1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ibn e Fazil/
  4. Daire Ke Bahir Se

Daire Ke Bahir Se

دائرے کے باہر سے

ایران کے شہر تبریز سے نوے کلومیٹر مغرب میں ایک بہت بڑی نمکین جھیل ہے جسے اس علاقے کی مناسبت سے ارمیہ جھیل کہتے ہیں ۔ تبریز سے بذریعہ سڑک ارمیہ جھیل جاتے ہوئے راستے میں خسرو شاہ اور ایلکچی وغیرہ کے علاقے آتے ہیں ۔ اس علاقے میں ہر طرف اخروٹ اور سیبوں کے بے تحاشہ درخت نظر آتے ہیں ۔

ہمارے مقامی راہبر نے بتایا کہ اس علاقے میں سیب اور اخروٹ اگانے کا تجربہ ابھی چند سال پہلے کیا گیا ہے۔ پہلے یہاں انار، آڑو اور خوبانی وغیرہ ہوتے تھے۔ مگر ان کی پیداوار مقامی ضرورت سے زیادہ تھی، جس کے باعث کسانوں کو انکی اجناس کی مناسب قیمت نہیں ملتی تھی۔ پھر مقامی حکومت نے یہاں نئی اجناس کے تجربات کیے۔ درجنوں تجربات میں سے اخروٹ اور سیب کے تجربات کامیاب ہوئے سو بہت سے رقبہ پر اب یہ بھی اگائے جاتے ہیں ۔

دیکھا جائے تو وطن عزیز میں ہر پھل کی یہی صورت حال ہے۔ جس پھل کا بھی موسم ہوتا ہے قدرت کی فیاضی سے اس کی اسقدر بہتات ہوتی ہے کہ کسانوں کو درست قیمت تو کجا لاگت بھی نہیں ملتی۔ بہت سا پھل ضائع ہوجاتا ہے۔ کبھی سنتے ہیں آڑو پانچ روپے کلو فروخت ہورہا ہے، کبھی پتہ چلتا ہے ٹماٹر دو روپے کلو ہوگیا ہے۔ آج شرقپور سے ایک دوست سے بات ہوئی۔ بتارہے تھے کہ امرود کی پیداواری لاگت مع پیکنگ اور کرایہ بارہ روپے کلو پڑتا ہے جبکہ منڈی میں چھ روپے کلو بک رہا ہے۔

اس ارزانی کے ایک سے زائد حل ہیں ۔ سب سے پہلے تو وہی کہ جتنے پھل پاکستان میں اگتے ہیں، آن کی تعداد بڑھائی جائے۔ ابھی کچھ سال قبل تک چیری، سٹرابیریز اور لیچی اسقدر عام نہیں تھی۔ اب بہت سے رقبہ پر اس کی کاشت ہوتی ہے۔زیتون اور زعفران کی کاشت شروع ہوچکی ہے۔ اسی طرزپر ڈریگن فروٹ، کیوی فروٹ، رامبوٹان، جٹھل، دوریاں، پلسان، سیمپیڈاک، انناس، سالک، شریفہ، ساور سپ اور اس کے علاوہ کئی پھل جو بھارت سری لنکا، ملیشیا وغیرہ میں عام اگتے اور بکتے ہیں، ان کے تجربات کیے جاسکتے ہیں ۔

شمالی علاقہ جات میں ایبٹ آباد، آزاد کشمیر، دیر، بٹ گرام وغیرہ کا بہت سا رقبہ چائے کی کاشت کے لیے موزوں ہے۔ چائے کی کاشت کی آمدن روایتی فصلوں سے تین سے چار گنا زیادہ ہے۔ اگر دولاکھ ایکڑ رقبہ پر چائے کی کاشت کردی جائے تو نہ صرف یہ کہ پاکستان کا سالانہ چالیس ارب روپے کا زرمبادلہ بچے گا بلکہ مقامی لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوگا۔ اور سب سے بڑی بات کہ پھلوں کے لیے قابل کاشت رقبہ میں توازن پیدا ہوگا جس سے پھلوں کی پیداوار مناسب حد تک کم۔ ہونے سے ان کی بے توقیری نہیں ہوگی۔

چائے کی کاشت میں حائل رکاوٹ اس کا شروع کا تین سے چار سال کا عرصہ ہے۔ جس میں خرچ زیادہ اور آمدن نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اگر سرکار یا غیر سرکاری تنظیمیں لوگوں کی درست راہنمائی کریں تو بڑے کاشتکار اپنی زمین کے آدھے یا کچھ حصہ پر مناسب منصوبہ بندی سے چائے کاشت کرسکتے ہیں کہ شروع کے چار سال ان کا گھر کا نظام دیگر فصلوں سے چلتا رہے، جبکہ چھوٹے کاشتکاروں کو سرکار تین سال تک پیکیج ڈیل کے ذریعے زرعی قرض دیکر اس کی کاشت پر آمادہ کرسکتی ہے۔

اس سلسلہ میں شہروں سے لوگوں کو سرمایہ کاری کی ترغیب بھی دی جاسکتی ہے کہ وہ گاوں کے لوگوں کے ساتھ پارٹنرشپ کرلیں کہ وہ فی ایکڑ چار سال کا خرچ اٹھا لیں اور بعد میں ایک متعین عرصہ تک چائے کی فروخت میں منافع کے حصہ دار بن جائیں ۔ گزارش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک بار یقین ہوجائے کہ یہ کام ہمارے لیے مفید یا ناگزیر ہے اور فیصلہ کرلیا جائے کہ۔ ہر صورت میں کرنا ہے تو کئی راستے نکل آتے ہیں ۔

کھانے پینے کی اشیاء کی مد میں چائے کے ساتھ ہماری سب سے بڑی درآمد خوردنی تیل کی ہے۔ جہاں چائے کیلئے پہاڑی علاقوں پر امکانات موجود ہیں وہیں میدانی علاقوں میں خوردنی تیل کی کاشت پر توجہ دی جائے۔ بہاولپور میں کسی صاحب نے جوجوبا کاشت کیا ہے۔ اس کے تیل کی اچھی قیمت ہے عالمی منڈی میں ۔ اس کے علاوہ آرگان کے درختوں کے تجربات کرنا چاہئیں ۔ اس کا تیل پندرہ ہزار روپے فی کلو ہے۔

ستاور، مصطلگی، اسبغول، سفید موصلی، سرخ موصلی، ثعلب مصری، ثعلب پنجہ، گل بنفشہ، بہمن سفید، بہمن سرخ اور ایسی دو سو سے زائد جڑی بوٹیوں کی سالانہ اربوں روپے کی درآمد ہوتی ہے۔ ان کی پیداوار کے لیے وطن عزیز کے مختلف علاقوں میں امکانات کا جائزہ لیا جائے۔ اور جو جڑی بوٹی جس علاقے میں بہتر پیدا ہو وہاں اس کو کاشت کیا جائے۔

حاصل گذارش یہ ہے کہ جس فصل یا جنس کی مناسب قیمت نہیں ملتی حتی الامکان اس کو کاشت کونے سے گریز کریں اور علاقہ کی مناسبت سے دیگر اجناس کاشت کریں تاکہ فراوانی اور ارزانی اس حد میں رہے کہ کسان کو قابل ذکر قیمت ملتی رہے۔ بس اس کیلئے ہمیں اپنی محدود سوچ کے دائرے سے باہر نکلنا ہوگا۔

Check Also

Shahbaz Ki Parwaz

By Tayeba Zia