Kya Presiding Officer Ka Faisla Qanoon Sazi Ke Zumre Mein Aata Hai?
کیا پریذائیڈنگ آفیسر کا فیصلہ قانون سازی کے زمرے میں آتا ہے؟
سینیٹ کے حالیہ انتخابات پاکستان میں ایک گرما گرم موضوع بنے ہوئے ہیں۔ عام سینیٹرز کے ووٹوں سے لیے کر چیئرمین سینیٹ کے انتخاب تک حکومت اور حزب اختلاف کے گروپوں کے مابین متنازعہ معاملے پر کشیدگی برقرار ہے۔ مسترد ووٹوں کے تنازعہ نے معاملے کوبدتر صورتحال سے دوچار کردیا ہے۔ حکمران جماعت اپنی شاندار فتح کا جشن منا رہی ہے جبکہ پیپلز ڈیموکریٹک مومنٹ (پی ڈی ایم) خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) جس کے امیدوار یوسف رضا گیلانی انتخابی مارکہ ہار گئے ہیں، نے اس فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ اگرچہ عدالت عالیہ نے ابتدائی مرحلہ پر ہی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے آرٹیکل 69 کے تحت خارج کر دیا، تاہم پی پی پی مذکورہ فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
چونکہ یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک انوکھا تنازعہ ہے جو نہ تو پہلے کبھی زیر بحث آیا اور نہ ہی اس پر کوئی عدالتی نظیر موجود ہےلہذا حکومت اور حزب اختلاف(پی ڈی ایم) بلخصوص پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) آئین کی تشریح اپنے من پسند نتایج کی بنیاد پر کر رہی ہے۔ ہم اس اہم آئینی مسئلے کو خالصتا قانونی نقطہ نظر سے مجھنے کی کوشش کریں گے۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 59 میں سینیٹ کی عمومی تشکیل کی وضاحت کی گئی ہے جبکہ آرٹیکل 60 کے تحت چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ دونوں دفعات ووٹ کے انداز، طریقہ کار اور ضابطہ کار پر خاموش ہیں۔ تاہم، آرٹیکل 226 میں بیان کیا گیا ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلی کے علاوہ تمام انتخابات خفیہ رائے شماری کے ذریعے عمل میں لائے جائیں گئے۔
آرٹیکل 219 کی ذیلی شق (بی) الیکشن کمیشن پر یہ پابند عائد کرتی ہے کہ وہ "سینیٹ میں انتخابات کا اہتمام اور انعقاد کریں یا کسی ایوان یا صوبائی اسمبلی میں خالی آسامیاں پُر کریں "۔ مذکورہ آرٹیکل بھی انتخابات کے طریقہ انداز، طریقہ کار اور ضابطہ کار پر خاموش ہے۔ آخر میں آرٹیکل 225 نے بظاہر یہ کہتے ہوئے انتخابی عمل کوکسی عدالت کے سامنے چلیں ج کرنے سے استشنی قرار دے دیا ہے کہ "کسی ایوان یا صوبائی اسمبلی کے کسی بھی انتخاب کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا ماسوائے الیکشن پٹیشن کے وہ بھی ایسے ٹریبونل کے سامنے جس طریقہ کار کا تعین پارلیمنٹ قانون سازی سے کرے۔"۔ پارلیمنٹ کی جانب سے الیکشن تنازعات کے حل کے لیے قانون سازی کا فقدان مذکورہ معاملے کو مزید گھنجلگ بنا دیتا ہے۔
اب عدالت موصوف کے سامنے خالص آئینی تشریح کا معاملہ ہو گا، جس کے لیے عدالت موصوف کو حسب ذیل سوالات کے جوابات درکار ہوں گے۔
(ا) کیا آئین خاموش ہونے پر انتخابی عمل کو عدالت کے سامنے چیلنج کیا جاسکتا ہے؟
(ب) دوسرا سوال یہ ہوگا کہ سینیٹ انتخابات کے نتائج کو چیلنج کرنے کے لئے سب سے موزوں فورم کون سا ہے؟ الیکشن کمیشن یا آئینی عدالتیں (یعنی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ)؟
(ج) عدالت کے سامنے سب سے اہم سوال یہ ہوگا کہ کیا پارلیمانی استحقاق کو انتخابی عمل تک بڑھایا جاسکتا ہے؟ آسان الفاظ میں آیا انتخابی عمل قانون سازی کا حصہ ہے یا ایسے ایک عام (معمول) کا کام تصور کیا جائے؟
اس سے پہلے کہ ہم بحث کو آگے بڑھائیں، آئیے اس نکتے پر تھوڑی توجہ مرکوز کریں کہ پارلیمنٹ کا قانون سازی کا کام ہے کیا اور اس میں کیا کیا عوامل شامل ہیں؟
بلیک لا ڈکشنری کے مطابق قانون سازی میں " قوانین کے بنانے اور قوانین کے نفاذ کا عمل شامل ہے"۔
ایک اور تعریف کے مطابق "افراد کی ایک دانستہ انجمن جو عمومی طور پر منتخب شدہ ہو، جن کے پاس ملکی قوانین، بنانے، تبدیل کرنے یا منسوخ کرنے کااختیار حاصل ہو، حکومت کی ایسی برانچ (جزو) جیسے قانون بنانے کا اختیار حاصل ہے، مگر وہ حکومت کی انتظامی اور عدالتی شاخوں (برانچوں)سےممیزہو۔
ہندوستان کے ایک اعتدال پسند اسکالر کے کے گائی یوں وضاحت کرتے ہیں کہ "یہ مقننہ ہے جو ریاست کی مرضی کو قوانین میں ڈھل کر قانونی شکل دیتی ہے۔"
مقننہ یا پارلیمنٹ حکومت کی وہ شاخ ہے جو بحث و تمحیص کے ذریعے قانون سازی کا کام سرانجام دیتی ہے۔ مقننہ حکومت کا وہ عضو ہے جو حکومت کے قوانین کو منظور کرتی ہے۔ یہ وہ ایجنسی ہے جس کی ذمہ داری ہے کہ ریاست کی مرضی کو قوانین کی شکل میں مرتب کرے اور اس کو قانونی اختیار اور طاقت کے ذریعے منظور کروائے۔ آسان الفاظ میں، مقننہ حکومت کا وہ عضو ہے جو قوانین تشکیل دیتا ہے۔
اب تک کی بحث سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ قانون سازی سے مراد صرف قوانین کی تشکیل ہے۔ کوئی عام معمول کا کام جیسا کہ کسی ملازم کی خدمات حاصل کرنا، اسے ملازمت سے برطرف کرنا، پارلیمنٹ کی عمارت کی تعمیر کے لئے اشتہار دینا، قومی اسمبلی یا سینیٹ میں چئیرمین سینٹ یا سپیکر کی جانب سے پارلیمنٹ میں کسی تقریب کا انعقاد و انصرام قانون سازی کا عمل نہیں سمجھا جاتا بلکہ یہ معمول کا کام سمجھا جائے گا۔
پاکستان چونکہ دولت مشترکہ کے ممالک سے تعلق رکھتا ہے جہاں سیاسی و آئینی ماہرین کے علمی کام نے صراحت کے ساتھ ان تصورات کو بیان کیا ہے اس لیے ان ممالک کے نظائر پاکستان کی آئینی تشریح میں معاون و مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
کینڈا کو تین سال قبل اسی طرح کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑا تھا، Chagnon vs Syndicate De La Publique et du Quebec 2018 SCC 39 کیس میں کینیڈا کی سینیٹ نے کچھ ملازمین کو ملازمت سے برطرف کردیا تھا جس پر ملازمین نے عدالت سے رجوع کیا۔ سینیٹ نے مؤقف اختیار کیا کہ اسے پارلیمانی استحقاق حاصل ہے، اس کی کارروائی / فیصلہ حتمی ہے اور کسی بھی عدالت کے روبرو داد رسائی نہیں کی جا سکتی۔
Wagner CJ، Abella، Moldaver، Karakatsanis، Gascon اور Martin جسٹسز پرمپلشتمل سپریم کورٹ کے چھ رکنی بنچ نے مذکورہ موقف کو مسترد کرتے ہوئے فیصلہ دیاکہ "پارلیمنٹ کے استحقاق کا دائرہ کار صرف اپنے مقاصد (قانون سازی) تک محدود ہے اور اسے صرف اس حد تک بڑھایا جا سکتا ہے جہاں قانون سازوں کو قانون سازی اور اپنے فرائض کی انجام دہی تک تحفظ فراہم کرنا مقصد ہو"۔
عدالت نے قانون سازی کے کام کے تعین کے لئے ایک ٹیسٹ متعارف کرایا۔"ٹیسٹ کے مطابق یہ ضروری ہے کہ جس سرگرمی پر استحقاق کا اعلاق کیا جانا مقصد ہو وہ سرگرمی صرف قانون سازی کے عمل سے منسلک ہو۔
پاکستان کے حالیہ سینیٹ انتخابات میں بھی اس نظیر کا حوالہ دیا جاسکتا ہے۔ جس میں پریذائیڈنگ آفیسرکی سنگین بے ضابطگیوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔ چیئرمین سینیٹ کے ووٹوں کی گنتی اور نو منتخب امیدوار کے نام کے اعلان کی کارروائی قانون سازی کا حصہ نہیں ہے۔ بلکہ اسے غیر قانون سازی(non legislative) یا معمول کے کام سے منسوب کیا جائے گاجسے کسی بھی مجاز عدالت کے سامنے چیلنج کیا جاسکتا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ عدالت کی بنیادی توجہ آخری سوال کی تشریح پر مرکوز ہوگی کہ آیا پریذائیڈنگ آفیسر کا ہر فیصلہ قانون سازی کے زمرے میں آتا ہے یا اسے روٹین / عام کام سمجھا جائے گا؟ اگر ایک بار عدالت اس پراسرار سوال کی گتھی کو سلجھانے میں کامیاب ہو گئی تو اس کا جواب زیادہ درست اور قابل فہم ہوگا۔ اگر عدالت یہ فیصلہ کر لیتی ہے کہ پریذائڈنگ آفیسر کا ہر فیصلہ قانون سازی کے دائر اختیار میں نہیں آتا تو عدالت پریذائڈنگ آفیسر کے فیصلے کو گیلانی کے حق میں تبدیل کردے گی، بصورت دیگر، پی پی پی اس فیصلے کو عدالتی تاریخ کی ایک اور تاریک کڑی سے تعبیر کرے گئی۔