1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ibn e Fazil/
  4. Dank

Dank

ڈنک

بچپن میں سائنس کے طلباء کو پڑھایا جاتا ہے کہ مختلف جانور اپنے ماحول میں موجود خطرات سے نبردآزما ہونے کے لیے اپنے اندر حفاظت اورمتوقع دشمن کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت حاصل کرلیتے ہیں۔ مثال کے طور پر سیہہ کے جسم پر کانٹے، کچھوے کا۔ خول، سانپ بچھو، شہد کی مکھی اور بھڑ کا ڈنک، چوہے اور کتے کے دانت بلی کے پنجے وعلی ھذالقیاس۔ ان ہتھیاروں کے استعمال کو یہ جانور اپنی بقا کی ضمانت کے طور پر لیتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ ظاہر ہے جانوروں میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی، وہ یہ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ ہمارے ماحول میں جو دیگر جانور ہیں وہ ہمارے دشمن ہیں یا کہ نہیں، بس وہ حفاظت کرتے ہیں۔

دوسری طرف ہم انسان ہیں۔ اللہ کریم نے ہمیں سوچنے سمجھنے اور درست فیصلہ کرنے کی بے پناہ صلاحیتیں عطا فرمارکھی ہیں۔ مگر کہیں نہ کہیں ہم نے بھی جانوروں سی ڈیٹرینٹ بنارکھی ہے۔ خاص طور پر اپنے کاروبار یا فیکٹریوں کے حوالے سے۔ جب کوئی شخص ہم سے ہمارے کام کے متعلق سوال کرتا ہے تو سب سے پہلے ہم کچھوے کی طرح خول میں گھس جاتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں نہیں نہیں اس کام میں کوئی فائدہ نہیں۔ بس گلے پڑا ڈھول بجا رہے ہیں۔ اس کام سے دور رہنا وغیرہ وغیرہ۔

اس کے باوجود بھی اگر کوئی ہمارے والا کام شروع کرتا ہے تو ہم فوراً اسے مقابل سمجھتے ہوئے اپنی اپنی حیثیت کے ڈنک نکال کر اس پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ بہت سے بڑے اور پرانے کاروباری حضرات فوراً مال کا نرخ کم کردیتے ہیں کہ نئے آنے والا مارکیٹ میں زندہ ہی نہ رہ پائے۔ اگر پھر بھی وہ کام جاری رکھے تو اس کے کاریگر توڑتے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنے بندے کم تنخواہ پر اس کی فیکٹری میں لگوا دیتے ہیں جو وہاں سے خبریں بھی پیہم دیتے ہیں اور موقع ملنے پر ہر ممکن نقصان بھی پہنچاتے ہیں۔

حالانکہ فطرت کی رزاقی دیکھیں۔ لاکھوں اقسام کے کروڑوں اربوں جاندار جو کبھی بھوکے نہیں سوتے۔ صرف انسان کو سب کچھ میسر، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی ہے اور اچھائی برائی کی تمیز بھی ہے، پھر سب کچھ میسر ہوتے ہوئے بھی اطمینان بہم نہیں۔ بے چینی بے توکلی کا نتیجہ ہے۔ جسے خالقِ کائنات نے یوں بیان کیا ہے"تمہیں ہلاک کردیا کثرت کی خواہش نے، یہاں تک کہ تمام قبروں میں جاپہنچے۔"

اصل انسانی رویہ یہی ہے کہ کہ ہم لوگوں کی مدد کریں، ان کی راہنمائی کریں، ان کیلئے آسانیاں پیدا کریں۔ اللہ کریم اپنے خزانوں سے ہمارے رزق میں اضافہ فرمائیں گے۔

Check Also

Hum Ye Kitab Kyun Parhen?

By Rauf Klasra