1.  Home/
  2. Blog/
  3. Aown Muhammad Shah/
  4. Pakistan Ko Kaise Sanwaren?

Pakistan Ko Kaise Sanwaren?

پاکستان کو کیسے سنواریں؟

پاکستان عالمی ساہو کاروں کی چراہ گاہ بن چکا ہے۔ نظریہ پاکستان سے مرچ مصالحے تک سب پالیسیاں عالمی ساہو کاروں کی مرضی اور منشاء کے مطابق بنائی جاتی ہیں۔ این جی اوز ان ساہو کاروں کے سرمایہ سے چلتی ہیں۔ ساہو کار جو کام براہ راست رشوت سے نہیں کروا سکتے ان کے لیے این جی اوز کا تعاون حاصل کیا جاتا ہے۔ جو انسانی حقوق کے نام پر مسائل کو اس انداز میں اچھالتی ہیں کہ معاشرہ انہیں قبول کرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ عدالتوں اور پارلیمنٹ سے ایسے کام این جی اوز کے دباؤ کی وجہ سے کروا لیے جاتے ہیں۔ پاکستان کی معاشی، تعلیمی، سماجی، لسانی، تعمیراتی سمیت تمام پالیسیاں دوسرے کئی ایک ممالک سے نقل کی جاتی ہیں۔ حد یہ ہے کہ صرف ملک کا نام تبدیل کرنے کے علاؤہ کوئی ترمیم واضافہ نہیں کی جاتی۔ ان پالیسیوں کی وجہ سے ملٹی نیشنل تجارتی کمپنیوں کا کاروبار چلتا ہے اور کوئی مقامی تجارتی کمپنی ان معیارات پر پورا نہیں اتر سکتی۔

اس کے نتیجے میں ملٹی نیشنل کمپنیاں اربوں کا کاروبار کرتی ہیں اور مقامی کمپنیاں منتظمین کو رشوت دے کر ہر وقت خوف کے سائے میں دن کاٹ رہی ہوتی ہیں۔ یہ پاکستان کے تمام کاروباری شعبوں میں ہو رہا ہے۔ ہمارے ہاں اشیاء خرد و نوش کے لیے امریکہ اور فرانس جیسے معیارات مقرر کیے گئے ہیں۔ جو پاکستانی معاشرے اور ماحول میں قائم نہیں کیے جا سکتے۔ جس کی وجہ سے ملٹی نیشنل کمپنیاں مثلاََ نیسلے کھربوں کا کاروبار کر رہی ہے۔

ان کا معیار چیک کرنے کی کسی میں جرات نہیں کیونکہ انہوں نے سارے متعلقہ ادارے خرید رکھے ہیں۔ جو نیسلے کو چیک کرنے کے بجائے ان کے مقابلے میں مقامی کمپنیوں کو مسلسل دباؤ میں رکھتے ہیں تاکہ وہ مین سٹریم میں نیسلے کو چیلینج نہ کر سکیں۔ یہ ایک مثال ہے جسے آپ پورے پاکستانی نظام پر پرکھ سکتے ہیں۔

آپ نظام تعلیم کو دیکھ لیں سارا نظام برطانوی تعلیمی ٹھیکیدار برٹش کونسل کی سفارشات پر مرتب ہوتا ہے اور اس سے منسلک سارے مفادات غیر ملکی تعلیمی ادارے، نصاب کتب شائع کرنے والے طباعتی ادارے حاصل کرتے ہیں اور ان تعلیمی اداروں سے فیض یاب ہونے والے لاکھوں طلبہ، مغربی یونیورسٹیوں کے کسٹمرز (طالب علم) کے طور پر تیار کیے جاتے ہیں۔ آج تک پاکستان میں ایک بھی پالیسی مقامی طور پر نہیں بنائی گئی جس سے پاکستان اور پاکستانی عوام کو فائدہ ہو سکے۔

آل انڈیا مسلم لیگ قومی زبان اردو کے تحفظ کے لیے بنائی گئی تھی، جس نے اردو کے علاوہ مسلمانوں کے دیگر مسائل کے لیے کام کرنا تھا۔ انہی مسائل کا متحدہ ہندوستان میں حل ممکن نہیں تھا تو آل انڈیا مسلم لیگ نے انڈیا سے الگ ہو کر پاکستان بنانے کا مطالبہ کیا اور ملک حاصل کیا۔ ملک تو بن گیا لیکن اس کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوا کہ گورے انگریز اور ہندو سامراج کی جگہ کالے انگریز نے لے لی۔

وہ انگریزی لباس، وہی انگریزی زبان اور وہی انگریزی پالیسیاں جاری ہیں۔ آج بھی ہر شعبہ زندگی میں اٹھارویں صدی کے برٹش قوانین لاگو ہیں۔ 1973 کا دستور تو سیاست دانوں نے لڑ جھگڑ کر بنا دیا لیکن نوکر شاہی نے ملک میں ایک بھی قانون دستور 1973 کے مطابق نہیں بننے دیا۔ نظام انصاف سے مرچ مصالحہ پالیسیوں تک سب کچھ 1886 کے قواعد کے مطابق چلایا جا رہا ہے۔

دستور دراصل خطوط کار (گائیڈ لائن) دیتا ہے۔ جس کے تحت قواعد و ضوابط مرتب کیے جاتے ہیں، جن کے مطابق ملک اور اس کے ادارے کام کرتے ہیں۔ ہماری نوکر شاہی نے دستور 1973 کے مطابق ایک بھی قاعدہ نہیں بننے دیا۔ بعض شعبہ جات میں پرانے قوانین کا نام بدل کر اسے مجریہ 1868 کے بجائے مجریہ 2001 لکھ دیا ہے۔ اس کے علاوہ سب کچھ وہی ہے۔ بس لفافہ بدلا ہے مال وہی ہے۔

آپ دستور کی شق 251 کو دیکھ لیں، جس میں واضح لکھا ہے کہ ریاست کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور ملک کا سارا نظام اردو میں چلایا جائے گا۔ 14 اگست 1973 کو دستور منظور ہوا۔ 1979 تک اس شق پر ایک قدم بھی نہ اٹھایا گیا۔ جنرل ضیاءالحق نے 1979 میں مقتدرہ قومی زبان قائم کر کے دستور کی شق 251 پر عمل درآمد کروانے کے لیے نظام مملکت کو انگریزی سے اردو میں منتقل کرنے کے لیے ضروری تیاری کا ہدف دیا۔ اس ادارے نے چار سالوں میں صدیوں کا کام مکمل کر لیا۔

جنرل ضیاءالحق کی زندگی نے ساتھ نہیں دیا تو ان کے بعد مقتدرہ کے سارے کام کو لپیٹ دیا گیا۔ نوکر شاہی نے کمال مہارت اور غیر محسوس انداز میں ادارے کا نام تبدیل کر کے مقتدرہ قومی زبان کے بجائے اداری فروغ قومی زبان رکھ دیا۔ جو ادارہ اردو کو سرکاری زبان بنانے کے لیے کام کر رہا تھا، اب وہ فروغ اردو کے نام پر اپنے عاشقوں اور معشوقوں کی غزلیں چھاپ رہا ہے۔ اب اردو سائنس بورڈ کو بھی اس غزل سرائی کے ماتحت کر دیا گیا ہے۔

دستور محض نماشائی ڈیکوریشن پیس بن کر رہ گیا ہے۔ اب آپ کا نظریہ پاکستان کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ نہ قرار داد مقاصد کہیں ترجیحات میں شامل ہے۔ یہ اشرافیہ اسلام آباد کلب جو عوامی مفاد کے نام پر حاصل رقبے پر قائم ہے، جس میں داخلے کے لیے دس لاکھ روپے رکنیت فیس اور دس سال انتظار کے بعد صرف اشرافیہ کے لوگ داخل ہو سکتے ہیں کی طرح پورے ملک کو لوٹ رہی ہے۔

اس لوٹ کھسوٹ کی دوسری مثال پارلیمنٹ کیفٹیریا اور آبپارہ مارکیٹ کے کھوکھے کے ریٹ سے موازنہ کر سکتے ہیں۔ اس کی تیسری مثال پاکستان میں معدنی ذخائر کی تلاش کے لیے لیز کیے گئے لاکھوں ایکڑ رقبہ جات کا فی ایکڑ ریٹ اور ان سے حاصل شدہ معدنیات کی قیمت فروخت سے لگا سکتے ہیں۔ یہ استعماریت کی ایک نہ ختم ہونے والی داستان ہے۔

استعماری آلہ کاروں نے سارا نظام انگریزی کے لبادے میں بند کر رکھا ہے جسے 97 فیصد پاکستانی پڑھ نہیں سکتے اور جو تین فیصد انگریزی جانتے ہیں وہ ان تکنیکی اصطلاحات کو ساری زندگی لگا کر نہیں سمجھ سکتے۔ جس کی وجہ سے انسانیت سسک رہی ہے اور اشرافیہ دن بدن توانا ہو رہی ہے۔ یہ ظلم کی چکی بغیر کسی روک ٹوک کے چل رہی ہے۔ عوام کیا خواص کو بھی علم نہیں کہ اس گتھی کا سرا کون ہلا رہا ہے؟

پانچ سال وزیراعظم اور صدر رہنے کے باوجود انہیں رموز حکمرانی کے قریب نہیں پھٹکنے دیا جاتا۔ جب کوئی تھوڑا بہت سمجھنے لگے تو اسے فاطمہ جناح کی طرح انڈین ایجنٹ، لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی طرح تختہ دار پر یا نواز شریف کی طرح نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے۔ پہلے کنٹرول میڈیا کی وجہ سے سارے راز فائلوں میں دفن رہ جاتے تھے۔ کسی کو کچھ لکھنے اور کہنے کی آزادی نہیں تھی۔ اخباری مالکان کو خرید اور ڈرا دھمکا کر کام چلایا جاتا تھا۔

اب اشرافیہ کی باہمی چپکلش کی وجہ سے کچھ راز رفتہ رفتہ سوشل میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آ رہے ہیں اور عوام کو جاننے کا موقع مل رہا ہے۔ پاکستان کو پاکستان کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ یہ ہر پاکستانی کے لیے چیلنج ہے۔ وہ سوچے، لیکن جب 99 فیصد لوگ دال روٹی کی فکر بھی پھنسا دئیے گئے ہوں تو پھر سوچیں کیسے؟ یہاں کچھ مردان قلندر چاہیے جو پیٹ اور دل پر پتھر باندھ کر آتش نمرود میں کودنے کی ٹھان لیں تب کچھ ہو گا۔ پاکستان اور پاکستانی عوام کو پاکستانی ماحول میں کیسے منتقل کرنا ہے، یہ ہی مسئلے کا حل ہے۔

نوکروں کو اسٹبلشمنٹ کے منصب سے اتار پھینکے بغیر یہ ممکن نہیں۔ نوکر جب تک پالیسی سازی کے منصب سے اتار کر تعمیل حکم کی قطار میں کھڑے نہیں کیے جائیں گے۔ جب تک ڈی سی اور ایس پی (جو اشرافیہ کا کمترین درجہ ہے) کے نام کے ساتھ "حاکم" کا لفظ ہٹا کر نوکر کا نام نہیں لکھا جائے گا، یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ سیکشن آفیسر سے سیکرٹری تک اور سپاہی سے جرنیل تک عوام کے ٹکڑوں پر پلنے والے نوکر نہیں بنیں گے ظلم کی یہ چکی چلتی رہے گی۔

About Aown Muhammad Shah

Aown Muhammad Shah is a columnist, Aown's content and columns are based on current affairs and social issues. He is working as Managing Director Shaheen Public School Multan.

Aown teeets on @ImAownShah.

Check Also

Maulana Fazal Ur Rehman Se 10 Sawal

By Najam Wali Khan