1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ibn e Fazil/
  4. Munny Di Moj

Munny Di Moj

منّے دی موج

بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ شکرگذاری بہترین رویہ ہے۔جی میں خواہش ابھرتی تھی کہ بڑے ہوکر شکرگذار بنیں گے۔تھوڑا بڑے ہوئے تو یہ بھی سن لیا کہ خالق کائنات کہتے ہیں،اگر شکر کرو گے تو اور بھی نوازیں گے۔لیجئے صاحب، اچھائی کی خواہش کے ساتھ مزید کی لالچ بھی شامل ہوگئی تو طبیعت شکر پراور بھی آمادہ ہو گئی۔۔مگر اب یہ سوال پیدا ہوا کہ شکر کریں تو کریں کیسے؟

سب سے پہلا جواب ملا کہ زبان سے ہر وقت اللہ کریم کا شکر ادا کیا جائے۔الحمدللہ رب العالمین۔یااللہ تیرا شکر ہے۔اللہ جی آپ کا شکر ہے وغیرہ وغیرہ۔دل مگر مطمئن نہیں ہوا۔کہ صرف زبان سے شکر ادا کرنے سے شکر کا حق کیونکر ادا ہو؟ جستجو جاری رہی۔اسی دوران ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔جن کا کردار تو بہت مثالی نہیں تھا مگر باآواز بلند ہر تھوڑی دیر بعد باقاعدہ نعرہ لگاتے یااللہ تیرا شکر۔کافی دیر ان کو قریب سے دیکھا۔سوائے اس عادت کے ان میں کوئی ایسی خوبی یا ہنر نظر نہیں آیا مگر ہن تھا کہ جیسے برستا ہو۔اب یہ نہیں معلوم کہ کتنے دل سے کتنی محبت اورسچائی سے وہ شکر کرتے ۔

جستجو مگر جاری رہی کسی نے کہا کہ بہترین شکر گذاری یہ ہے کہ۔جن نعمتوں کیلئے شکر ادا کیا جانا ہے ان کو اللہ کی رضا کے لیے اللہ کے بندوں میں تقسیم کیا جائے۔۔مثلاً مالدار خیرات کریں، عالم علم بانٹیں، واعظ، وعظ کریں وعلی ھذالقیاس۔مگرہم نے پڑھا تھا کہ یہ تو انفاق ہے۔اللہ کریم نے قرآن کریم میں بہت بار اس کا حکم دیا ہے۔یہ تو شکرگذاری سے کئی گنا زیادہ ضروری بلکہ کسی حد تک ناگزیر ہے۔

تو پھر شکرگذاری کیسے ہو۔ایک صاحب علم نے کہا۔شکرگذاری کا مطلب ہے اطاعت اور فرمانبرداری۔بات کسی حد تک دل کو لگی۔کہ شکرگذاری کیلئے خود کو اللہ کریم کے احکامات کا پابند کرلیا جائے۔بالکل خود کو ایسے سانچہ میں ڈھال لیا جائے جو اس کو پسند ہے۔نئے عزم سے کوششیں شروع کیں کبھی طبیعت برضا ورغبت مائل بہ عمل ہو تو کبھی محنت کرنا پڑے۔خرد نے پھر سے بغاوت کردی۔نہیں نہیں یہ زبردستی کی نمازادائیگی فرض تو ہوسکتی ہے شکر ہرگز نہیں ۔تو پھر یہ شکر آخر ہے کیا۔

پھر ایک روز اس سے ملاقات ہوئی۔اس کا سڑک کنارے سرکنڈوں کا کھوکھا تھا۔جس سامنے کی طرف ایک لکڑی کے میز پر چائے بنانے کا چولہا اور دیگر سامان تھا۔جبکہ کھوکھے کی پچھلی طرف لکڑی کا ایک تخت جس کے ایک سرے پر تہہ شدہ بستر پڑا تھا اور درمیان میں بوسیدہ سا مصلہ بچھا تھا۔بڑے مزے سے چائے ہوا میں اچھال اچھال کر گارہا تھا۔ مَنّے دی موج وچ ہسنا۔کھیڈنا۔

دل کی رکھنا کمّے کنّے

میں نہ پر کِسے کی مندا نہیں بولنا۔

میں نے کہا بابا جی آپکے پاس ہے کیا جس پر اس قدر مسرور ہیں اس منے دی موج کی کوئی وجہ تو ہو۔کہنے لگا۔یہی تو شکرگذاری ہے صاحب۔کہ وہ جہاں، جس حال میں رکھے دل اندر سے مطمئن ہو مسرور کوئی خلش کوئی قلق نہ ہو کہ میرے ساتھ یوں کیوں ہوا اور مجھے یہ کیوں نہ ملا ۔جیسا اس نے چاہا ویسا بنا دیا، جس حال میں اس مناسب جانا ڈال دیا۔بس دل مطمئن ہے کہ جو عنایات مجھ پر ہیں کسی اور پر نہیں ۔منے دی موج وچ ہسنا کھیڈنا۔

لگتا ہے کچھ کچھ جواب تو مل گیا ہے کہ شکرگذاری ہے خود سپردگی۔ٹوٹل سب مشن۔

مگر اب مسئلہ یہ ہے کہ یہ کیفیت آئے گی کیسے؟

Check Also

Aisi Bulandi, Aisi Pasti

By Prof. Riffat Mazhar