Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asif Ali Durrani/
  4. Tameez Tameez Tameez

Tameez Tameez Tameez

تمیز تمیز تمیز

تاریخی کہانی ہے ایک گاؤں میں ایک بندہ رہتا تھا۔ اس بندے کا نام میں آپ کو بعد میں بتاؤں گا۔ پہلے میں اس بندے کے کردار پر بات کرتا ہوں۔ اس بندے کی کمزوری پر بیان کرتا ہوں۔ اس بندے کی یہ کمزوری تھی کہ وہ ہر وقت اپنے پاس پستول رکھتا تھا مطلب جہاں پر بھی وہ جاتا تھا پستول اپنے ساتھ لے جاتا تھا، یوں سمجھیں کہ اپنے گھر سے بھی پستول کے بغیر نہیں نکلتا تھا۔ جب دوست یار ان سے ملنے کے لیے اس شخص کے گھر میں جاتے تو پستول دیکھ کر ڈر جاتے تھے۔

حالانکہ دوست تو دوست سے نہیں ڈرتا کیونکہ دوستی کا رشتہ تو ایسا ہوتا ہے کہ آپکو اپنے عزیز پر آنکھیں بند کر کے بھی اعتبار ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک وجہ تو یہ ہے کہ حقیقی دوست آپکو باطن تک پہچانتا ہے اور آپ دونوں کے درمیان عزت کے سوا اور کوئی پردہ نہیں ہوتا لیکن پھر بھی دوست اس سے ڈرتے تھے۔ اصل میں اس بندے کے دوست اس سے نہیں بلکہ اس کی پستول سے ڈرتے تھے اور اس بندے کا بھی اپنی پستول پر بڑا غرور تھا۔

جب وہ گھر سے نکلتا تھا تو بہت غرور اور تکبر کے ساتھ بازار میں چلتا تھا اور اپنے آس پاس کے لوگوں کو ڈراتا دھمکاتا جاتا۔ وہ جب بھی سودا سلف لینے بازار جاتا تو اردگرد کے لوگوں کو اپنے پستول سے ڈراتا تھا۔ مگر اس بندے میں ایسی کوئی اچھی خوبی و صلاحیت نہیں تھی کہ میں یہاں پر وہ بیان کروں کیونکہ یہ بندہ اپنا جسم بیچتا تھا۔ لیکن ایک دن شہر کے ایک بڑے اور طاقتور شخص نے اس بندے کو روکا، کیونکہ کسی کمزور بندے کا کام نہیں تھا کہ اس کو روکے اور اس کے ساتھ بات کریں۔

کیونکہ ظاہر سی بات ہے سارے لوگ اس سے پستول کی وجہ سے ڈرتے تھے۔ تو اس طاقتور بندے نے انتہائی احترام کے ساتھ اس پستول والے بندے سے سوال کیا میرے بھائی آپ یہ پستول کیوں اپنے ساتھ ہر وقت ساتھ رکھتے ہو؟ جہاں بھی جاتے ہو پستول آپکے پاس ہوتا ہے۔ آپ اس جان لیوا چیز پر اتنا غرور کیوں کرتے ہوں؟ یہ تو بہت خطرناک چیز ہے، اس سے کسی کی بھی جان جا سکتی ہے۔

پستول والے بندے نے ایک زوردار قہقہ لگایا اور اس نے انتہائی فخر کے ساتھ پہلوان و طاقتور شخص کو کہا کہ میں یہ پستول صرف اپنی عزت کے لیے اپنے پاس رکھتا ہوں۔ کیونکہ میں اپنا جسم بیچتا ہوں اس لیے اپنے پاس بندوق رکھتا ہوں اور بندوق کے بغیر گھر سے اس لیے نہیں نکلتا تاکہ کوئی مجھے کوئی طعنہ نہ دے، اور اگر کوئی طعنہ دے بھی تو میں اس کو مار دونگا۔ اس بندے کا نام امیر خان تھا۔

امیر خان پستول والی کہانی پاکستان کے ہر سیاستدان، جرنیل، بیوروکریٹس کے ساتھ ملتی ہے۔ کیونکہ پستول ان سب کے پاس ہے لیکن استعمال نہیں کرتے۔ صرف غریب عوام کو ڈراتے ہیں۔ ایک لحاظ سے یہ عادت اچھی بھی ہے کہ صرف ڈراتے ہیں مارتے نہیں اور قصور بھی غریبوں کا ہے کیونکہ انکے پاس علم نہیں ہوتا علم کی کمی کی وجہ سے وہ غلط کام کرتے ہیں، غریب قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے اس لیے انکو صرف ڈراتا ہے جس طرح ہم لوگ گھروں میں بچوں کو دیو اور دوسرے خوفناک قسم کے حیوانوں سے ڈراتے ہیں تاکہ ہمارے بچے غلط چیز کو ہاتھ نہ لگائے۔

لیکن خیر موضوع کی طرف آتا ہوں امیر خان کا یہ پستول پاکستان کا ایٹم بم ہے، اگر ہم اپنے ایٹم کا نام تبدیل کر کے اس کا نام امیر خان یا امیر خان کا پستول رکھ دیں تو غیر مناسب نہیں ہوگا۔ پوری دنیا میں جن جن ممالک کے پاس اٹامک بم ہے، اس میں ایک پاکستان بھی ہے۔ پاکستان دنیا کے ساتواں نمبر پر ہے پہلے نمبر پر امریکہ ہے، دوسرے نمبر پر روس جبکہ تیسرے نمبر پر چین ہے۔ یہ سب ممالک جن کے پاس اٹامک بم ہیں۔ ہر لحاظ سے دنیا کے امیر ترین ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔

ان ممالک کی اکانومی مضبوط ہے اور وہ دوسرے ممالک کو قرضے دیتے ہیں۔ لیکن صرف وہ واحد ہمارا ملک پاکستان ہے جن کے پاس اٹامک انرجی بھی ہے لیکن سب سے زیادہ غریب ملک ہے اور اس کا شمار بھی دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے حلانکہ پاکستانی پہاڑوں میں بہت سی معدنیات موجود ہیں۔ لیکن اس کو نکالنے کے لیے پاکستان کے ساتھ کوئی ایسی جدید ٹیکنولوجی نہیں ہے، کہ اس کے ذریعے وہ نکالے۔

دنیا میں جرمنی کے پاس ایٹم بم نہیں ہے لیکن اس کے باوجود جرمنی کا شمار دنیا کی سب سے بڑی اکانومی رکھنے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ ایٹمی طاقت کے باوجود جرمنی دنیا کے سب سے امیر ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ آج سے کئی سالوں پہلے انور مقصود اور معین اختر ایک نجی ٹیلی ویژن پر پروگرام کرتے تھے۔ ان کا پروگرام مزاحیہ بھی تھا اور طنزیہ بھی۔ ایک پروگرام میں معین اختر غریب بندے کے روپ میں بیٹھا تھا میزبان انور مقصود جب بھی ان سے سوال کرتا تو معین اختر پہلے انور مقصود پر غصہ کرتے مطلب غصہ ہو جاتے اور پھر موضوع سے ہٹ کر جواب دیتے۔

انور اس کو کہتا کہ تمیز سے بات کرو کافی مرتبہ معین اختر نے ایسی حرکت کی انور غصہ ہوۓ۔ دوسری طرف معین اختر نے غصے سے کہا تمیز تمیز تمیز۔ کھانے کے لیے روٹی نہیں ہے، رہنے کے لیے مکان نہیں ہے اور آپ بار بار کہتے ہو تمیز سے بات کرو۔ چند دن پہلے ایک نجی ٹیلی ویژن کے رپورٹر نے رپورٹ بنائی تھی ہٹلر کے دور میں بنائی گئی گاڑی پر گاڑی کا مالک کہ رہا تھا کہ میں جب یہ وین گھر سے باہر نکالتا ہوں تو لوگوں کی نظر میری گاڑی کی طرف ہو جاتی ہے یہ تاریخی بات ہے۔

سنہ انیس سو انتالیس میں ہٹلر نے ایک سائنسدان جس کا نام پورچے تھا حکم دیا کہ یہ گاڑی بناؤ۔ اسکے بعد اس سائنسدان نے ایک کروڑ گاڑیاں تیار کیں۔ ہٹلر کے دور حکومت میں بنائی ہوئی گاڑیاں آج بھی دنیا کی مہنگی اور مظبوط ترین گاڑیوں میں شمار کی جاتی ہیں جس کے چاہنے والے دنیا بھر سے ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں۔ میں امیر خان کے پستول کے بارے میں بات کررہا تھا۔

ایک غیر سرکاری رپورٹ کے مطابق اس وقت پورے ملک میں نہیں بلکہ صرف صوبہ خیبر پختونخواہ میں ایک کروڑ چار لاکھ بچے موجود ہیں۔ اس میں 57 ستاون لاکھ بچے سکول جاتے ہیں مطلب پڑھ رہے ہیں اور باقی بچے غیر تعلیم یافتہ ہیں سکول نہیں جاتے تعلیم حاصل نہیں کررہے کیونکہ غربت زیادہ ہے۔ یہ بچے ہمیں مزدور کی شکل میں گھروں، ریسٹورنٹ و ہوٹلوں، ورک شاپس، گاڑیوں کے بارگینوں میں نظر آتے ہیں۔ ان بچوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

ہم دفاع پر ہر سال سب سے زیادہ روپے خرچ کرتے ہیں مطلب بجٹ میں سب سے زیادہ پیسے دفاع کے لیے مختص کرتے ہیں۔ دفاع کے بارے میں ایک مثال آخر میں آپ لوگوں کے سامنے پیش کرونگا۔ پیسے تو زیادہ خرچ کرتے ہیں لیکن نتیجہ کیا ہے؟ یہ بھی بڑا سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان میں عوام روٹی کے لیے مر رہے ہیں سنہ بائیس میں جو سیلاب آیا تھا ملک میں اس سیلاب کی وجہ سے تقریباً ساٹھ فیصد عوام متاثر ہوئی، انکے گھر تباہ ہوئے لیکن کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔

سب امیر طبقہ یہ کہتا ہے کہ ہمارے پاس امیر خان کا پستول ہے آخر ہم اس امیر خان کا کیا کریں غریب کے گلے میں ڈال دے یہ پستول، کیا اس پستول سے اس کی بھوک ختم ہوگی؟ ایک دانشور نے کہا تھا غریب کا مذہب روٹی ہے۔ بھوک، معاشی بدحالی کی جب بات آتی ہے تو ہمارے پاکستان کے کچھ مخصوص محب وطن جو وطن پر ہر وقت جان قربان کرنے کے لیے بھی تیار رہتے ہیں۔ کہتے ہیں ہمارے پاس ایٹم بم ہے۔

وہ مثال یہ ہے یہ تو سب کو پتا ہے کہ ہر سال پاکستان کا دفاعی بجٹ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ ایک ہزار روپے ہیں اس میں ایک بندہ آ کے آٹھ سو روپے اٹھا کے اپنی جیب میں رکھتا ہے اور باقی جو دو سو روپے ہیں کہتا ہے کہ یہ دو سو روپے پورا سال خرچ کرو۔

آپ کے بچے ہیں وہ تعلیم حاصل کرتے ہیں، گھر کے اخراجات، ڈاکٹر و ہسپتال کے اخراجات وغیرہ وغیرہ۔ کیا ایک بندہ دو سو روپے پر پورا سال گزارا کر سکتا؟ کیا دو سو روپے میں ایک بندے کے ساری ضروریات زندگی پوری ہو سکتی ہے۔ آپ لوگ خود فیصلہ کرو کیا ایسا ممکن ہے۔ کیا دو سو روپے پر پورا سال ایک بندہ اپنی اور گھر بچوں کو سنھبال سکتا ہے؟

Check Also

Aap Ki Wazir e Aala Aur Digital Propaganda War

By Syed Badar Saeed