1.  Home/
  2. Blog/
  3. Arif Anis Malik/
  4. Civil Services Of Pakistan

Civil Services Of Pakistan

سول سروس آف پاکستان

سول سروس آف پاکستان کا 29واں کامن کب کا بالغ ہوگیا۔ ریشماں کب کی جوان ہوگئی! میں ایک ہفتہ قبل پاکستان سے رخصت ہو چکا تھا ورنہ خوب سنگت رہتی! اس دفعہ پاکستان وزٹ کی خاص بات یہ تھی کہ "جیو جانی" کی تقریب رونمائی کی صدارت جناب خالد محمود کر رہے تھے جو کہ 2001 میں سول سروسز اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔

آج سے 22 برس قبل جس افسر شاہی کے جس دریا میں غوطے کھائے اس کی تفصیل تو اپنی آنے والی کتاب "سول سروس کی لیلیٰ" میں بیان کروں گا۔ فی الحال تو 29 ویں کامن کو مبارکباد۔ وہ جو کہا جاتا ہے کہ افسریاں قائم، بادشاہیاں قائم! میں بلاشبہ اپنی زندگی میں غیر معمولی مرد و خواتین کے جس گروپ سے ملا اور جس سے بے پناہ سیکھا، 29 واں کامن ان میں شامل ہے۔ اب اپنے بیچ میٹس، سیکرٹری صاحبان، کمشنر صاحب بہادر، عزت مآب سفیر صاحب، اور ڈی آئی جی ہونے لگے ہیں، تاہم جو رشتہ اس دن قائم ہوا، وہ 22 برس بعد بھی دائم ہے۔

یہ بچپن کی بات ہے جب میرے رشتے کے ایک ماموں مجھے حسرت بھرے لہجے میں بتایا کرتے تھے کہ ان کی خواہش ہے کہ میں کسی طرح ڈپٹی کمشنر جاؤں اور جب گھر سے نکلا کروں تو سائلین کی قطاریں لگی ہوئی ہوں اور میں ان پر نظر عنایت کرکے ایک نگاہ غلط ڈالتے ہوئے آگے نکل جایا کروں۔ سون سکیسر سے تعلق رکھتے ہوئے مجھے یونیورسٹی کے زمانے تک کچہری دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا تو مجھے ماموں کی اس خواہش کے جملہ فوائد کا کماحقہ اندازہ صرف اس وقت ہوا، جب آج سے 22 برس پہلے سول سروس اکیڈمی میں آئی آر ایس میں بطورِ نیم اسسٹنٹ کمشنر داخل ہوا تھا۔

اکیڈمی میں عجیب ماحول تھا۔ ڈھائی سو کے آس پاس پورے پاکستان کے چنے ہوئے دماغ دلچسپ لوگ تھے۔ ان میں نابغے بھی تھے، ذہین بھی اور میرے سمیت چغد بھی، جو بھولے بھٹکے بارہ سنگھے کی طرح سٹپٹا رہے تھے۔ جو اچانک گاڑی کی ہیڈلائٹس کی زد میں آگیا ہو۔ سول سروس اکیڈمی میں پہلی دفعہ "نیو سینس ویلیو" کا زکر سنا جس کا مطلب یہ تھا کہ ایک افسر کی قدروقیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ وہ کسی کا مختصر ترین وقت میں کیا بگاڑ سکتا ہے۔ یعنی اگر آپ کھڑے کھڑے کسی کو گرفتار کرکے اس کی مشکیں کس سکتے ہیں تو آپ اتنے ہی بڑے افسر ہیں۔ اسی کو افسر کی "اگاڑی" اور "پچھاڑی" سے بچنا کہتے ہیں۔ اس حساب سے پولیس افسروں اور ڈی ایم جی کے افسر بڑے افسر تھے حالانکہ ہمارے بیچ کے ٹاپر فارن سروس کے ایک ذہین آفیسر تھے۔ لیکن فارن سروس بارے میں مشہور تھا کہ جنگل میں مور ناچا، کس نے دیکھا۔ ویسے بھی وہ کھڑے کھڑے کسی کو جیل نہیں بھیج سکتا تھا تو اس حساب سے اس کا ششکا پولیس اور ڈی ایم جی صاحبان کے مقابلے میں بہت دھندلا تھا۔

سول سروس اکیڈمی میں ہی معلوم ہوا کہ سول سروس فرقوں میں تقسیم ہے۔ پہلی چوائس کے طور پر پولیس، ڈی ایم جی، کسٹمز اور انکم ٹیکس کے گروپس تھے جو کسی نہ کسی کا کچھ نہ کچھ بگاڑ سکنے کی صلاحیتوں کے حامل تھے۔ پھر قدرے ہومیوپیتھک گروپس تھے۔ جن میں کامرس، انفارمیشن، پوسٹل، کنٹونمنٹ، اکاؤنٹس اور سیکرٹیریٹ گروپ کے لوگ تھے اور اس افسرانہ گاڑی کا ڈبہ ریلویز کے افسران ہر مشتمل تھا۔ پولیس اور ڈی ایم جی کے افسران برہمن تھے، جبکہ کسٹمز، ٹیکس، فارن سروس، اکاؤنٹس والے کھشتری تھے اور باقی شودر گردانے جاتے تھے حالانکہ اکیڈمی میں اور بعد ازاں بھی میں اپنی زندگی میں جن چند بہترین تخلیقی اور ذہین افراد سے ملا، ان کا تعلق ماٹھے سمجھے جانے والے گروپس سے تھا۔ پولیس اور ڈی ایم جی والے مرجع خلائق تھے، ان کو ہرجگہ ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا۔ ان کی آنیاں جانیاں دیکھنے جوگی تھیں اور قدرے ہومیوپیتھک گروپس کے کچھ افسران ان کی مٹھی چانپی کرتے ہوئے پائے جاتے تھے۔ یہ حیران کن امر تھا کہ ایک ہی امتحان پاس کرنے، تقریباً ایک جیسی صلاحیتوں کے حامل لوگ، محض میرٹ لسٹ میں اوپر نیچے نازل ہونے کی وجہ سے اپنے اپنے گنبد میں قید تھے۔

ڈی ایم جی جو کہ بعد میں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس بن گیا، میں ایک انوکھی شان تھی۔ گو اس وقت پرویز مشرف کے ریفارمز پروگرام کی وجہ سے ان کا مورال ڈاؤن تھا۔ سروس میں آیا تو دیکھا کہ عمومی طور پر ڈی ایم جی افسر ایک سپرمین یا ایکس مین تھا۔ جس میں محیرالعقعول صلاحیتیں پائی جاتی تھیں۔ وہ ایجوکیشن سیکرٹری بھی تھا، ہیلتھ کے معاملات بھی اس کی دسترس میں تھی، ملک میں بجلی کم ہوجائے تو اس کی چابی بھی اس کی جیب میں تھی، یہی نہیں، وہ ٹیکس کے معاملات، کسٹمز کے ایشوز، کامرس کے بکھیڑے، انفارمیشن کے اسرارورموز اور ریلوے چلانے کی گھنڈی بھی جانتا تھا اور ملک میں قانون کی حکمرانی بھی اسی کے وجود کے ساتھ نتھی تھی۔ ڈی ایم جی افسر نطشے کامافوق الفطرت سپرمین تھا جس پر نور برستا تھا اور وہ بلا روک ٹوک پھسلتا ہوا اکیسویں، بائیسویں گریڈ تک پہنچ جاتا تھا۔

سول سروس اکیڈمی سے باہر آئے تو معلوم ہوا کہ بیوروکریسی مزید تہ در تہ تقسیم ہے۔ ہر گروپ میں ایک "ٹونی گروپ" ہے جو اس گروپ کا برہمن ہے۔ ٹونی کسی بھی گروپ میں تھے، وہ ایک قوم اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار تھے۔ وہ نسل درنسل افسران تھے، جن کے چاچے مامے سیکرٹری تھے، ایم این اے یا ایم پی اے تھے اور ان کو اپنی مرضی کی پرکشش پوسٹنگ دلوا دیتے تھے۔

اسی طرح ہر گروپ میں ایک "ماجھا گروپ" ہے۔ یہ ڈی ایم جی، پولیس سے لے کر ریلویز تک کسی گروپ میں بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ مڈل کلاسیے اور سیلف میڈ لوگ ہیں۔ جو گھیسیاں کرتے دوسرے یا تیسرے امتحان میں افسری کی بس میں گھسنے یا اس کے پائیدان پر چڑھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں مگر پوری زندگی ایک پاؤں پر کھڑے رہنے اور توازن برقرار رکھنے میں تھک جاتے ہیں، ان کی ترقیوں میں بھی سپیڈبریکر لگتے رہتے ہیں اور گریڈ بیس اکیس تک پہنچتے ان کا سانس بری طرح پھول جاتا ہے۔ اور کسی نہ کسی ناکے پر پکڑے جاتے ہیں۔

میرے ایک سینیئر اس حوالے سے بہت دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے کہتے تھے، "ڈی ایم جی اور پولیس والے بھی ہماری طرح نوکر ہی ہیں، بس ان کی پہنچ صاحب کی خواب گاہ تک ہے اور اسی وجہ سے ان کا ششکا قائم ہے۔ "

گزشتہ برس 28ویں کامن کے ایک صاحب کی تحریر پڑھی جس سے درد دل عیاں تھا کہ ہم سب تو کمشنر، ڈی آئی جی، سیکرٹری بننے لگے مگر پاکستان پچھلے بیس سال بہت سے اشاریوں میں اور نیچے پھسل گیا۔ یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ سی ایس ایس آفر واقعی نام نہاد "کریم" ہے تو اس ملک کی حالت ایسی کیوں ہے؟ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسا دودھ ہے، ویسی ہی کریم ہے۔

خیر افسر شاہی پر تو بات چیت چلتی رہے گی، سینہ کوبی اپنی جگہ مگر بہت سے لوگ بہت خوبصورت اور باکمال ہیں۔ جو اس گاڑی کو لشتم پشتم چلائے جارہے ہیں۔ ان کو سلام۔ فی الحال 29ویں کامن کو سالگرہ مبارک ہو۔ خوبصورت لڑکو اور لڑکیو، ہمیشہ جوان رہو۔

Check Also

Maulana Fazal Ur Rehman Se 10 Sawal

By Najam Wali Khan