1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Irfan Chandio/
  4. Bhooki Lash

Bhooki Lash

بھوکی لاش

ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے مگر بھوک۔ بھوک کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ یہ تھوڑی بھی ہو تو تکلیف دیتی ہے انسان کے پورے جسم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ دماغ صحیح سوچتا نہیں تو زبان بولنے سے کتراتی ہے۔ مہنگائی کے جس طوفان سے ہم گزر رہے ہیں اس طوفان میں کئی خاندانوں کے گھر اجڑے جو شاید پھر کبھی آباد نہ ہو سکیں گے۔ بھوکا رہنے کا خوف ہر خوف سے بڑا اور بھیانک ہوتا ہے۔ پاکستان میں کچھ ایسے خاندان بھی ہیں جو رات کو بستر پر اپنے ساتھ ساتھ بھوک کو بھی سلاتے ہیں، لوری دیتے ہوئے۔ مگر گستاخ اولاد کی طرح بھوک انہیں تھپڑ مار مار کر جگاتی رہتی ہے اور اگر آ بھی جائے تو بڑی تکلیف دہ نیند ہوتی ہے۔

پنجاب کے ایک گاؤں میں اللہ بخش اپنے 6 بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔ خاندان بڑا تھا اب خاندان بڑا کیوں تھا؟ یہ سوال ہر گاؤں والا خوب جانتا ہے۔ اس لیے اُسکے گھر میں اکثر ضرورت کی چیزیں موجود نہ ہوتیں۔ اللہ بخش محنت مزدوری کرکے مشکل سے اپنے بچوں کا پیٹ پال ہی لیا کرتا۔ مگر ملک کو ترقی کی طرف گامزن کرتے کرتے سیاستدانوں نے ملک میں مہنگائی کو اتنا پروان چڑھایا کہ جس کی وجہ سے کئی گھروں کے چولہے خاموش ہو گئے۔ اتنے خاموش کے جن کے بولنے تک شاید کئی زندگیاں خاموش ہو جائیں گیں۔ اللہ بخش کی آمدن بہت کم تھی اتنی کم کہ بچوں کو دیکھ کر صاف اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔ بچوں کے گال اندر کو دھنسے ہوئے آنکھوں میں بھوک کا خوف اور چہرے پر بھوک کی تکلیف ہمیشہ عیاں رہتی تھی۔

وہ صبح بہت خوبصورت تھی جب اللہ بخش کو معلوم ہوا کہ حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ بھوک کی تپش کم کرنے کی خاطر غریبوں کو حکومت کی طرف سے مفت آٹا دیا جا رہا ہے۔ اللہ بخش کے لیے یہ خبر خوشی کی خبر تھی بلکہ بالکل عید کی طرح تھی کیونکہ غریب کے لیے بھوکا نہ سونے کی خوشی عید کی خوشی سے کم نہیں ہوتی، اگلے دن اللہ بخش بیوی کو ساتھ لیکر آٹا تقسیم ہونے والی جگہ پہنچا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس جیسے لوگ اس ملک میں بہت تھے کیونکہ لوگوں کا جم غفیر تھا اور وہاں تو اس جیسے پہلے کئی لوگ آئے ہوئے تھے۔

شکلوں سے لاغر، کمزور جمسوں پر مشتمل، زندہ ڈھانجے۔ ہزاروں کی تعداد میں وہی موجود تھے۔ اللہ بخش کی بیوی نے کہا کتنا رش ہے۔ مل تو جائے گا نہ آٹا؟ اس سوال میں کئی دنوں کے بھوک کا ڈر و خوف رکس کر رہا تھا۔ اللہ بخش نے بیوی کو امید دلاتے ہوئے کہا رش بہت ہے بہتر ہے واپس چلیں اللہ نے چاہا تو میں کسی سے پیسے لے کر لے آؤں گا کل آٹا۔ بیوی نے بگڑتے ہوئے اس سے کہا۔ کون دے گا؟ ہم مذہبی بستی میں رہتے ہیں انسانوں کی بستی میں نہیں کہ جہاں انسان کی تکلیف کا احساس کیا جائے۔

گھر میں جو تھا بچوں کو دے دیا اور کل سے توں نے اور میں نے کچھ نہیں کھایا۔ غیر تو غیر اپنوں نے بھی معلوم نہیں کیا تو پھر کون دے تجھے ادھار؟ بتا کون دے گا؟ اللہ بخش نے سر جھکا لیا کیونکہ اس کی بیوی حرف بحرف سچ کہہ رہی تھی۔ اللہ بخش نے آنکھیں اُٹھا کر اس کی طرف دیکھ کر کہا۔ مگر مجیدہ؟ اللہ بخش نے ایک گہری سانس لی۔ اگر مگر کو چھوڑ اللہ بخش کوئی نہیں دے گا ہمیں آٹا۔ اوپر سے رمضان ہے ہر کسی کو روزہ افطار کرنا ہوتا ہے اس لیے ہر کوئی اپنے گھر کے راشن کی فکر میں مگن ہے اپنے مسائل سے نکلیں تو وہ کسی اور کے مسئلے کے بارے میں سوچیں۔

اور جہاں تک بات ہے ذلت کی تو جوانی کی غربت سے بڑھ کر اور کیا ذلت ہوتی ہے۔ جوانی کی غربت گزار لی ہے تو یہ بڑھاپے کی غربت بھی گزر جائے گی۔ اور ہاں تو رک یہاں۔ میں خود ہی جا کر لے آتی ہوں۔ وہ یہ کہہ کر اللہ بخش کی بات سنے بغیر ہی چل دی۔ اللہ بخش وہی کنارے پر کھڑا اسے جاتے ہوئے دیکھ کر کچھ سوچ رہا تھا۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھا اس کی آنکھوں میں تکلیف تھی جس کی شدت کا اندازہ صرف خدا ہی لگا سکتا تھا اور وہ بھی آسمانی خدا۔

وہ آسمان کی طرف کافی دیر تک دیکھتا رہا معلوم نہیں کیوں۔ وہ خدا سےگفتگو کر رہا تھا یا پھر شکایت مگر کمزور آدمی صرف شکایت ہی کر سکتا ہے اور وہ وہی کر رہا تھا۔ سڑک کے کنارے وہ وہیں زمین پر بیٹھ گیا، زمین پر لکیریں مارتے ہوئے وہ سوچ رہا تھا۔ کتنی تکلیف دہ ہے نہ یہ زندگی، موت زیادہ سخت ہے یا بھوک زیادہ سخت؟ موت نہیں۔ بھوک، کیونکہ موت کے بعد تو بھوک کا اندازہ نہیں رہتا مگر بھوکا رہ کر موت کا اندازہ تو ہو جاتا ہے ناں۔

وہ وہی بیٹھا ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ اسے پیاس کا احساس ہوا اس نے سامنے ایک آدمی کو پانی کی بوتل پکڑے ہوئے دیکھا تو اس سے پانی مانگ کر پانی کی بوتل فوراََ منہ سے لگا لی۔ اس کی یہ حرکت کچھ لوگوں کو پسند نہیں آئی اور وہ گزرتے گزرتے کہہ گئے۔ شرم نہیں آتی رمضان کا مہینہ ہے کچھ تو خدا کا خوف کرو۔ اچھے بھلے، موٹے تازہ ہو روزے کیوں نہیں رکھتے؟ اس نے پانی پینا بند کیا اور ان کی طرف دیکھ کر خاموش ہوگیا۔

حالانکہ وہ کہنا چاہتا تھا اور کہہ بھی سکتا تھا کہ اس کا روزہ ہے۔ مگر اس کا جو روزہ ہے اس میں سہری، افطاری نہیں ہوتی ہے۔ اس لیے اسے پانی پینے کی اجازت ہے۔ مگر اس کا روزہ ہے وہ پھر آ کر اپنی اسی جگہ پر بیٹھ کر سوچنے لگا۔ یہاں ہر کوئی خدا ہے۔ تو انسان کہاں ہیں؟ اور اگر انسان ہیں تو خدا کہاں ہے؟ یہ سوچتے ہوئے اچانک اس کے سامنے دو لوگ وہاں گاڑی پر آئے گاڑی سے اترے اور مفت آٹا لینے والے لوگوں کی لمبی لائن کی ویڈیو بنانے لگ گئے۔

ویڈیو ختم ہوئی تو ایک نے دوسرے سے کہا۔ ہمارے ملک میں کتنی غربت ہے اور غریب کی عزت اتنی ہی کم۔ اصل میں ہمیں غلام رکھنے اور غلام رہنے کی عادت ہے پہلے مغل بادشاہوں نے ہمیں غلام رکھا پھر انگریزوں نے اور اب یہ ملک بڑے بڑے سیاستدانوں کا اور اس کا ہر ایک شہر ایک ڈی سی کا غلام ہے۔ اس لیے غریب کو اس کا نہ حق مل پاتا ہے اور نہ عزت۔ وہ سیاستدانوں کے لیے ایک کھلونا ہیں اللہ بخش ان نوجوانوں کو بغور دیکھے جا رہا تھا۔

نوجوان نے موبائل بند کیا جیب میں رکھا اور وہ جب اللہ بخش کے پاس سے گزرا تو اس کا جوتا اللہ بخش کے پاؤں پر لگا اللہ بخش کو تکلیف پہنچی اس کو لگا کہ یہ رحم دل نوجوان ابھی اس سے معافی مانگ لے گا کیونکہ اس کے دل میں غریبوں کا احساس تھا وہ خدا نہیں وہ انسان تھا۔ مگر وہ گاڑی میں بیٹھ کر چل دیا۔ اللہ بخش مسکرا دیا اور آسمان کی طرف دیکھ کر کہا، تیر ے کئی رنگ ہیں میرے مولا اور تیرے بندوں کے بھی کئی رنگ ہیں۔

ہر رنگ دوسرے رنگ سے خلافت میں ہے۔ اس نے ایک گہری سانس لی اور اچانک اس کی نظر سامنے پڑی جہاں سے لوگ آٹا لے کر نکل رہے تھے اسے تجسس ہونے لگا کیونکہ اس کی بیوی کو کافی وقت ہو چکا تھا اور وہ واپس نہیں آئی۔ وہ اسی طرف چل دیا جس طرف اس کی بیوی گئی تھی کیونکہ اب اس سے مزید بھوک برداشت کرنے کی سکت باقی نہ رہی تھی۔ وہ جیسے آگے جاتا گیا۔ اسے اپنی بیوی نظر نہیں آئی۔ آٹے لینے والوں کی لائن میں وہ کہیں نہیں تھی۔

دور کچھ لوگ جمع تھے اللہ بخش وہاں پہنچا اور دیکھا تو اس کی بیوی سینے سے آٹے کے تھیلے کو لگائے زمین پر پڑی تھی اور وہاں موجود لوگ کہہ رہے تھے سب نے کوشش کی مگر اس کے سینے سے آٹے کی تھیلی الگ نہیں کر سکے۔ اللہ بخش کی آنکھوں سے دو گہرے آنسو نکلے جو اس کی گال سے ہوتے ہوئے نیچے زمین پر جا کرے۔ اور روتے ہوئے اس نے کہا۔ یہ آٹے کا تھیلا کسی کو نہیں دے گی۔ یہ بھوکی لاش ہے۔ بہت بھوکی۔

Check Also

Kachhi Canal Ko Bahal Karo

By Zafar Iqbal Wattoo