1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ibn e Fazil/
  4. Fazool Kharchi

Fazool Kharchi

فضول خرچی

سنتے ہیں کہ دیس میں کسی شادی کی تقریب میں ڈیڑھ ارب روپیہ خرچ ہوا ہھےکیاھمیں شادی مذکورہ پر ہوئی دروغ خرچی کی مذمت کرنا چاہیے یا عدم تکاثر اور سرکولیشن آو منی کا باعث بننے پر ان کی توصیف کی جائے۔ تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پہلی بات جو روپے انہوں نے خرچ کیے یقیناً ان کے ذاتی تھے، میری جیب سے تو نہیں نکلے تھے، تو مجھے کیا غرض وہ ایک ارب چھوڑ دو ارب لگائیں۔ دوسری بات کہ روپے ان کے پاس نہیں تھے کہیں سے ادھارلیے تھے، تو بھی مجھے کیا بھئی انہوں نے لیے ہیں تو وہی واپس بھی کریں گے۔ میری دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اگریہ روپے بینکوں میں رکھے تھے۔ تو وہ دو جیبوں میں تھے۔ اسے کہتے ہیں دولت کا ارتکاز یا تکاثر۔ جو کسی بھی معاشرہ کیلئے بہت بری چیز ہے۔ کہ دولت چند لوگوں کے پاس مرتکز ہوتی رہے اور باقی لوگ صرف اس کی راہ تکتے رہیں۔ اب اگر انہوں نے یہ خرچ کیے تو یہ ہزاروں لوگوں کے پاس گئے۔ مثال کے طور پر شیشے کا سٹیج بنا۔ شیشہ ساز سے لیکر تقسیم کنندہ، کام کرنے والے، ٹرانسپورٹرز حتی کہ ان مزدوروں کو جنہوں نے اس شیشے کو کاٹ کر وہاں لگایا ان کو بھی ملے۔

لاکھوں کے پھول لگے، پھول اگانے والے سے لیکر سجانے والے، ڈیزائن کرنے والے اور یہاں تک کہ تقریب کے بعد انہیں سمیٹ کر پھینکنے والوں کو بھی ان پیسوں سے حصہ ملا۔ یہی حال کھانے، کپڑے جوتے اور باقی سب اشیاء کا ہے۔ میں تو کہتا ہوں آپ تو دعا کیجئے کہ وطن عزیز کے سارے امراء تو کیا سارے لوگ ہی ایسے ہوجائیں۔ سوچیں اگر سالانہ دس ہزار شادیوں پر ایک ایک ارب تو کیا دس دس کروڑ ہی لگائے جائیں تو کتنا سرمایہ تجوریوں سے نکل کر مارکیٹ میں آئے گا۔ کتنے لوگوں کو روزگار اور کتنے لوگوں کو خوشحالی ملے گی۔

بلکہ اس سے بڑھ کر دعا گو ہوں کہ امراء ایک دفعہ کپڑے، جوتے پہن کر دوبارہ مت پہنا کریں، ہر دوسرے ماہ گھر کا فرنیچر صوفے اور قالین تبدیل کریں، ہر چوتھے ماہ گاڑی بدلیں۔ یقین کریں جو فیکٹریاں ایک شفٹ میں چلتی ہیں دو شفٹوں میں چلیں گی۔ بے روزگاری کا خاتمہ ہوگا، قوت خرید بڑھے گی اور مہنگائی عملی طور پر کم ہوگی۔ میرا ایسا ماننا ہے کہ ایک ارب روپیہ غریبوں میں تقسیم کرنے کی بجائے اسی ایک ارب روپے سے ان غریبوں کی بنی مصنوعات یا خدمات خریدنا معاشرے کے لئے زیادہ مفید کام ہے۔

تیسری بات یہ کہ جو دولت کوئی سب کے سامنے بتا کر دکھا کر خرچ کررہا ہوتا ہے اسکا اسے سرکاری اداروں کو حساب دینا پڑتا ہے۔ مطلب حتی الامکان یہ دولت کالا دھن نہیں ہوگی۔ اور اگر ہے تو اب تک ایف بی آر اور نیب کے ان کو نوٹسز مل جانا چاہیے تھے۔ جو خود ہی ان سے ٹیکس مع جرمانہ وصول کرلیں گےاور اگر کالا دھن نہیں گویا اس پر ٹیکس دیا گیا ہے جوکہ سرکاری خزانہ میں آیا، جو کہ دوبارہ ایک صحت مند عمل ہے۔

امریکہ جسے ساری دنیا امکانات اور امید کا مرکز سمجھتی ہے اس معاشرہ کی سب سے بڑی خوبی کیا ہے۔ دولت کا بہاؤ۔ بیشتر امریکی جو ویک اینڈ پر اپنا پے چیک وصول کرتے ہیں اور جو کم سے کم پاکستانی روپوں میں ستر اسی ہزار سے لیکر ایک لاکھ روپے تک ہوتا ہے، پیر کی صبح کام پر جانے سے پہلے خرچ کر چکے ہوتے ہیں۔ ڈھائی ہزار ڈالر ماہانہ کمانے والے عام سیلز مین بھی پانچ سو ڈالرماہانہ قسط پر کرولا کیمری رکھتا ہے۔

صاحبانِ ثروت گرمی سردی کے آغاز پر تیس تیس ہزار ڈالر یعنی قریب پچاس لاکھ پاکستانی روپوں کے کپڑے جوتے خریدتے ہیں۔ لاکھوں لوگوں نے ذاتی جہاز اور ہیلی کاپٹرز رکھے ہیں۔ نہ ہماری طرح سوچوں میں انقباض ہے نہ تصرف میں۔ کوئی کسی سے یہ نہیں کہتا کہ کہ فضول خرچی ہوگئی۔ کوئی کسی پر نمودونمائش کا الزام نہیں لگاتا۔ وہاں بھی دو ہندسوں میں اوسطاً لوگ بیکار ہیں۔ وہاں بھی بڑی تعداد میں لوگ بے گھر ہیں، کسی امیر کو ہیلی کاپٹر میں جاتے دیکھ کر کوئی غریب احساس کمتری کا شکار ہوکر خود کشی نہیں کرتا۔ کیونکہ وہاں سب لوگ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ کوشش کیجیے کہ آپ بھی رکھا کریں۔

Check Also

Chand Baatein Apne Publishers Ke Baare Mein

By Ali Akbar Natiq