Friday, 20 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aqsa Gillani
  4. Aik Tarah Ka Pagal Pan

Aik Tarah Ka Pagal Pan

ایک طرح کا پاگل پن

بہت کم ادیب ایسے ہوتے ہیں جو اُن موضوعات سے نظریں ملانے کی جرات کرتے ہیں جن موضوعات کی طرف ایک نظر دیکھنے سے بھی آنکھیں چندھیا کر بے نور ہو سکتی ہیں۔ ان کا اسلوب ساحرانہ، قلم نوکیلی اور مطالعہ بے حد وسیع محسوس ہوا۔ مذہبی شدت پسندی پر تنقید اور ہمارے سماج میں معیوب سمجھے جانے والے جنسی تعلقات پر اتنا کھل کر لکھتے ہیں کے 2004ء میں چھپے اپنے پہلے ہی ناول پر انہیں سعادت حسن منٹو کی طرح فحاشی کے مقدمے کا سامنا کرنا پڑا۔ دس برس بعد جا کر انہیں اس الزام سے باعزت بری کیا گیا۔

میں ان کے ناول پڑھتے ہوئے یہ سوچنے پر بھی مجبور ہوگئی کہ اگر ایسے ناولوں کا مصنف پاکستان میں مقیم ہوتا تو اسے مذہب پہ اتنی جاندار تنقید کے جرم میں کون کون سی دفعات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ سامنا کرنا بھی پڑتا یا عدالت کے باہر ہی زبان و جان چھین کر سوال مٹانے کی ناکام کوشش کی جاتی؟

یک نہ شد دو شد کہ ناول کی کہانی ایک نہیں دو حساس موضوعات کا مجموعہ ہے جس میں ذرا سی بے احتیاطی کہانی کار کے وجود کے لیے دھماکے کا سبب بن سکتی تھی لیکن رحمٰن عباس جیسا ماہر کہانی کار ہی ایسا پیچیدہ جہان تخلیق کرکے یہ اونچی دشوار چوٹی سلامتی سے سر کر سکتا تھا۔

سکینہ ایک عام مرد کی بیوی لیکن اولاد سے محروم۔ بچہ نہ ہونے سے جہاں دنیا بھر کے طعنے وہیں شوہر کے ساتھ تعلقات میں بھی سرد مہری کی شکار۔ رہی سہی کسر تب پوری ہو جاتی ہے جب اس کا شوہر تبلیغی جماعت کے ہتھے چڑھ جاتا ہے اور مہینہ مہینہ بھر دوسرے شہروں میں جا کر دین کی خدمت کرتا ہے۔

دوسری طرف عبدالعزیز لڑکپن سے جوانی میں قدم رکھ رہا ہے۔ اس کی بے چینی اور اضطراب بھی سکینہ جیسا ہی ہے۔ دونوں کے درمیان جنسی تعلق قائم ہو جاتا ہے اور ایک بچہ پیدا ہوتا ہے جس کا نام یوسف رکھا جاتا ہے۔

عبدالعزیز کمانے کویت چلا جاتا ہے جہاں وہ عربی زبان اور علم و ادب پر دسترس حاصل کر لیتا ہے۔ اس کا بیٹا یوسف بہت ذہین ہے اور سکینہ کا شوہر اسے خدا کی رحمت اور اپنا بیٹا سمجھ کر مدرسے میں پڑھاتا اور قرآن حفظ کرواتا ہے۔ جب وہ عالم بن جاتا ہے تو بہت بڑا مدرسہ قائم کرتا ہے۔

عبدالعزیز جب کویت سے لوٹتا ہے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ پورا گاؤں صوم و صلوٰۃ کا پابند ہو چکا ہے۔ جیسے ایک گندی مچھلی پورا تالاب گندا کرتی ہے ویسے ہی ایک سکینہ کے تبلیغی شوہر نے پورے گاؤں کو شدت پسند مذہبی بنا دینے میں کردار ادا کیا اور لوگ اپنا لباس، اپنا ادب و فن، اپنا کلچر اور تاریخ بھلا بیٹھے۔ بانسری بجانا کفر ٹھہرا، شادی بیاہ کی تقریبات بے راہ روی کی علامت بن گئیں اور نماز قضا کرنے والا مرتد و زندیق کہلایا۔

عبدالعزیز کی مذہبی شدت پسندی سے دوری، سوال اٹھانا اور اپنی تہذیب و فن سے محبت اسے اپنے ہی مذہبی شدت پسند بیٹے یوسف کے ہاتھوں قتل کروا دیتی ہے۔

مذہب، تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کے متعلق مباحث، عبدالعزیز کے قتل کی دلخراش منظر کشی، شگفتہ کے روپ میں پدر سری سماج کی عورت کا احوال سنا کر رحمٰن عباس نے قارئین کی توجہ ہی نہیں دل بھی جیت لیے ہیں۔

غمگین کر دینے والے ناول کے اختتامیہ کے باوجود یہ ناول ایک محبت کی کہانی بھی ہے اور رومانوی مناظر کی تصویر کشی کرتے ہوئے بھی مصنف نے حق ادا کر دیا ہے۔

تین سو سے زائد صفحات کا یہ ناول سٹی بک پوائنٹ کراچی نے شائع کیا ہے۔

Check Also

Liaqat Ali Ki Fasoon Sazi

By Ilyas Kabeer