Sunday, 22 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aslam Khan Khichi
  4. Akhir Wo Kon Log Thay (1)

Akhir Wo Kon Log Thay (1)

آخر وہ کون لوگ تھے (1)

تحریک لبیک کی موجودہ دہشت گردی پہ لکھتے ہوئے سبھی اینکرز، بلاگرز، رائٹرز سہمے ہوئے ہیں، ہاتھ کانپنے لگتے ہیں کہ لکھیں گے تو شاید مار دیئے جائیں۔ ان سب کیلئے عرض ھے کہ " موت کا ایک وقت متعین ھے جو رب تعالیٰ نے لوح محفوظ پہ لکھ رکھا ھے اور وہی اس وقت میں کمی بیشی کا مالک ھے۔ موت اگر لکھی ھے تو ٹل نہیں سکتی اور اگر وقت نہیں آیا تو آپ دریا کے آگ سے بھی زندہ نکل آئے گے۔

ہم نے لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ جیسی تنظیمیں بھی دیکھیں۔ پہلے انہوں نے ایک دوسرے کو مارا، پھر ریاست پاکستان نے انہیں کچل دیا۔ ان کے خاتمے کے بعد ایک نئی مذہبی تنظیم وجود میں آئی ھے جو آجکل منفرد قتل و غارت سے منسلک ہوتی دکھائی دے رھی ھے۔ سابقہ دونوں جماعتوں نے سینکڑوں قتل کئے لیکن ان جماعتوں میں اور تحریک لبیک میں زمین و آسمان کا فرق ھے۔

وہ جماعتیں آپس میں لڑ کے ایک دوسرے کے سرکردہ افراد کا قتل کرتی تھیں جبکہ تحریک لبیک نے عام انسانوں کو قتل کرنا شروع کر دیا ھے۔ ناموس رسالت ﷺ کے نام بنی تحریک لبیک ہمیشہ سے اقتدار کے بھوکے شکاریوں کی شہہ پہ مذہبی تنظیم سیاسی جماعت میں تبدیل ہوئی اور یہ ملکی تاریخ کا دوسرا موقع ھے کہ ناموس رسالت ﷺ کے نام پہ بنی تحریک لبیک نے اپنے ہی معصوم عوام ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ورنہ پاکستان میں آج تک کسی مذہبی تنظیم نے عام عوام کی جان و مال کو نقصان نہیں پہنچایا۔

پہلی مرتبہ آسیہ ملعونہ کی رہائی پہ بلوائیوں نے ظلم کی ایسی خوفناک داستانیں رقم کیں کہ سوچ کے رونگٹے ھو جاتے ہیں۔ معصوم بچے عورتیں موٹروے پہ لاکھوں روپے کی قیمتی گاڑیاں اور لاکھوں روپے، لاکھوں روپے زیور چھوڑ کے بے سروسامان تین دن تک بھوکے پیاسے جنگلوں میں پناہ لینے پہ مجبور ہوئے۔ لوگوں کی گاڑیاں جلائی گئیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ جلائی گئی۔ ویران موٹرویز پہ لوگوں کو مارا پیٹا گیا۔ انکا مال و اسباب چھینا گیا۔ غریبوں کی املاک کو تباہ و برباد کر دیا گیا۔ مجھے یاد ھے کہ ایک خاتون سے مجھے فون کیا۔ شاید محترمہ کا تعلق اسلام آباد سے تھا۔ اسلام آباد سے لاہور اپنے معصوم بچوں کے ساتھ جا تھیں۔ اس نے ہسٹیریائی انداز میں چیخ چیخ کر اپنی بربادی کی روداد بیان کی اور میں سوائے چند آنسوؤں اور دلاسے کے سوا انہیں کچھ بھی نہ دے سکا اور جیسے ہی اس واقعے پہ قلم اٹھانے لگتا تو ہاتھ کانپ جاتے۔ اس بار بھی وہی Episode دہرائی گئی ھے۔

موجودہ واقعہ اس صدی کا بدترین واقعہ ھے جس میں ریاست اور تحریک لبیک کی طرف سے ناموس رسالت ﷺ کے نام پہ دکھ درد، رنج و الم، خوف و دہشت، قاتل مقتول کے خون سے خون کی ہولی کھیلی گئی ہولی کھیلی گئی۔ اب قاتل اور مقتول دونوں کو شہید کیا جارھا ھے۔ شاید شہید کے رتبے کا کسی کو اندازہ ھی نہیں کہ شہید تو " شاہد " ہوتا ھے۔ کیونکہ جب وہ موت کی ہچکی لے رھا ہوتا ھے تو اسے حق تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوتا ھے۔ اب دونوں میں سے کون " شاہد " ھے۔ اس کا فیصلہ بروز محشر ہو گا۔ ریاست کو اس معاملے میں بری الذمہ قرار دیا جا سکتا ھے کیونکہ انکا فرض ہماری جان و مال کا تحفظ ھے اور انہوں نے اپنا فرض بخوبی نبھانے کی کوشش کی۔

گوجرانوالہ کے ہسپتال کا منظر پر گزرتے لمحے کے ساتھ وحشت ناک ہوتا جا رہا ہے۔ موت کا رقص شروع ہونے والا ھے۔ سینکڑوں لوگ بائیولیجیکل وار Covid 19 کا شکار زندگی و موت کی کشمکش کا شکار ہیں۔ مریضوں کی Oxygen saturation ڈراپ ہو رھی ھے۔ Saturation ڈراپ ہونے سے مریضوں کے اندرونی اعضا Damage ہو رھے ہیں۔ کسی کی Arteries بلاک ہو رھی ہیں تو کسی کے بلڈ میں Hemocrate Level انتہائی حدوں کو چھو رھا ھے۔ Lungs کے Muscles اپنی زندگی بچانے کیلئے ان تھک محنت کر رھے ہیں لیکن اب exhaust ہونے کے قریب ہیں۔ ڈاکٹرز دیکھتے ہیں کہ CRP لیول اس حد تک پہنچ گیا ھے کہ مریض کو اگر آکسیجن نہ ملی تو چند گھنٹے ہی Survive کر پائے گا۔

پریشان حال ڈاکٹرز بے بسی کی حالت میں مریضوں کو دیکھتے ہیں اور تڑپ اٹھتے ہیں۔ مریضوں کیلئے آکسیجن بہت ضروری ھے۔ 4 دن سے روانہ آکسیجن ٹینکر تحریک لبیک کے شرپسندوں سے بچتا بچاتا گوجرانوالہ پہنچ جاتا ھے لیکن ہسپتال پہنچنے کی کوئی صورت نہیں۔ کیلوں سے لیس ہرے نیلے پیلے ڈنڈوں پہ لیس تحریک لبیک کے ناموس رسالت ﷺ کے پروانے قابض ہیں۔ حکومت میں بیٹھے " بڑے " فیصلہ کرتے ہیں کہ پولیس فورس، رینجرز استعمال کی جائے لیکن بتایا جاتا ھے کہ پولیس کو دیکھتے ہی ہجوم بپھر جاتا ھے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پولیس کے ساتھ وہ " آکسیجن ٹینکر " کو ہی آگ نہ لگا دیں۔ سب سر جوڑے بیٹھے ہیں لیکن کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی۔ ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب کو حکومتی بے بسی کا اندازہ ہو جاتا ھے۔

ایم ایس ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب فیصلہ کرتے ہیں کہ کنٹینر حاصل کرنے کیلئے میں خود جاؤں گا۔ یہ میرا ہسپتال ھے۔ میرے مریض ہیں انکی جان بچانا میری ذمہ داری ھے۔ میری جاں بھی چلی جائے۔۔ کوئی پرواہ نہیں لیکن میں نہ پولیس والوں کو شہید ہونے کی اجازت دوں گا اور نہ شمع رسالت ﷺ کے۔ ڈاکٹر فضل الرحمان صاحب درود پاک ﷺ کا ورد کرتے ہوئے اپنے سفر کو آخری سفر سمجھ کے شمع رسالت ﷺ کے ہجوم میں داخل ہو جاتے ہیں۔ منت سماجت کرتے ہیں۔ اللہ رسول ﷺ کے واسطے دیتے ہیں۔ جواب میں کہیں سے تھپڑ ملتا ھے تو کہیں سے مکا اور کہیں سے کیل بھرا ڈنڈا۔ مکے، دھکے، ڈنڈے، پھٹی شرٹ کے ساتھ فرشتہ صفت چہرے پہ تھپڑوں کے نشان سجائے بالآخر ٹینکر تک پہنچ جاتے ہیں اور ٹینکر کو لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ آکسیجن ہسپتال پہنچتی ھے۔ مریضوں کے سامنے رقص کرنے والا موت کا فرشتہ ڈاکٹر فضل الرحمان نامی فرشتے سے شکست کھاتے ہوئے کسی اور شکار کی جانب گامزن ہو جاتا ھے۔

میں نے ڈاکٹر فضل الرحمان صاحب کا صرف نام سنا ھے۔ زندگی نے موقع دیا تو اس عظیم شخصیت کے ہاتھ چوم کے اپنی آنکھوں پہ لگاتے ہوئے اپنی روح کو ٹھنڈک ضرور پہنچاؤں گا۔ ڈاکٹر فضل الرحمان صاحب نے ایسا کارنامہ سر انجام دیا ھے کہ ستارہ جرات، ہلال جرات، نشان حیدر جیسے تمغے انکی اس قربانی کے سامنے ناکافی ہیں۔ جرات و شجاعت کے اس پیکر کو خراج عقیدت پیش کرنے کا صرف یہی ایک طریقہ ھے کہ اس عظیم شخصیت ہاتھ چومے جائیں اور انکے چہرے کے نقوش کو دماغ میں اس طرح محفوظ کر لیا جائے کہ بروز قیامت انکی اس عظیم قربانی کی گواہی دے سکیں کہ " یہی وہ شخص تھا جس نے اپنی جان پہ کھیل کے، شمع رسالت کے پروانوں سے مکے، گالی، تھپڑ، ڈنڈے کھا کے 150 مریضوں کی جان بچائی "۔

یہاں پہ مجھے " شہید کانسٹیبل افضل " بہت یاد آرھا ھے۔ جسے کیل بھرے ڈنڈوں سے ادھیڑ دیا گیا۔ اینٹوں، ڈنڈوں، لاتوں گھونسوں نے اس کے انگ انگ کو درد میں ڈبو دیا۔ شہید اس لئے کہ رھا ہوں کہ وہ سچا عاشق رسول ﷺ تھا۔ لہک لہک کے درود پاک پڑھتا۔ کہیں سے نعت رسول مقبول ﷺ کی آواز آتی تو جھوم اٹھتا۔ شہادت والے دن بھی اس نے تھانے میں اپنی زندگی کی آخری نعت لہک لہک جھوم جھوم کے پڑھی کہ وہاں موجود سب کی آنکھوؤں سے آنسو جاری ہو گئے۔

کوئی گل باقی رہے گا، نہ چمن رہ جائے گا

بس رسول اللہﷺ کا دینِ حسن رہ جائے گا

رسول اکرم ﷺ کی شان اقدس میں نعت رسول مقبول ﷺ بیان کرنے کے بعد وہ ناموس رسالت ﷺ کے پروانوں کے شکنجے میں آیا جنہوں نے لمحوں میں ہی اسے " کچہری رسول اللہ ﷺ " میں پیش کر دیا۔ اب وہ وہیں بیٹھا شان اقدس بیان کر رھا ہو گا۔ رسول اللہ ﷺ بار بار فرمائش کرتے ہوں گے کہ " میرے افضل " دوبارہ سنا۔

شاعری عرب کی شان ھے۔ نعتیں، قصیدے عرب سے ہی ہندوستان منتقل ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ کو شاعری بہت پسند تھی۔ جب انہیں کوئی اشعار پسند آتے تو آپ ﷺ بار بار سننے کی خواہش کا اظہار فرماتے۔ حتی کہ رب تعالیٰ کو بھی شاعری بہت پسند ھے۔ کتاب اعلی کو بھی شاعری کی طرز پر اتارا گیا ھے۔ ایک بار ایک بیٹے نے اپنے باپ کے خلاف رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں مقدمہ کر دیا۔ آپ ﷺ نے باپ کو طلب فرمایا تو باپ بہت دکھی ہوا۔ حاضر ہونے کیلئے گھر سے نکلا تو دل میں بڑے دکھی اشعار پڑھنے لگا۔ کہ میں نے تجھے کیسے پالا کیسے بڑا کیا میں تو تیرے نرم نرم تلووں پہ بوسے دیا کرتا تھا۔ بازار سے تیری پسند کی چیزیں لایا کرتا جنہیں تو دیکھ کے اچھلنے کودنے لگتا۔

تجھے انگلی پکڑ کے چلنا سکھایا۔۔۔۔ جب تو چلتے چلتے گر جاتا تو میں تڑپ جاتا۔۔۔۔ حق تعالیٰ سے ہمیشہ تیری زندگی مانگی۔۔ اپنے لیے کچھ نہیں مانگا، ہمیشہ تیرے لئے مانگا۔ ہر عبادت میں تو میری آنکھوں میں سمایا رھتا۔

وہ آنسوؤں سے لبریز آنکھوں کے ساتھ دل ہی دل میں یہ سب پڑھتا جا رھا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی عدالت اقدس میں پہنچ گیا۔ وہ شاعری رب تعالیٰ کو اتنی پسند آئی کہ باپ کے پہنچتے ہی جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور آپ ﷺ کے کان میں سرگوشی کی کہ " یا رحمت اللعالمین " ان بزرگ سے کہو وہ شعر باآواز بلند سنائے، جو یہ راستے میں پڑھتا آیا ھے اور یہ رب تعالیٰ کی فرمائش ھے۔ حکم پر باپ نے اشعار سنائے تو آپ ﷺ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئیں اور آپ ﷺ نے بیٹے کی ڈانٹ ڈپٹ کی اور مقدمہ ختم کر دیا۔

جاری۔۔

Check Also

26Wi Aeeni Tarmeem Ya Phir Siasi Tarmeem

By Fayaz Ul Hassan Chohan