1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Burhan Ul Haq/
  4. Hazrat Imam Hussain Ka Maqam o Martaba

Hazrat Imam Hussain Ka Maqam o Martaba

حضرت امام حسینؑ کا مقام و مرتبہ

کیا بات ہے رضا اس چمنستان کرم کی

زہرا ہے کلی جس میں حسین اور حسن پھول

امام عالی مقام کی ولادت باسعادت ہجرت کے چوتھے برس تین شعبان المعظم کو ہوئی۔ جب حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو آپؑ کی پیدائش کی نوید سنائی گئی تو آپ ﷺ تشریف لائے اور حضرت امام حسینؑ کو اپنی گود مبارک میں لیا اور دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت فرمائی اور اپنی زبان مبارک کو حضرت امام حسینؑ کے منہ میں دیا۔ ساتویں دن امام عالی کا عقیقہ کیا گیا۔

نبی کریم ﷺ کی پُرشفقت گود مبارک میں حضرت امام حسینؑ نے پرورش پائی۔ یہ وہ گود تھی جو اسلام کا گہوارہ تھی وہ حضرات حسنین کریمینؓ کی تربیت کا گہوارہ بنی، دوسری طرف حضرت علی مرتضیٰؓ جیسے والد محترم کے زیر سایہ حضرت امام حسینؑ پرورش پا رہے تھے اور والدہ جو کہ جنت کی تمام خواتین کی سردار ٹھہریں ان کے دامن عفت مآب کی خوشبو آپ کے کردار و عمل میں رچ بس چکی تھی۔

رسول خدا ﷺ کی حضرت امام حسینؑ امام عالی مقام سے محبت کا یہ عالم تھا کہ آپ ﷺ نے دعا فرمائی کہ اے اللہ اُس کو اپنا محبوب بنا لے جس نے حضرت امام حسینؑ سے محبت کی اور نبی کریم ﷺ کی محبت کا یہ عالم تھا کہ آپ ﷺ اپنے نواسے کو گود میں بٹھا کر لبوں کو پیار و محبت سے بوسہ دیتے اور ساتھ یہ فرماتے کہ الہٰی میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت رکھ اور جو ان سے محبت رکھے اس کو اپنا محبوب بنا لے۔ (جامع ترمذی)

حضرت امام طبرانی روایت کرتے ہیں کہ جب جنتی حضرات جنت میں سکونت پذیر ہوں گے تو جنت عرض کرے گی پروردگار! از راہ کرم کیا تو نے وعدہ نہیں فرمایا تھا کہ تو دو ارکان سے مجھے آراستہ فرمائے گا؟ تو رب العزت ارشاد فرمائے گا کیا میں نے تجھے حسن و حسینؓ سے مزین نہیں کیا یہ سن کر جنت دلہن کی طرح فخر و ناز کرنے لگے گی۔

اسی طرح سنن ابن ماجہ میں حضرات حسنین کریمین کے فضائل کے حوالے سے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے حسنؑ اور حسینؑ سے محبت کی اس نے درحقیقت مجھ ہی سے محبت کی اور جس نے حسن اور حسین سے بغض و عداوت رکھی اس نے مجھ سے بغض و عداوت رکھی۔

ایک موقع ایسا آیا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے دوران نماز حضرت امام حسینؑ کی وجہ سے اپنے سجدے کو طول دیا جس کو امام نسائی نے حضرت عبداللہ بن شداد سے روایت کو نقل کیا ہے کہ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ عشاء کی نماز کے لیے ہمارے پاس تشریف لائے اس حال میں کہ آپ حضرت حسنؑ یا حسینؑ کو اٹھائے ہوئے تھے اسی حال میں رسول اکرم ﷺ آگے تشریف لے گئے اور انہیں بٹھا دیا پھر آپ نے نماز کے لیے تکبیر فرمائی اور نماز ادا کرنے لگے۔

دوران نماز آپ نے سجدہ کو طویل فرمایا۔ میرے والد کہتے ہیں کہ میں نے سر اٹھا کر دیکھا کہ حضور اکرم ﷺ حالت سجدہ میں اور شہزادہ آپ کی پشت انور پر سوار ہیں تو میں پھر سجدہ میں چلا گیا۔ جب حضرت نماز سے فارغ ہوئے تو صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ! آپ نے نماز میں سجدہ اتنا طویل فرمایا کہ ہمیں اندیشہ ہوا کہ کہیں کوئی واقعہ پیش تو نہیں آ گیا یا آپ پر وحی الہٰی کا نزول ہو رہا ہے تو حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس طرح کی کوئی بات نہیں سوائے یہ کہ میرا بیٹا مجھ پر سوار ہوگیا تھا اور جب تک وہ اپنی خواہش سے نہ اترتے مجھے جلدی کرنا ناپسند ہوا۔

اسی طرح ایک مرتبہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حسنین کریمینؓ کی خاطر خطبہ جمعۃ ُالمبارک موقوف فرما دیا۔ یہ سنن ابی داؤد اور سنن نسائی نے نقل کیا ہے کہ: حضرت عبداللہ بن بریدہؓ فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابو بریدہؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ حبیب کبریا ہمیں خطاب فرما رہے تھے کہ حسنین کریمینؓ سرخ دھاری دار قمیض زیب تن کیے لڑکھڑاتے ہوئے آ رہے تھے حضرت رسول خدا ﷺ منبر سے نیچے تشریف لائے اور حسنین کریمینؓ کو گود میں اٹھا لیا اور دوبارہ منبر پر رونق افروز ہوئے اور ارشاد فرمایا کہ:

اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے کہ تمہارا مال اور تمہاری اولاد ایک امتحان ہے میں نے ان دونوں بچوں کو دیکھا کہ سنبھل سنبھل کر چلتے لڑکھڑاتے ہوئے آ رہے ہیں مجھ سے صبر نہ ہو سکا یہاں تک کہ میں نے اپنے خطبہ کو موقوف کرکے انہیں اٹھا لیا۔

حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ہم جب قریش کی جماعت سے ملتے اور وہ باہم گفتگو کر رہے ہوتے تو گفتگو روک دیتے ہم نے حضور اکرم ﷺ کی بارگاہ میں اس امر کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جب میرے اہل بیت سے کسی کو دیکھتے ہیں تو گفتگو روک دیتے ہیں۔ اللہ رب العزت کی قسم کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہوگا جب تک میرے اہل بیت سے اللہ تعالیٰ کے لیے اور میری قرابت کی وجہ سے محبت نہ کرے۔

وہ حضرت امام حسینؑ جن کو حضور اکرم ﷺ اپنے پاس بلاتے انہیں سینے سے لگاتے اور ان کی خوشبو سونگھتے اور جن کے لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر جس نے ان دونوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا پس اس نے مجھ سے بغض رکھا اور بے شک وہ حسن و حسینؓ ہیں۔ وہ حسینؑ جن کے لئے حضور خاتم النبیین رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ

الحسین منی وانا من الحسین۔

حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔

حسینؑ کو حضور ﷺ سے اور حضور ﷺ کو حسینؑ سے انتہائی قرب ہے۔ گویا کہ دونوں ایک ہیں۔ حسینؑ کا ذکر حضور ﷺ کا ذکر ہے۔ حسینؑ سے دوستی حضور سے دوستی ہے۔

اَ حَبَّ اللہُ مَنْ اَ حَبَّ حُسَیْنَا۔

جس نے حسینؑ سے محبت کی اس نے اللہ تعالیٰ سے محبت کی۔ (مشکوٰۃ صفحہ 571، چشتی)

اس لئے حضرت امام حسینؑ سے محبت کرنا حضور ﷺ سے محبت کرنا ہے اور حضور ﷺ سے محبت کرنا اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا ہے۔ (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ صفحہ 605)

حضرت امام حسینؑ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جسے پسند ہو کہ کسی جنتی جوانوں کے سردار کو دیکھے تو وہ حسین بن علیؓ کو دیکھے۔ (نور الابصار صفحہ 114)

سید الشہداء حضرت امام حسینؑ کی پیدائش کے ساتھ ہی آپ کی شہادت بھی شہرتِ عام ہوگئی۔ حضرت علی، حضرت فاطمہ زہرا اور دیگر صحابہِ کبار و اہلِ بیت کے جان نثارؓ سبھی لوگ آپ کے زمانۂ شیر خوارگی ہی میں جان گئے کہ یہ فرزند ارجمند ظلم و ستم کے ہاتھوں شہید کیا جائے گا اور ان کا خون نہایت بے دردی کے ساتھ زمین کربلا میں بہایا جائے گا۔ جیسا کہ ان احادیث کریمہ سے ثابت ہے جو آپ کی شہادت کے بارے میں وارد ہیں۔

حضرت ام الفضل بنت حارثؓ یعنی حضرت عباسؓ کی زوجہ فرماتی ہیں کہ میں نے ایک روز حضور ﷺ کی خدمت مبارکہ میں حاضر ہو کر حضرت امام حسینؑ کو آپ ﷺ کی گود میں دیا پھر میں کیا دیکھتی ہوں کہ حضور ﷺ کی مبارک آنکھوں سے لگاتار آنسو بہہ رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یہ کیا حال ہے؟ فرمایا میرے پاس حضرت جبرائیلؑ آئے اور انہوں نے یہ خبر پہنچائی کہ "اِنَّ اُمَّتِیْ سَتَقْتُلْ اِبْنِی" میری امت میرے اس فرزند کو شہید کرے گی۔

حضرت اُم الفضل فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! کیا اس فرزند کو شہید کرے گی؟ حضور ﷺ نے فرمایا ہاں پھر حضرت جبرائیل میرے پاس اس کی شہادت گاہ کی سرخ مٹّی بھی لائے۔ (مشکوٰۃ صفحہ 572)

میدان کربلا میں حضرت امام حسینؑ نے جس بہادری و سرفروشی سے اپنے نانا کے دین کی بقا کے لیے قربانی دی تاریخ اس کی مثال دینے سے قاصر ہے۔

حضرت امام حسینؑ کی شان میں بے شمار احادیث مقدسہ ﷺ موجود ہیں اللہ ان شخصیات کے طفیل ہمارے اور ہمارے پیارے ملک کے حال پہ رحم فرمائے ملک پاکستان کی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کی حفاظت فرمائے اور نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں پر پہرہ دینے والوں کی حفاظت فرمائے آمین۔

اس مضمون میں اگر کہیں بھی کوئی کمی کوتاہی یا غلطی ہوگئی ہو تو اللہ رب العزت کی بارگاہ میں معافی کا طلبگار ہوں۔

Check Also

Taleem Yafta Log Kamyab Kyun Nahi Hote?

By Javed Chaudhry