1.  Home/
  2. Blog/
  3. Akhtar Hussain/
  4. Log Ehtejaj Kab Karte Hain?

Log Ehtejaj Kab Karte Hain?

لوگ احتجاج کب کرتے ہیں؟

عدل و انصاف رب کریم کی طرف سے بنی نوعِ انساں کیلئے مثالی تحفہ ہے۔ عدل کی موجودگی معاشرے میں امن و خوشحالی کی ضمانت سمجھی جاتی ہے۔ انسان ارتقائی مراحل طے کرتا ہوا غار اور شکار کی طرز زندگی سے ڈیجیٹل دور میں قدم رکھ چکا ہے۔ یہ طے ہے کہ محض ٹیکنالوجی انسان کو امن و سکون کبھی نہیں دلوا سکی، بغیر اصول کے طاقت کا استعمال مزید گھمبیر صورتحال کی تخلیق کرتا ہے۔ ہیروشیما اور ناگاساکی انسانیت کے دامن پر بدنما داغ ہیں۔ مشہور رائٹر سیموئل ہنٹنگٹن اپنی مشہور زمانہ کتاب The clash of civilization میں لکھتے ہیں:-

اگر ہم دنیا میں امن چاھتے ہیں تو ہمیں ہر قوم کو اس کے اصول و نظریات کے مطابق گورننس چارٹر بنانے کی آزادی دینا ہوگی، فرد سے خاندان، خاندان سے معاشرہ اور اسی معاشرے سے قوم بنتی ہے۔ جس کا اپنا ایک نظریہ ہوتا ہے جس کی روشنی میں وہ اپنے ملک کا آئین ترتیب دیتی ہے اور اسی آئین کی روشنی میں ملکی ادارے ترتیب پاتے ہیں جن کا کام آئین سے گائیڈ لائن لےکر منتخب حکومت کے ساتھ مل کر سسٹم آف گورننس چلا کر قانون و انصاف کی بالادستی کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔

یہ بڑی خوبصورت ترتیب بنتی ہے۔ آئیں ہم ایک صحت مندانہ جائزہ لیتے ہیں کہ آخر ایسا کیا ہوتا ہے کہ عوام احتجاج کا راستہ اپنا لیتے ہیں؟ خواتین و حضرات:فرد اور ریاست کے درمیان ایک سوشل کنٹریکٹ (Social contact) ہوتا ھے جسے آئین کہتے ہیں، جس کی موجودگی میں فرد اپنے آپ کو ریاست کے سپرد کرتا ہے تاکہ اس کی جان و مال، عزت، غیرت اور نظریے کا تحفظ کیا جائے گا۔ اس رشتے کو سوشل سائنٹسٹ ماں اور اولاد کے رشتے سے تشبیہ دیتے ہیں۔

جب تک حکومتیں انصاف کی بالادستی کا پرچار کرکے عوام الناس کو facilitate کرتی رہتی ہیں اس وقت تک لوگ اپنے ووٹ کے ساتھ ساتھ ٹیکسز بھی ادا کرتے رہتے ہیں تاکہ نظام حکومت چلتا رہے۔ اب دنیا میں حکومتیں کئی طرح سے چلائی جا رہی ہیں جن میں بادشاہت اور جمہوریت (صدارتی اور پارلیمانی نظام حکومت) قابل ذکر ہیں۔ ہر قوم کا اپنا مخصوص آئیڈیالوجیکل پیراڈائم ہوتا ھے جو راتوں رات نہیں بن جاتا بلکہ اس میں سیکڑوں سال لگتے ہیں اور ہر قوم کو وہ جان سے زیادہ عزیز ہوتا ہے۔

یہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ قومی نظریے کا تحفظ یقینی بناتے ہوئے فرد کے بنیادی حقوق کی فراہمی یقینی بنائے۔ حکومتیں اور ادارے تب عوام کے غصے کا شکار بنتے ہیں جب عوام کی نظر میں ان کی ساکھ Credibility متاثر ہو جائے۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص فرد ملکیت لینے جاتا ہے جو اس کا بنیادی حق ہے اور متعلقہ افسر کی ذمہ داری ہے کہ وہ معزز شہری کو فرد ملکیت provide کرئے کیونکہ یہ اس کے سرکاری فرائض میں شامل ہے، فرد اس سہولت کو یقینی بنانے کیلئے منتخب حکومت کو ووٹ اور اداروں کو ٹیکس اسی مد میں ادا کرتا ہے۔

اگر فرد ملکیت فراہم کرنے کی بجائے اس سے رشوت طلب کی جائے گی تو وہ relevant authority کو انفارم کرنے کا حق رکھتا ہے لیکن اگر متعلقہ ہائر اتھارٹی بھی کوئی ایکشن نہ لے تو stress پیدا ہونا فطری عمل ہے، جو احتجاج کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ اسی طرح جب شہریوں کو سرکاری دفاتر میں رسائی کیلئے بھی بےاصول طاقتور عناصر کی چوکھٹ پر حاضری دینی پڑے تو نہ صرف انسان نفسیاتی طور پر ہرٹ ہوتا ہے بلکہ اس کی روح تک گھائل ہو جاتی ہے۔

جو قانون اسے انصاف نہ دلا سکے وہ سائل کی نظر میں وقعت کھو دیتا ہے۔ اسی طرح سالہا سال دشمنیاں پنپنے کی بنیادی وجہ بھی یہ ہوتی ھے کہ ظالم کو متعلقہ فورمز سے سزا نہیں ملتی جس کی وجہ سے مظلوم قانون سے دل برداشتہ ہوکر ظالم کو خود سزا دینے نکل پڑتا ھے جس کی وجہ سے Violence ملٹی پلائی multiply ہوکر معاشرتی تباہی لاتا ہے۔ یہی حال عالمی امن کو قائم رکھنے کے ذمہ دار ادارے اقوام متحدہ کا ہے۔

قوموں اور ملکوں کے درمیان پائے جانے والے تنازعات کو ڈائیلاگز کے ذریعے حل کروانا اقوام متحدہ کی بنیادی ذمہ داری ہے لیکن افسوس آج اقوام متحدہ کی حقیقی حیثیت بھی ترقی پذیر ملک کے بلدیاتی ادارے جیسی ہوچکی ہے، جس پر انٹرنیشنل کھلاڑیوں کا قبضہ ہوچکا ھے جو تیسری عالمی جنگ کا شاخسانہ بن سکتی ہے جو پوری انسانیت کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ معاشرے اجتماعی طور پر اپنی حکومتوں کے خلاف احتجاج کی راہ تب اپناتے ہیں جب آئین کے مطابق ان کے معاشی، معاشرتی، مذہبی اور سیاسی حقوق کا تحفظ اندرونی و بیرونی طور پر نہ کیا جائے۔

یہ احتجاج بنیادی طور پر ارباب اختیار کو اپنا آئینی حق ریکارڈ کرانا ہوتا ہے کہ ہمیں تحفظات ہیں، دور کئے جائیں۔ اگر ارباب اختیار انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر حل نکال لیں تو اجتماع واپس اپنے اپنے گھروں کو لوٹ کر اپنی آئینی ذمہ داریاں نبھانے لگ جاتا ہے۔ اس کے برعکس صورتحال انتشار کا باعث بنتی ہے جس سے کئی اندرونی و بیرونی طاقتیں فائدہ اٹھاتی ہیں لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ تحفظات کو دور کرکے وہ خلا ھمیشہ کیلئے fill پر کیوں نہیں کر دیا جاتا۔

اگر gap چھوڑیں گے تو کنفیوژن اور غیر یقینی صورتحال تو پیدا ہوگی، trust- deficit پیدا ہوگا، جس کی آگے چل کر کئی شکلیں بن سکتی ہیں۔ بدقسمتی سے آج کل وطن عزیز پاکستان کو اسی قسم کی صورتحال درپیش ہے۔ ایک ہفتے کے اندر اندر کئی قیمتی جانوں کا ضیاع اور اربوں روپے کا مالی نقصان ہوچکا ہے۔ ہر طرف سے آوازیں آرہی ہیں کہ ایسا نہیں ہونا چاہے تھا جس سے ہمیں پورا اتفاق ہے لیکن big question یہ ہے کہ performance gap کیوں چھوڑا جاتا ھے جس کی وجہ سے individual یا کسی پارٹی کو آگے آنا پڑے۔ قوم کے نظریات کا تحفظ تو حکومت و ریاست کی آئینی ذمہ داری ہوتا ہے۔

اگر آپ لیڈرشپ کا رول عوام کی امنگوں کے مطابق آئین کی روشنی میں ادا کریں گے تو ایسی صورتحال پیدا ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ آپ کے ڈرائیونگ سیٹ پر لیڈ کرنے کی وجہ سے اس کا جواز ہی ختم ہو جائے گا۔ اگر آپ نے اپنی اندرونی capacity building کی ہوتی تو آج پاکستان بھی معاشی و سیاسی لحاظ سے قد آور ملک ہوتا۔ کسی کو ہمارے ملک کی خودمختاری اور ھمارے نظریات سے کھیلنے کی جرآت نہ ہوتی۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ جو اندر سے مضبوط ہوتے ہیں انھیں باہر سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔

قومیں تب ترقی کرتی ہیں جب ریاست اور فرد کا مفاد ایک ہو جبکہ ہمارے ہاں یہ صورتحال ہے کہ لوگ آج ڈیجیٹل دور میں بھی بنیادی ضروریات کی چیزیں لینے کیلئے لائنوں میں خوار ہو رہے ہیں جبکہ ترقی یافتہ معاشرے اپنا ہیومن ریسورس ڈویلپ کرکے ٹریلین ڈالرز کی انفرادی سطح پر معاشی سلطنتیں کھڑی کرچکے ہیں جبکہ ہم پانی، بجلی اور آٹا مہنگا سستا کرنے کیلئے بھی عالمی مالیاتی اداروں کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔

یہ اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ ہم اندر سے کمزور ملک ہیں اور کمزوری کی بنیادی وجہ وسائل کی کمیابی نہیں بلکہ گورننس سسٹم میں موجود ٫٫ ناانصافی، کا کینسر ہے جو ہمیں بطور قوم کھا رہا ہے۔ اگر ہماری لیڈرشپ نے آزادی کے بعد وقت کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر شعوری collective move کی ہوتی، ایجوکیشن ریفارمز اور سول سروسز ریفارمز کو یقینی بنا لیا ہوتا، فیوڈل سسٹم کا خاتمہ کردیتے اور Rule of Law کو یقینی بنا کر قوم کو educate کرلیتے تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔

المیہ یہ ھے کہ ھم نے سقوط ڈھاکہ کے بعد بھی سبق نہیں سیکھا۔ ہماری سیاسی پارٹیوں میں جمہوریت کی بجائے بادشاہت ہے جن پر civilian autocrats اور الیکٹیبلز کا قبضہ ہے، مقامی انتظامیہ ٹرانسفر پوسٹنگ کے ڈر سے طاقتور وڈیروں، سرداروں اور معاشی ٹائیکون کا حکم ماننے کیلئے لائن بنائے کھڑے رہتے ہیں، تمام اسٹیک ہولڈرز ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو پھر معاملات کیسے سلجھ پائیں گے۔ ایسی صورتحال قوموں کو تاریخ کے قبرستان میں دفن کر دیتی ہے۔

ہمیں بطور قوم بالخصوص لیڈرشپ کو حقیقی معنوں میں بدلنا ہوگا، اپنی سیاسی جماعتوں کو خاندانی جاگیروں کی بجائے اسلامی جمہوری روایات کے مطابق فنگشنل کرنا ہوگا، قانون کا قد شخصیات کے مقابلے میں بلند کرنا ہوگا، ایجوکیشن ایمرجنسی لگاکر نوجوانوں کو گلوبل لیول کا آفاقی شعور دینا ہوگا، آرٹفیشل انٹیلیجنس اور روبوٹیک سانئس کے ذریعے ملکی دفاع مضبوط بنانا ہوگا، پولیس و جوڈیشل ریفارمز کرکے انصاف کو معزز شہری کی دہلیز پر لانا ہوگا اور بطور ریاست قوم کو جان سے عزیز اسلامی نظریات کا تحفظ یقینی بنانا ہوگا۔

اگر ہم نے یہ کرلیا تو پھر اندرونی طور پر ہمارے ہاں کوئی گینگ، مافیاز اور وار لارڈ نہیں پنپ نہیں سکیں گا اور عالمی سطح بھی کسی فرد، ادارے اور ملک کو ہمارے نظریاتی جذبات سے کھیلنے کی جرات نہیں ہوگی۔ اگر ہم نے fifth generation war جیتنی ہے تو باکردار قوم بننا ہوگا اور باکردار بننے کیلئے اسلامی آفاقی اصول اور سیرتِ رسول ﷺبہترین روڈمیپ ہیں۔ مشہور حدیث مبارکہ کا مفہوم ریفرنس کیلئے Quote کررہا ہوں:تم سے پہلے کئی قومیں اس لئے تباہ و برباد ہوگئیں کہ جب ان کا طاقتور جرم کرتا تھا تو اسے چھوڑ دیا جاتا تھا اور اس کے برعکس کمزور سے جرم سرزد ہونے پر پورا قانون لاگو ہوتا تھا۔

حکیم الامت حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

افسوس صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تو

دیکھ نہ تیری آنکھ نے فطرت کے اشارے

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

Check Also

Chand Baatein Apne Publishers Ke Baare Mein

By Ali Akbar Natiq