1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Be Lagam

Be Lagam

بے لگام

ویسے تو ہمارے دیس میں سب بے لگام ہے۔ کوئی بھی کل سیدھی نہیں۔ تنقید کرنا دوسروں پر الزامتراشی کرنا ہم سب کا محبوب مشغلہ ہے۔ اور یہ سب سے آسان کام بھی۔ ہم حکومت اور اس کےزعماء کو ہر کام میں موردالزام ٹھیراتے ہیں۔ اور خود کو بری الزمہ قرار دے لیتے ہیں۔ لیکن اگر ہم اپنےملک اور قوم خاص کر خود کے ساتھ مخلص ہیں تو آبادی کا بے لگام بڑھناایک ایسا ایشو ہےجو ہمسب کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے۔

جب تک ہر فرد اس کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھے گا۔ اس کیحساسیت اس کے نتائج سے پوری طرح آگاہ نہیں ہوگا۔ اس مسئلے کا حل نہیں نکل سکے گا۔ ہمارےملک کے بہت سے مسائل ہیں جن پر سیر حاصل بات ہو سکتی ہے۔ جس مسئلے کی طرف میں نشاندہی کرنے جا رہا ہوں۔ بہت سوں کی نظر میں یہ مسئلہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ جن لوگوں نے عوامالناس کو اس ایشو کی سنگینی کا احساس دلانا ہے۔ وہ خود اس میدان کے کھلاڑی ہیں۔ وہ کیسےدوسرے کو مطمئن کر سکتے ہیں۔ یا سمجھا سکتے ہیں۔

مہنگائی، بیروزگاری، صحت کے مسائل، تعلیم کے مسائل، روٹی، کپڑا، مکان غرض ہر کوئی کسی نہکسی طرح ان مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ اور ہم ہر حکومت سے یہ امید لگا لیتے ہیں کہ وہ ہمارے مسائل حل کرے گی۔ ایک دیوانے کے خوابسے زیادہ کچھ نہیں کیونکہ ان کی نظر میں بھی اس بے لگام آبادی کو کنٹرول کرنے کی کوئی بھیمثبت دیرپا کامیاب پالیس ان کے پاس نہیں ہے۔ یہ لوگ خود تین تین شادیاں کرکے کس طرح عوام کوآبادی نہ بڑھانے کا مشورہ دے سکتے ہیں۔ یہ مسئلہ ان کی ترجیحات میں سرے سے شامل نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس کو ہمارے مذہبی معاشرے میں صیح سے اجا گر کیا جا سکا ہے۔

اگر اس مسئلے کو ام المسائل کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس مسئلے کو ایک مخصوص عینک سےدیکھا اور دیکھایا جاتا ہے۔ اس پر بات کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی بھڑ کے چھتے کو چھیڑ لینا۔

"بیشک ہر ذی نفس کےرزق کا ذمہ قادرمطلق کے پاس ہے۔ یہ ہمارا جزو ایمان ہے۔ توکل کرنا بھیاچھی بات ہے۔ پر اونٹ کو باندھ کر توکل کرنا سکھایا گیا ہے۔ غوروفکر کرنا۔ تدبیر کرنا بھی بتلایاگیا ہے۔ انسان کو عقل اور شعور بھی دیا گیا ہے۔ جانور اور انسان میں فرق یہی عقل اور شعور کرتاہے۔ "

ہمارے وسائل روز بہ روز کم ہو رہے ہیں۔ آبادی کا جن بوتل سے نکل چکا ہے۔ الہ دین کا چراغ بھی ملجائے تو یہ مسئلہ چٹکی بجا کے حل ہو جائےممکن نہیں ہے۔

ہم اپنی تعمیرات کو بڑھائیں جا رہے ہیں۔ شہر اپنی استعداد سے زیادہ بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔ زرعیزمینیں اندھا دھند ختم کئے جا رہے ہیں۔ بچوں کی تعداد بڑھائی جا رہے ہیں یہ سوچے سمجھے بغیرکہ ان کو اچھا مفید شہری کیسے بنانا ہے۔

اب تک تو جو محکمہ اس آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے بنایا گیا تھا وہ پوری طرح ناکام دکھائی دےرہا ہے۔

جب تک ہم اپنے مسجد کے منبر کو اس مسئلے کی سنگینی کا احساس نہیں کروائیں گے کامیابیممکن نہیں۔ مذہبی اسکالرز کا رول اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔

لیڈی ہیلتھ ورکر کی بنیادی ضروری ڈیوٹی یہ ہونی چاہئے کہ وہ اپنے اپنے علاقے میں پوری شدومدسے اس مسئلے کی سنگینی سے لوگوں کو روشناس کروائیں انہیں ان کی ذمہ داری بتائیں۔ کہ ہمسب مل کر کیسے اپنے وسائل کے اندر رہ کر ملک کی ترقی میں حصہ ڈال سکتے ہیں۔ کیسے ہمروزمرہ کی ضرویات سے بطریق احسن نبرد آزما ہو سکتے ہیں۔ کیسے اپنے گھر کو خوشحال کرسکتے ہیں۔ جتنے بھی لوگ اس محکمے میں موجود ان سب کی سکروٹنی ہونی چاہئے بس وہی لوگاس ڈیوٹی کو سر انجام دیں جو خود سختی سے دو بچے خوشحال گھرانے پر پورے اترتے ہوں۔

ہمیں پرائمری تعلیم سے بچوں کو وسائل اور مسائل سے روشناس کروایا جائے ان کے دماغ میں راسخکیا جائے کہ ہم نے آبادی کے تناسب کو بے لگام نہیں ہونے دینا ہے۔

ہمیں ان ممالک کی پالیسی کا باریک بینی سے جائزہ لینا چاہئے جنہوں نے اپنی آبادی پر موثرکنٹرول پایا، ہمیں اس پر سخت قانون سازی کرنا ہوگی۔ گائنی سے منسلک لوگوں کو پابند کیا جائے کہ وہ والدین کی کونسلنگ لازمی کریں۔

دو بچوں کی پیدائش کے بعد ہر بچے کی پیدائش پر اتنا ٹیکس لگایا جائے جتنا گورنمنٹ بچے کیایجوکیشن صحت پر خرچ کرتی ہے۔ چاہے وہ اقساط کی شکل میں ہو۔ جب تک حکومتی سطح پر بےلگام آبادی کے بڑھتے ہوئے بم کو روکنے کے لئے سخت اقدامات نہیں لے گی یہ بم کبھی بھی پھٹسکتا ہے۔ اور ہم سب اس کی زد میں ہیں اور ہوں گے۔ بحثیت پاکستانی ہمیں سب کو بھی انفرادیسطح پر اپنا اپنا رول ادا کرنا ہوگا۔ جب تک ہماری سوچ عمل میں ہم آہنگی نہیں آئے گی آگے بڑھنےکا عمل سست روی کا شکار رہے گا۔ معاشرے میں بد امنی، مہنگائی تعلیم صحت بیروزگاری جیسےمسائل اژدھے کی طرح پھن پھیلائے ہمارے سامنے موجود رہیں گے۔

Check Also

Adalti Islahat Aur Mojooda Adliya

By Raheel Moavia