Friday, 20 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aqsa Gillani
  4. Aurat Bhi Khuwab Dekhti Hai

Aurat Bhi Khuwab Dekhti Hai

عورت بھی خواب دیکھتی ہے

ہمارے گاؤں میں لڑکیوں کا اسکول پانچویں تک ہے اس کے بعد چند خوش نصیب بچیاں ہی قریبی گاؤں کے ہائی اسکول تک رسائی حاصل کر پاتی ہیں۔ اس ہائی اسکول کی بھی خاصیت یہ ہے کہ وہاں میٹرک سائنس کے ساتھ ممکن نہیں، صرف آرٹس کے ساتھ کر سکتے ہیں اور سونے پر سہاگہ یہ کہ آرٹس کے مضامین میں بھی اختیاری مضامین کے انتخاب کا حق میسر نہیں آپ کو بھلے کچن گارڈننگ میں دلچسپی ہو زراعت کی جگہ آپ کو ہوم اکنامکس ہی پڑھائی جائے گی۔

ہائی اسکول کے بعد سو میں سے کوئی ایک خوش نصیب لڑکی ہی کالج تک پہنچتی ہے۔

ہم نے بھی میٹرک کے بعد تعلیم ترک کر دی تھی لیکن سسرال والوں کی ڈیمانڈ تھی کہ بچی کا کالج داخلہ کروائیں۔ ہمارے ابا فجر کی اذان کے ساتھ ہی فاطمہ فرٹیلائزر میں کام پر روانہ ہو جاتے تھے اور کالج کی بس گاؤں سے دو کلو میٹر دور تک آتی جاتی تھی۔ جب سسرالیوں کو یہ عذر پیش کیا گیا تو منگیتر صاحب نے ہمیں لانے لے جانے کی ذمہ داری قبول کی کہ وہ خود بھی کالج اسٹوڈنٹ تھے۔

شادی سے پہلے آپ اپنے دوسرے کزنز سے بات چیت، ملاقات کر سکتے ہیں لیکن جو آپ کے ساتھ زندگی بھر کے لیے جڑنے والا ہو اس سے خصوصی پرہیز کا کہا جاتا ہے۔ ایسے معاشرے میں جہاں منگنی کی انگوٹھی بھی والدین پہناتے ہوں شادی سے قبل منگیتر کے ساتھ دس پندرہ میل دور کالج جانا کیسے قابلِ قبول ہو سکتا تھا؟ طرح طرح کی باتیں کی گئیں۔ اماں کو رشتے داروں کی طرف سے ہماری منگیتر کے ساتھ بد کرداری تک کے طعنے ملتے۔

دوسری طرف کالج کا حال یہ تھا کہ نصف مضامین کے مستقل اساتذہ نہیں تھے۔ آدھا برس ہم کالج میں آدھا دن فضول گزارتے۔ تین چار ماہ بعد عارضی (کانٹریکٹ) اساتذہ رکھے گئے۔

ہماری دیرینہ خواہش تھی کہ کالج گئے تو کالج لائبریری سے کتابیں پڑھنے کا شوق خوب پورا کریں گے لیکن لائبریری پہنچ کر معلوم ہوا کہ سال اول اور دوئم کی بچیوں کو صرف مذہبی کتابیں ایشو کی جاتی ہیں ادبی کتابیں سال چہارم تک حرام ہیں۔۔

فرسٹ ایئر میں ہی ہماری شادی ہوگئی اور سال اول کے امتحان کے فوراً بعد سال دوئم کی کلاسز شروع ہوگئیں۔

ہمارے شوہر کا خیال تھا کہ ابھی تعلیم پر توجہ دو بچوں کی فکر کل پر چھوڑ دو لیکن ہمیں بڑی بہن نے ڈرا رکھا تھا کہ ابتدا میں بچہ نہ ہو تو بعد میں بھی نہیں ہوتا، ہم سترہ سال کے تھے بالکل لائی لگ۔ شوہر سے بضد ہو گئے کہ ایک بچہ لے لیا جائے۔ شادی کے پہلے مہینے ہی ہم امید سے ہو گئے چند ماہ گزرے پیٹ پھولا تو کالج میں لڑکیاں عجیب نظروں سے دیکھتیں اور مسکرا مسکرا کر آہستہ آہستہ باتیں کرتیں، اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر نے سیڑھیاں چڑھنے سے منع کر رکھا تھا لیکن تمام لیکچر دوسری منزل پر ہوا کرتے تھے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے کالج جانا بند کر دیا۔

انوشے کی پیدائش کے بعد ہم بھاگے بھاگے کالج پہنچے تو معلوم ہوا کہ ہمارا داخلہ نہیں بھیجا جا رہا۔ پرنسپل کے حضور پیش ہوئے لاکھ منت سماجت کی۔ عرض کیا کہ زچگی کے سبب حاضری پوری نہیں، درخواست دی تھی، فرسٹ ایئر میں ساٹھ فیصد نمبر لیے ہیں لیکن وہ بے حس عورت ٹس سے مس تو کیا ہوتی الٹا فرمایا "شادی ہوگئی ہے بچی بھی ہے گھر سنبھالو پڑھ کر کیا کرنا ہے"۔

ہم آنکھوں میں آنسو بھرے کالج کے گیٹ سے نکلے شوہر کو روادار سنائی انہوں نے دلاسا دیا کہ چلو کوئی بات نہیں پرائیویٹ داخلہ بھیجوا دیتے ہیں۔

فارم نکلوایا جس پر کسی سرکاری تعلیمی ادارے کی مہر لگوانی تھی، گھر کے قریب ہی بوائز ڈگری کالج تھا وہاں پہنچے تو کلرک نے کہا جائیں پہلے چالان جمع کروا کر آئیں پھر سٹیمپ لگے گی۔ (حالانکہ چالان سے فارم کی سٹیمپ کا کوئی تعلق نظر نہیں آتا) یو بی ایل بینک پہنچے کرونا کے دنوں میں نہایت ذلیل ہونے کے بعد چالان جمع ہوا۔ یو بی ایل کی برانچ کے قریب ہی ڈاکخانہ تھا جہاں سے فارم بھیجنا تھا اس لیے سٹیمپ لگوانے واپس کالج جانے کی بجائے ہم نے قریب ہی بوائز سکول جانا مناسب سمجھا۔ گورنمنٹ اجمل باغ ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب فون کال پر گھنٹہ بھر مصروف رہے جب کال منقطع ہوئی تو ہم لپکے اور فارم سامنے کرتے ہوئے سٹیمپ لگوانے کے لیے آنے کا بتایا۔

موصوف نے حقارت بھری نظروں سے ہمیں دیکھ کر کہا "کیا یہ کام گرل سکول سے نہیں ہو سکتا؟"

ہم نے دبی دبی آواز میں کہا ہو سکتا ہے (تم سٹیمپ لگا دو گے تو کیا ہو جائے گا؟ ایسے آدمی یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ حکومت کے نہیں عوام کے ملازم ہیں)۔

دستخط ہوئے داخلہ بھیجا۔ کالج میں نفسیات عمرانیات وغیرہ کے مضامین تھے جو بورڈ کی طرف سے پرائیویٹ اسٹوڈنٹس پر حرام تھے اس لیے دونوں سال کا دوبارہ داخلہ بھیجنا پڑا۔ ایک سال میں دو سال کی تیاری یوں بھی مشکل تھی پھر بیٹی کی مسلسل بیماری نے پڑھنے کی فرصت ہی نہ دی اور بنا پڑھے پیپر دے کر دو عدد کمپارٹمنٹس کا تمغہ سجا بیٹھے۔

دوبارہ سے سرکاری ملازمین کی طرح طرح کی باتیں سننا اور اپنے ساتھ ساتھ شوہر کو بھی تنگ کرنا ہمیں مناسب نہیں لگا اس لیے سلسلہ تعلیم کو خیر باد کہہ دیا اور داخلے کی فیس بھرنے کی بجائے غیر نصابی کتابیں خریدنا اور پڑھنا شروع کیں۔ اسی کتابی سلسلے نے ہمیں ڈاکٹر طاہرہ سے متعارف کروایا اور آج ڈاکٹر طاہرہ کاظمی نے ہمیں اپنی کتاب تحفہ بھیجی ہے تو گولڈ میڈل ملنے جیسی خوشی محسوس ہو رہی ہے اور ناجانے کیوں ہمارا من چاہ رہا ہے کسی روز ہمیں ہمارے کالج کی پرنسپل کہیں ملے تو میں ساری مروت لحاظ اور تہذیب و شائستگی اتار کر چیخ چیخ کر کہوں

"عورت بھی خواب دیکھتی ہے۔۔ "

Check Also

Shayari Nasal e Insani Ki Madri Zuban Hai

By Nasir Abbas Nayyar