1.  Home/
  2. Blog/
  3. Arshad Ghazali/
  4. Muk Gaya Tera Show Niyazi

Muk Gaya Tera Show Niyazi

مک گیا تیرا شو نیازی

حکومت خواہ مسلم لیگ نون کی ہو پیپلز پارٹی کی یا تحریک انصاف کی ہر دور میں اپوزیشن کی طرف سے عوامی اجتماعات اور اسمبلی میں سیاسی نعرے بازی کا کلچر موجود رہا ہے، پچھلی حکومت کے دور میں تحریک انصاف کا مقبول ترین نعرہ "گو نواز گو" تھا جو باقاعدہ ٹرینڈ بن گیا تھا، یہ نعرہ موجودہ وزیراعظم عمران خان دھرنوں کے دوران بھی لگاتے رہے ہیں، بلکہ تحریک انصاف کی طرف سے تو اس نعرے پر نغمے تک تخلیق کروائے گئے، اب جب کہ عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت ہے، تو اپوزیشن خاص کر نون لیگ کی جانب سے "مک گیا تیرا شو نیازی، گو نیازی گو نیازی" کے نعرے کے گونج اکثر سنائی دیتی ہے۔

کیا اس نعرے میں کوئی حقیقت ہے، کیا عمران خان اپنے سارے پتے کھیل چکے ہیں، کیا عمران خان کے حکومتی شو کا پردہ گرنے کو ہے، کیا مقتدر حلقوں کی طرف سے مائنس عمران خان فارمولا یا تحریک انصاف کے متبادل کے طور پر نون لیگ یا پیپلز پارٹی کو ڈیل یا ڈھیل کے لئے "سپیس" فراہم کی جارہی ہے ان سوالات کا جواب اتنا اآسان نہیں ہے اور ابھی کچھ بھی حتمی طور پر کہنا قبل از وقت ہوگا، اگرچہ کچھ مخصوص صحافیوں اور اپوزیشن کا پورا زور اسی بات پر ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت جانے والی ہے اور نواز شریف جلد آکر ملک کی باگ دوڑ سنبھال لیں گے، مگر زمینی حقائق اور اپوزیشن کے تند و تیز بیانات اس سے کچھ مختلف منظر نامہ پیش کر رہے ہیں۔

اپوزیشن کے پاس عمران خان کی حکومت ختم کرنے کے دو ہی اپشن ہیں پہلا اپشن یہ ہے کہ حکومتی ارکان یا اتحادی جماعتوں کو توڑ کر تحریک عدم اعتماد لائی جائے اور عمران خان کو ہٹا دیا جائے اور دوسرا اپشن پیپلز پارٹی اورنون ن لیگ سمیت ساری اپوزیشن متحد ہوکر استعفے دے کر حکومت کو نئے انتخابات کی طرف جانے پر مجبور کردے مگر ان دونوں میں سے کوئی اپشن بھی فیصلہ سازوں کی مرضی اور منشاء کے بناء کامیاب ہونا ممکن نہیں تو کیا مقتدرحلقے حکومت کو گھر بھیجنے کے حق میں ہیں اس کا مختصر جواب ہے "نہیں "۔

اسٹیبلیشمنٹ اس موقعے پر بدانتظامی، نااہلی غلط سیاسی اور اقتصادی فیصلوں اور مہنگائی کے بوجھ سے زمین میں دھنستی اور عوام الناس میں مقبولیت کھوتی ہوئی تحریک انصاف کے وزیراعظم کو ہٹا کر سیاسی شہید بننے کا موقع فراہم نہیں کرے گی کیونکہ عمران خان حکومت چلانے کے لئے ناتجربہ کار سہی مگر انھیں مدت پوری کروائے بناء اگر اپوزیشن میں دھکیلا گیا تو وہ عوام میں جا کر سب کے لئے مصیبت کا باعث بن سکتے ہیں کیونکہ وہ وزیر اعظم کی حیثیت سے بہت سے رازوں اور حقیقتوں کے امین بھی بن چکے ہیں خاص کر جب کہ ناں تو ان کے ملکی و غیر ملکی کوئی بزنس کے مفادات ہیں اور ناں ہی ان کے کوئی موروثی سیاست کے وارث ہیں جن کے لئے انھیں کمپرومائز کرنا پڑے۔

دوسری اہم وجہ پیپلز پارٹی سندھ کی حکومت سے کسی صورت دست بردار نہیں ہوگی جس کا ثبوت ماضی میں استعفوں اور دیگر معاملات میں اپوزیشن اتحاد سے علیحدگی کی صورت میں نظر اتا رہا ہے، اس کے علاوہ اتحادی پارٹیاں بھی حکومت کی سرسبز چراہ گاہ چھوڑ کر بے یقینی کے صحراء میں بھٹکنے کی غلطی نہیں کریں گی اور ان سب سے بڑھ کر اس وقت ناں ہی کسی سیاسی پارٹی کی انتخابات کی تیاری ہے ناں ہی انتخابات کا ماحول اور ناں ہی منتخب اراکین اسمبلی انتخابات اور انتخابی مہم کے کروڑوں روپے پانچ سال کے بجائے ساڑھے تین سال کی مدت کے بعد ہی دوبارہ سے خرچ کرنے پر متفق ہوں گے۔

مزید اس وقت کرونا وباء کی وجہ سے عالمی سطح پر تیل کی بڑھی ہوئی قیمتوں، عالمی فوڈ چین کی سپلائی میں تعطل کی بناء پر مہنگائی کی لہر عروج پر ہے جب کہ کرونا کا نیا ویری اینٹ اومیکرون بھی سر اٹھا رہا ہے نیز ریکارڈ اندرونی وبیرونی قرضے، ڈالر کی اونچی اڑان اور کئی دیگر وجوہات کی بناء پر اس وقت کسی بھی پارٹی کے لئے حکومت سنبھالنا سراسر خسارے کا سودا ہوگا، اس لئے اپوزیشن خاص کر نون لیگی رہنمائوں کے سلگتے ہوئے بیانات اور دبائو بڑھانے کا مقصد بظاہر صرف نواز شریف کی وطن واپسی کے راستے کی تلاش، اپنے خلاف کیسز کے خاتمے کی کوشش اور اگلے انتخابات میں مرکز اور صوبوں میں حصہ داری کے سواء کچھ نظر نہیں ارہا۔ وزیر اعظم کی ایک بڑی غلطی کمزور حکومت کے ہوتے ہوئے اپوزیشن سےچھیڑ چھاڑ تھی۔

بجائے ساڑھے تین سال اپوزیشن کو مطعون کرتے گزارتے انھیں چاہئے تھا کہ جہاں اسلامو فوبیا، ماحولیات، ڈیمز، ایکسپورٹس اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے جیسے طویل مدتی اقدامات کر رہے تھے، وہیں عوام کو بنیادی اشیائے ضرورت میں سبسڈی دے کر مہنگائی کا اثر عوام تک ناں پہنچنے دیتے، پی ائی اے، اسٹیل مل اور ریلوے سمیت دیگر اداروں کو منافع بخش اور فعال بنا کر حکومت پر اخراجات کا بوجھ کم کرتے، زراعت، آئی ٹی، معدنیات، پراپرٹی، ٹیکس اور ٹیکسٹائل سمیت دیگر شعبوں میں اصلاحات متعارف کروا کے حکومتی امدنی میں اضافے کے ساتھ مقامی تجارتی اور پیداواری صلاحیت کو بڑھاتے جس سے درامدات کا بوجھ کم ہوتا، شرح نمو بہتر ہوتی اور ڈالر کا ریٹ بھی کنٹرول سے باہر ناں ہوتا مگر حکومت اور وزیراعظم صاحب کی ساری توجہ اپوزیشن کی کرپشن اور ماضی پر رہی اور وہ تبدیلی کے نعروں اور عوام سے کئے گئے وعدوں کو پایہ تکمیل تک ناں پہنچا سکے۔

اس وقت بظاہر عمران خان کی تمام تر اُمیدیں اپوزیشن کے کیسوں، الیکٹرانک ووٹنگ مشین، اور سیز پاکستانیوں کے ووٹ کے حق، نئے اآرمی چیف اور ڈی جی ائی ایس ائی کی تعیناتیوں اور ائی ایم ایف کے پیکج کے بعد مہنگائی کنٹرول کرنے نیز معیشت کو بہتر کرنے سے جڑی ہیں اور وہ جارحانہ سیاست اور اپوزیشن کے خلاف مقدمات میں شدت لا کر بقول شہباز شریف اپوزیشن کو دیوار میں چن دینے کا بھی سوچ رہے ہونگے جس کا اظہار حکومتی اقدامات اور اعلانات سے نظر ارہا ہے مگر پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔

پنجاب جیسے صوبے کو کمزور وزیراعلی کے حوالے کرنا اور خیبر پختونخواہ میں پرویز خٹک کو ہٹانا جو اقرباء پروری سے ہٹ کر بحرحال جوڑ توڑ کے ماہر تھے خان صاحب کے وہ فیصلے ہیں، جنھوں نے تحریک انصاف کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے جس کا ثبوت ضمنی اور بلدیاتی انتخابات میں شکست اور تحریک انصاف کے کمزور ہوتے چلے جانے کی صورت میں سامنے ایا ہے ساتھ میں جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے ساتھیوں کی دوری، بد انتظامی، نااہلیت، اقرباء پروری، غلط اقتصادی، معاشی و سیاسی فیصلوں نے تحریک انصاف کو ناں صرف عوام بلکہ مقتدر حلقوں کی نظر میں بھی غیر مقبول کر دیا ہے اور حکومت ہر چیز کا ملبہ صرف پچھلی حکومتوں پر ڈال کر خود کو دودھ سے دھلا ثابت نہیں کر سکتی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت گورنر اور وزیر اعلی ہائوسز کو یونیورسٹیاں بنائے یا ناں بنائے، مگر ان کے شاہانہ اخراجات کم کروائے، وزیروں اور مشیروں کی فوج ظفر موج، بیوروکریٹس اور اعلی سرکاری ملازمین اور اداروں کی بے حساب مراعات جو ملک کو کھربوں روپے کا چونا لگا رہی ہیں، انھیں کم کر کے اور عوام کو براہ راست سبسڈی دے کر مہنگائی کا بوجھ کم کرے، ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم تمباکو سے لے کر مشروبات اور فارما تک ہر سیکٹر اور شعبے میں لاگو کرے، ڈالر اور اشیائے ضرورت کی افغانستان اسمگلنگ کو کنٹرول کرے، دالوں اور کھانے کے تیل سمیت بے شمار اشیاء جس میں ہمارا ملک بہت کم وقت میں خود کفیل ہوکر کئی ارب ڈالر کا قیمتی زر مبادلہ بچا سکتا ہے، اس کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے۔

انڈیا ائی ٹی کے شعبے میں 50 ارب ڈالر سے زیادہ زرمبادلہ کما رہا ہے، حکومت اس شعبے پر بھرپور توجہ دے کر اور پے پال کو پاکستان لاکر اس انڈسٹری سے فائدہ اُٹھائے، جو پہلے ہی بہت زیادہ نمو کر رہی ہے، ٹیکسٹائل کے شعبے کو اربوں روپے کی سبسڈی دے کر صرف اعشارئیے دکھانے کے بجائے تمام مقامی صنعتوں کو سبسڈی اور گیس فراہم کر کے یکساں مواقع فراہم کرے، گاڑیوں اور پر تعیش اشیاء سمیت غیر ضروری تمام تر درامدات پر مستقل پابندی عائد کر کے قیمتی زرمبادلہ کی بچت کرے۔

حکومت کو یہ بھی چاہئے کہ ہرجگہ انتظامی طور پر نااہل لوگوں کو فارغ کرے جو نہ تو مقامی مارکیٹوں میں اشیائے ضرورت کی قیمتیں کنٹرول کر پائے ناں ذخیرہ اندوزوں کو مارکیٹ پر اثر انداز ہونے سے روک پائے اور نہ ہی اپنے شعبوں اور وزارتوں میں کوئی قابل ذکر کام کر سکے نیز احتساب کے نام پر اپوزیشن کے خلاف شکنجہ کسنے کی بجائے معاملات کو آگے بڑھاتے ہوئے مل کر الیکٹرانک ووٹنگ مشین، اورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کے حق سمیت عدالتی و دیگر اصلاحات کے لئے کوشش کرے تاکہ وطن عزیر اقتصادی، معاشی اور سیاسی بحرانوں سے نکل کر مظبوط اور پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن ہو اور عوام بھی سکھ کا سانس لے ورنہ بعید نہیں کہ طاقت کی راہداریوں میں تحریک انصاف بہت جلد قصہ پارینہ بن جائے گی۔

Check Also

Qainchi Cycle Aur Master Jee

By Mubashir Aziz