1.  Home/
  2. Blog/
  3. Umar Khan Jozvi/
  4. Doctors, Khuda Na Banein

Doctors, Khuda Na Banein

ڈاکٹرز، خدانہ بنیں

ہسپتال سے واپس آتے ہی وہ بستر سے ایسے لگے کہ پھر کبھی اٹھ ہی نہ سکے۔ اسے ایک دو دن یا ہفتوں اور مہینوں نہیں سالوں سے کوئی خطرناک بیماری تھی لیکن وہ عام اور صحت مند انسانوں کی طرح زندگی کے سارے امور بخوبی و آسانی کے ساتھ سرانجام دے رہے تھے۔ لیکن جس دن اسے ڈاکٹر نے اس کے جسم میں چھپی اس خطرناک بیماری کے بارے میں بتایا وہ چند دنوں میں اس قدر کمزور ہو گئے کہ پھر اٹھنا بیٹھنا اور چلنا پھرنا تو دور جگہ سے ہلنا بھی اس کے لئے ممکن نہ رہا۔

بالآخر اسی بستر پر مہینے، ہفتے اور گھنٹے گنتے گنتے وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ہمیں ڈاکٹروں کی صلاحیتوں، علم، تجربے اور پیشہ ورانہ مہارت پر کوئی اعتراض ہے اور نہ کوئی شک لیکن جو ڈاکٹر زندگی بچانے اور صحت کی بھیک مانگنے کے لئے اپنے ہسپتالوں اور کلینک پر آنے والے مریضوں کو ڈائریکٹ موت کی ڈیڈلائن دیتے یا بتاتے ہیں ہمیں ان پر اعتراض بھی ہے اور ان کے انسان ہونے پر شک بھی۔ کہتے ہیں جو گڑ سے مر رہا ہو اسے زہر سے مارنے کی کوشش نہ کی جائے۔

جو بندہ کینسر، ٹی بی، ایڈز یا کسی اور خطرناک بیماری اور موذی مرض کے باعث مر رہا ہو اسے اضافی ٹینشن، پریشانی اور تکلیف میں مبتلا کر کے مارنے کی کیا ضرورت ہے؟ موت اٹل حقیقت ہے اور اس سے کوئی انکار نہیں۔ ہر انسان پیدا ہی مرنے کے لئے ہوتا ہے۔ مرنا ہم سب نے ہے لیکن کب؟ کہاں؟ اور کیسے مرنا ہے؟ اس کا علم صرف اور صرف خدا کے پاس ہے اور کسی کے پاس نہیں۔

مانا کہ بعض نہیں بلکہ اکثر ڈاکٹر بڑے باصلاحیت، ماہر اور تجربہ کار ہوتے ہیں وہ مریض کو دیکھتے ہی فائنل نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں اور بعض ڈاکٹر جیسا کہتے ہیں ویسا ہوتا بھی ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ ڈاکٹر مسیحا کی بجائے نعوذبااللہ خدا بن کر لوگوں کو موت کی ڈیڈلائنیں دیتے پھریں۔ ڈاکٹر مسیحا ہوتے ہیں اللہ نے ان کے ہاتھوں میں شفاء ضرور رکھی ہے لیکن ڈاکٹروں کے ہاتھوں اور زبان میں کسی کو مارنے یا زندہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔

یہ اختیار پہلے بھی صرف اللہ کے پاس تھا، اب بھی اللہ کے پاس ہے اور تاقیامت اللہ صرف اللہ ہی کے پاس رہے گا۔ ہم نے اس مٹی پر ایسے ایک دو نہیں ہزاروں مریضوں کو سالوں جیتے دیکھا ہے جن کو ڈاکٹروں نے مرنے کے لئے چند دنوں، ہفتوں یا مہینوں کی ڈیڈلائنیں دے رکھی تھیں۔ ایسے کئی لوگ اور مریض بھی ہماری نظروں سے گزرے ہیں کہ جنہیں درد اور تکلیف پر ڈاکٹروں نے عام دوائیاں دے کر اپنے ہسپتالوں اور کلینک سے یہ کہتے ہوئے واپس کیا کہ کوئی خاص بیماری یا مسئلہ نہیں اور وہ پھر چند گھنٹوں یا دنوں میں دنیا سے ہی رخصت ہوئے۔

اس لئے یہ کہنا یا سمجھنا کہ موت کے بارے میں ڈاکٹر جو کہیں گے وہی سچ اور آخری ہوگا یہ غلط بہت غلط ہے۔ جو ڈاکٹر مہارت، قابلیت اور تجربے کی روشنی میں ڈیڈلائنوں کا یہ چورن بیچ رہے ہیں وہ نہ صرف غلط بلکہ دکھی انسانیت پر بہت بڑا ظلم بھی کر رہے ہیں۔ ڈاکٹرز مسیحا ہوتے ہیں۔ لوگ اپنے رستے زخموں پر مرہم رکھنے و لگانے کی خاطر ان کے پاس جاتے ہیں۔ مسیحا وہی ہوتا ہے جو زخموں پر مرہم رکھے، زخموں پر نمک چھڑکنے والے کو لوگ قصائی کہتے ہیں مسیحا نہیں۔

ڈاکٹرز تو سارے مسیحا ہوتے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس وقت اس ملک اور معاشرے میں بہت سے ڈاکٹروں نے قصائیوں والا روپ دھارا ہوا ہے۔ یہ ڈاکٹر عوام کو لوٹنے، کنگالنے اور جیتے جی مارنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ان ڈاکٹروں کو مریض اور انسانیت کی کوئی فکر نہیں ہوتی ان کا کام بس صرف روپیہ ہی لوٹنا ہوتا ہے۔ مریض مرتا ہے یا جیتا؟ ٹھیک ہوتا ہے یا نہیں؟ سکون میں رہتا ہے یا پریشانیوں میں ایڑھیاں رگڑ کر شب و روز گزارتا ہے؟

ان چیزوں اور باتوں سے اس قبیل سے تعلق رکھنے والے ان ڈاکٹروں کا کوئی لینا دینا نہیں۔ ان کا کام تو بس بھاری فیسیں لیکر سارے ہسپتال اور پورے کلینک میں یہ اعلان کروانا ہے کہ اس مریض کے دن اب تھوڑے رہ گئے ہیں یہ بس چند دنوں کا مہمان ہے۔ ڈاکٹروں کا ایک ایک لفظ قیمتی ہونے کے ساتھ بھاری بہت بھاری بھی ہوتا ہے۔ ڈاکٹر کے منہ اور زبان سے جب، آپ کے دن تھوڑے رہ گئے ہیں، یا، آپ چند دنوں کے مہمان ہیں، جیسے الفاظ اور جملے ایک صحت مند، موٹا کٹا اور پہلوان قسم کا انسان بھی سنتا ہے تو پھر چین اور سکون سے وہ بھی نہیں رہتا۔

اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر کے دو پیارے بول سے مریض کی آدھی بیماری خودبخود دور اور ختم ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر نثار ہمارے قریبی رشتہ دار ہیں یہ خیبر پختونخوا کے ایک پسماندہ ضلع بٹگرام میں اس وقت دکھی انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی مریض کے علاج کے لئے سب سے پہلے اسے ہمت اور حوصلے کے ڈوز دینا ضروری ہے، آپ اگر مریض کو اس کو لاحق ہونے والے مرض کے خلاف ہمت و حوصلہ دینے کی بجائے صرف اس بیماری سے ڈرائیں گے تو پھر آپ دنیا جہان کی قیمتی اور مہنگی دوائیاں اس پر استعمال کیوں نہ کرائیں وہ آسانی کے ساتھ کبھی ٹھیک نہیں ہوگا۔

ڈاکٹر نثار سے ہٹ کر بھی ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ حقیقی معنوں میں دل کے اندر انسانیت کی تڑپ رکھنے والے ڈاکٹر مریضوں کے لئے دوائیوں سے زیادہ ہمت اور حوصلے پر زور دیتے ہیں ویسے بھی ڈاکٹر کا فرض ہے کہ وہ ادویات سے زیادہ مریض کو اپنی باتوں اور قیمتی مشوروں سے اس قدر ہمت و حوصلہ دیں کہ چارپائی پر آنے والا مریض بھی پھر اپنے پاؤں پر جانے کی ضد کریں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہر شعبے اور میدان کی طرح ہمارا صحت سے متعلق اہم شعبہ و پیشہ بھی قصائی نما ڈاکٹروں کے ہتھے چڑھنے لگا ہے۔

چند دن پہلے ایک قاری نے واٹس ایپ پر بتایا کہ میرے والد صاحب ایک ڈاکٹر سے چیک اپ کے لئے گئے جس نے اس کو ڈائریکٹ بتایا کہ آپ کو کینسر ہے اور اس کا اب کوئی علاج نہیں۔ اس کے بعد سے والد صاحب کی طبیعت اور حالت ٹھیک نہیں۔ یہ کونسا طریقہ ہے کہ آپ گڑ سے مرنے والے کو زہر سے مارنے پر تل جائیں؟ آپ اگر کسی کا علاج نہیں کرا سکتے؟ کسی کے رستے زخم پر مرہم رکھ نہیں سکتے؟ تو خدارا اس زخم پر نمک تو نہ چھڑکیں۔

ایک ڈاکٹر کے لئے کسی کو یہ کہنا کہ آپ کا مرض لاعلاج ہے یا آپ کا بچنا ممکن نہیں بہت آسان ہے لیکن کیا؟ کسی ڈاکٹر نے کبھی یہ سوچا ہے کہ ان کے اس طرح کے دو کالے بول سے سننے والے پر پھر مرتے دم تک کیا گزرتی اور کیا بیتتی ہے؟ مانا کہ کینسر، ٹی بی، ایڈز اور دیگر کچھ مہلک بیماریوں میں مبتلا ایسے بہت سے مریض ہونگے جو لاعلاج ہوں گے، میڈیکل کی دنیا میں ان کا کوئی علاج نہیں ہوگا اور ڈاکٹر کے علم و تجربے کے مطابق ان کا بچنا بھی ممکن نہیں ہوگا۔

لیکن یہ کوئی طریقہ نہیں کہ ڈاکٹر اپنا منہ شریف ایسے مریضوں کے کان کے قریب کر کے انہیں یہ خوشخبری سنائیں کہ آپ کا ٹائم پورا ہو چکا ہے، بس اب آپ اس دنیا سے جانے والے ہیں۔ ہم پھر کہتے ہیں کہ انسانوں کا یہ آنا اور جانا یہ اللہ کی قدرت اور اختیار میں ہے کسی ڈاکٹر اور حکیم کے بس اور وس میں نہیں۔ اس لئے ڈاکٹر مسیحا ہیں تو مسیحا ہی رہیں خدا نہ بنیں۔ کیونکہ ڈاکٹروں کے اس طرز عمل سے پھر دکھ اور درد کے مارے انسانوں کو تکلیف بہت تکلیف پہنچتی ہے۔

Check Also

Aisi Bulandi, Aisi Pasti

By Prof. Riffat Mazhar