Tuesday, 21 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ali Hassan
  4. Establishment, Siasat Aur Pakistan

Establishment, Siasat Aur Pakistan

اسٹیبلشمنٹ، سیاست اور پاکستان

ملک میں جاری پچھلے 6 ماہ سے سیاسی عدم استحکام، سیاسی انتشار، بدترین معاشی حالات جن کی وجہ سے سٹیٹ بنک کےریزرو 8 بلین ڈالر سے کم ہوگۓ ہیں 170 کا ڈالر 250 کا ہوگيا 150 کا پٹرول 250 کا ہوگیا کوکنگ آئل 380 روپے کلو 600 کا کلوہوگیا مہنگائی16% سے 38 % سے اوپر ہوگئی جس کی بدولت آج غریبوں کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔ اس کا ذمہ دار صرف اور صرف اسٹیبلشمنٹ ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں مداخلت اور فیصلہ سازی کی طاقت صرف ایک ہتھیار پہ ہوتی ہے کہ جس بھی سیاسی پارٹی کی حکومت ہو، بس دو تہائی کسی کو نہ ملے۔ کیونکہ دو تہائی والا وزیراعظم اسٹیبلیشمنٹ سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو وہ حکمران نہیں چاہیے جو ملک کے ساتھ وفادار ہو جس کو غریب عوام کا خیال ہو جو کرپٹ نہ ہو جو صادق و امین ہو۔ اسٹیبلشمنٹ کوصرف وہ حکمران چاہیے جو انکی ہاں میں ہاں ملا سکے اور ان کا ہر فیصلہ سر جھکا کر قبول کرے۔

جو دباؤ میں نہ آئے، اُسے راستےسے ہٹا دیتے ہیں جب انہوں نے یہ دیکھا کہ عمران خان ہر فیصلہ خود کرنا چاہتا ہے اور ہر فیصلہ خود کر رہا ہے جیسے کہ ڈی جی آئی ایس آئی کو لگانا ہو یا امریکہ کو اڈے دینا ہو وہ ہر فیصلہ خود کرنا چاہتا ہے۔ جب ملک کی معیشت اوپر جارہی تھی، ایسےحالات میں انہوں نے عمران خان کی حکومت کا امریکیوں کے ساتھ مل کر حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ اناؤں کے اسکھیل میں بائیس کروڑ عوام کا مستقبل داؤ پر لگا دیتی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے چوروں کی پشت پر کھڑےہوکر قوم کے جذبات کو بری طرح مجروح کیا۔ اسٹیبلشمنٹ کے بڑوں نے پاکستانی قوم کی توہین کی ہے یہ بات لوگ کبھی بھولیں گےنہیں۔

میں نے اپنی 19 سالہ زندگی میں پاکستانی طرز سیاست میں ایسی صورت حال نہیں دیکھی اور شاید آئندہ دیکھ بھی نہ سکوں جواس دفعہ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں دیکھی۔ میرے نزدیک پنجاب میں ضمنی انتخابات کے نتائج سے زیادہ وہ بات اہم اور حیران کن تھی۔ پاکستان میں جب بھی انتخابات ہوئے چاہے وہ جنرل انتخابات ہو یا ضمنی انتخابات ہو کسی ایک نہ ایک جماعت دھاندلی کا رونا ضرور روتی تھی۔ پر اس دفعہ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں یہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ اور اس دفعہ دونوں بڑی جماعتوں کو انتخابات کے نتیجے قبول کرنا پڑے۔

تحریک انصاف دھاندلی کا الزام لگائے تو کس منہ سے لگائے کہ اپنی امید سے زیادہ نشستیں لینے میں کامیاب ہوئی ہے اور مسلم لیگ ن کس پر دھاندلی کا الزام لگائے اپنی ہی انتظامیہ پر؟ اپنے ہی عملے پر؟ اپنے ہی الیکشن کمیشن پر؟ یا اپنے ہی الیکشن کمشنرپر؟ اس اسٹیبلشمنٹ پر جو انکو کندھوں پر بٹھا کر اقدر میں لے آ ئی۔ میرے نزدیک یہاں دونوں جماعتوں کو شکست ہوئی پاکستانمسلم لیگ ن کو عوام نے شکست دی اور ان کو مہنگائی کی وجہ سے مسترد کردیا۔ عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ کوشکست ہوئی جہاں پر وہ بار بار اس بات کا ذکر کرتے تھے کہ مسٹر ایکس اور مسٹر وائے کہ وہ حمزہ شہباز شریف کے ساتھ مل کرپنجاب میں ضمنی انتخابات میں دھاندلی کروانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اور یہاں پر اسٹیبلشمنٹ کے بیانیے کی جیت ہوئی اسٹیبلشمنٹ عوام میں یہ تاثر دینے میں کامیاب ہوئی کہ وہ واقعی اس وقت نیوٹرل ہے۔

مسلم لیگ ن کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ اسٹبلشمنٹ اور آصف علی ذرداری نے انکو بری طرح پھسا کر رکھ دیا ہے اب حالات ان کےبس میں نہیں وہ نہ تو الیکشن میں جا سکتے ہیں اور نہ ہی حکومت چلاسکتے ہیں۔ ان کے پاس الیکشن میں جانے کے لیے بیانیہ نہیں ہے جس کی بنیاد پر الیکشن میں جائیں۔ الیکشن میں جانا سیاسی خودکشی ہوگی اور حکومت میں رہنا سیاسی خودکشی تصورکی جا رہی ہے۔ ان کا ہر بیانہ عوام مسترد کررہی ہے اور وہ عمران خان کی دن بہ دن بڑھتی مقبولیت کو نہیں روک پارہے۔ چودھری شجاعت، علیم خان، فرح گوگی، توشہ خانہ، جہانگیر ترین، یہودی کارڈ، مذہب کارڈ، ملک ریاض، کال لیک، 70 فیصد میڈیا، نام نہاد صحافیوں کے تجربے ملا کر سب خاک میں! عمران خان آج بھی مقبول لیڈر ہے

لشکر بھی تمہارا ہے سردار بھی تمہارا ہے

تم جھوٹ کو سچ لکھ دو اخبار بھی تمہارا ہے

خون مظلوم زیادہ نہیں بہنے والا

ظلم کا دور بہت دن نہیں رہنے والا

ان اندھیروں کا جگر چیر کے نور آئے گا

تم ہو فرعون تو موسی بھی ضرور آئے گا

اگر ہم نے واقعی ملک کو بدلنا ہے تو سب سے پہلے ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو اپنی سوچ بدلنی ہوگی۔ وہ سوچ جو ہم اپنی من پسند سیاسی جماعت کے لیے کچھ اور، اور دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے کچھ اور، جیسے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی حکومت کا ساتھ دیتی ہے تو وہ ٹھیک کر رہی ہے کیونکہ وہ ایک جمہوری حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔

آج شہباز حکومت کے ساتھ کھڑی ہے اور مشکل معاشی حالات میں ان کی مدد کر رہی ہے تو اب اسٹیبلشمنٹ غدار ہو گئی ہے اوروہ یہ غلط کررہی ہے۔ اگر سپریم کورٹ قاسم سوری کی رولنگ کو کالعدم قرار دیتی ہے تو تب سپریم کورٹ ایک آئینی اور درست فیصلہ دیتی ہے اور اگروہی سپریم کورٹ اور وہی چیف جسٹس دوست مزاری کی رولنگ کالعدم قرار دیتی ہے تو وہ غیر آئینی فیصلہ دیتی ہے تو سپریم کورٹ کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ پارلیمان کی کارروائی میں دخل اندازی کرے۔

آخر تب عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی معاملات سے دور رہنے کو کیوں نہیں کہا؟ اور آخر تب تمام جماعتوں نے سپریم کورٹ کو پارلیمان کی کاروائی میں دخل اندازی کرنے سےکیوں نہیں روکا؟ پرسچ تو یہ ہے کہ ہمارے حکمران اداروں کو خود سیاست میں اپنےاپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور جب وہ ان کے مفادات کو پورا نہیں کرتے تو وہ انہی اداروں کو اپنی حدودمیں رہنے کا کہتے ہیں۔

ہمیں یہ نظام بدلنا ہوگا۔ اور حقیقی معنوں میں پاکستان تب ترقی کر سکے گا جب ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرے گا۔

About Ali Hassan

Ali Hassan is from Sargodha. He is doing BS International Relations and political science from university of lahore sargodha campus. He is interested in writing on different political and social issues.

Check Also

Tarbooz Ki Kahani Meri Zubani

By Mubashir Saleem