مروت کو بھی کھا گئی ہے۔ لوگ ایک ڈبے سے نمبر ملا کر دوسرے ڈبے والے بھائی کو وقت کی قلت کا رونا روتے ہوئے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ کاش وہ دکھ کی اِس گھڑی میں پہنچ سکتے۔ کیا اِس بات پر ماتم نہیں بنتا کہ ہم وقت کی قلت کو تو رو رہے ہیں مگر مردہ ضمیروں کو نہیں رو رہے۔ بےحسی اور خود غرضی کو نہیں رو رہے۔
یہ لوگ کیوں نہیں سمجھتے کہ غم کی گھڑی میں آواز کے ساتھ ساتھ وجود کا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ انسانی وجود سب سے بڑا حوصلہ ہوتا ہے اور ہم دور سے بس آواز سنا کر سمجھتے ہیں کہ لو بس دے دیا حوصلہ، کر لیا افسوس۔ ہوگئی ذمہ داری پوری۔ کیا یہ افسوس کا مقام نہیں ہے کہ ہماری تسلیاں مر گئیں ہیں۔ ہمارے کندھے غائب ہو گئے ہیں۔ کوئی روئے بھی تو کس کے کندھے پر سر رکھیں؟ کس سے کہیں کہ ہمارا کوئی بہت اپنا ہمیں چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ ہمارے سر ہمارے بڑوں کی شفقت سے محروم ہو گئے ہیں۔ یہ کیسا دور آ گیا ہے کہ کوئی کہتا ہی نہیں کہ صبر سے کام لو۔ کوئی تسلی ہی نہیں دیتا۔
یہ فون ہمارے جنازے اور میتیں نگل گئے ہیں۔ آداب، مروت اور احساس میڈیائی حد تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ نیٹ کی دنیا کے رشتے، حقیقی رشتوں کو بھنبھوڑ بھنبھوڑ کر کھا رہے ہیں اور ہم تماشائی بنے سب دیکھ رہے ہیں۔ سب فرائض کو آنلائن پورا کر دیا جاتا ہے اور فزیکل فرائض ہواؤں کی نظر ہو جاتے ہیں۔
یہ دوریاں کس نے ایجاد کی ہیں؟ گوشت کے لوتھڑے کو پتھر دل کس شے نے کر دیا ہے؟ یہ بےحسی کس نے بنائی ہے؟ احساس کیوں مر گیا ہے؟ یہ کس دنیا میں آ گئے ہیں ہم؟ یہ جہان کون سا ہے؟ یہ گردن جھکائے زندہ لاشیں کون ہیں جو چل پھر رہی ہیں۔ یہ کون سی مخلوق ہے جو ہر شے پکسلز کی آنکھ سے دیکھنے کی عادی ہو چکی ہے؟ یہ کون ہیں کہ جن کے جذبات فون کی سفید چادر پر کڑھے جا رہے ہیں۔
یہ کہاں آ گیا ہوں میں کہ جہاں کوئی بھی سر اُٹھا کر بات نہیں کر رہا۔ کوئی تو اِن کو بتائے کہ سر اُٹھاؤ گے تو سامنے کچھ نظر آئے گا۔ کچھ دیکھو گے تو بات کرو گے۔ کچھ نظر آئے گا تو نقصانات کا تخمینہ لگا پاؤ گے۔ کوئی اِن کو بتائے کہ خدا کے لیے سر اُٹھا لو، سامنے دیکھ لو۔ مگر شاید یہ زندہ لاشیں بہری ہو چکی ہیں کہ جنہیں مردہ ضمیروں کی چیختی چنگھاڑتی آوازیں بھی سنائی نہیں دے رہی ہیں اور شاید اِنہیں یہ احساس نہیں ہے کہ تاریخ ایسے لولے، لنگڑے اور اندھے معاشرے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا کرتی ہے۔