Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Imtiaz Ahmad/
  4. Election 2024, Haqeeqi Tabdeeli Ye Aayi Hai

Election 2024, Haqeeqi Tabdeeli Ye Aayi Hai

الیکشن 2024، حقیقی تبدیلی یہ آئی ہے

جب روایتی اور سوشل میڈیا پر کوئی بھی بیانیہ چل رہا ہوتا ہے، تو میں اس کا موازنہ اپنی تحصیل نوشہرہ ورکاں، اس کے دیہات کی سیاست اور گلی محلے کے عام لوگوں کی سوچ سے کرتا ہوں۔

اس سے یہ اندازہ باآسانی ہو جاتا ہے کہ میڈیا پر چلنے والا بیانیہ حقیقت سے کتنا قریب یا دور ہے؟

سن 2013 کے انتخابات سے چند ہفتے پہلے میں لاہور میں چند صحافی دوستوں سے ملا۔ ان کا خیال تھا کہ عمران خان بڑی طاقت بن کر ابھریں گے۔ میری رائے مختلف تھی۔ میں نے کہا کہ ہمارے محلے، گاوں اور آگے پیچھے کہیں بھی عمران خان موجود نہیں ہے۔

شہروں کی بات الگ ہوتی ہے اور پاکستان میں جب بھی کوئی بڑی حکومتی تبدیلی آئی ہے، اس کے پیچھے تحصیل لیول اور گاوں دیہات کی سیاست کا کردار بہت اہم رہا ہے۔

سن 2018 کے عام انتخابات تھے۔ ہر جگہ عمران خان کا چرچا تھا لیکن ہمارے نوشہرہ ورکاں اور دیگر دیہات میں پی ٹی آئی پھر بھی کمزور نظر آئی۔

میں ایک بات بتاتا چلوں کہ ہمارا حلقہ تاریخی لحاظ سے مسلم لیگ کا حلقہ ہے۔ یہاں کسی دوسری جماعت کا جیتنا ناممکنات میں سے ہے۔ اگر کوئی دوسری جماعت ستر برسوں کے دوران کوئی دو چار الیکشن جیتی بھی ہے تو ووٹوں کا فرق نہ ہونے کے برابر تھا۔

ابو جی مسلم لیگ اور نواز شریف کے حامی تھے۔ والدہ اور تمام بھائی ابھی تک مسلم لیگ سے جڑے ہوئے ہیں لیکن ان کے بچے اور بہنیں اب پی ٹی آئی کے ہمدرد ہیں۔

بلکہ گزشتہ روز اماں جی نے افسردہ سا چہرہ بنا کر بڑی بہن کو مبارکباد دی کہ تمہارا پی ٹی آئی کا بلال اعجاز جیت گیا ہے اور ہمارا نون لیگ کا مظہر قیوم ناہرہ ہار گیا ہے۔ باجی مجھے یہ بات بتاتے ہوئے قہقہے بھی لگا رہی تھیں۔

خیر سن 2018 میں پی ٹی آئی کی حکومت تو آئی تھی لیکن میں جب بھی مقامی حقائق کے ساتھ موازنہ کرتا تھا تو ہمارے نوشہرہ ورکاں سمیت نواحی دیہات میں یہ پھر بھی بہت کمزور دکھائی دیتی تھی۔

اگر کوئی مجھے سن 2018 میں دوبارہ پوچھتا تو میں یہی کہتا کہ پی ٹی آئی ابھی گاوں دیہات کی سیاست اور عام مزدور کے ذہن تک نہیں پہنچی۔ لیکن اس مرتبہ حالات بالکل مختلف تھے۔ میں جس سے بھی بات کرتا تھا، وہ یہی کہتا کہ ہمارا امیدوار تو مسلم لیگ کا ناہرہ ہی ہے لیکن یار یہ فوج والے عمران خان کے ساتھ بڑی زیادتی کر رہے ہیں۔

مسلم لیگ کے امیدوار سیاسی جلسے جلوس بھی کر رہے تھے، بڑی بڑی برادریاں ان کے ساتھ تھیں، ناہرہ برادران حلقے میں موجود بھی رہتے ہیں اور سب لوگوں کے مسائل بھی سنتے ہیں لیکن فوج کا عمران خان سے رویہ سب کے دل میں پی ٹی آئی کے لیے ہمدردی پیدا کر گیا ہے۔

پاکستان کے غریب خود کو مظلوم تصور کرتے ہیں اور انہوں نے خاموشی سے جو "مظلوم" نظر آیا ہے، اس کا ساتھ دیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی نظام کی زیادتیوں اور نا انصافیوں کو عمران خان کی ذات میں دیکھا ہے۔

دوسری جانب ہمارے علاقے میں پی ٹی آئی کے امیدوار کا کوئی جلسہ نہیں تھا اور کوئی بہت لمبی چوڑی سیاسی کمپین بھی نہیں تھی۔ اگر حلقے کے کاموں کا دیکھا جائے تو بھی بلال اعجاز ناہرہ برادران سے بہت پیچھے نظر آتے ہیں۔ لیکن رزلٹ سامنے آیا تو سب حیران تھے کہ مسلم لیگ کے ناہرہ برادران ہار رہے ہیں۔

شاید پی ٹی آئی کے بلال اعجاز کو بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں کیسے جیت رہا ہوں؟

ہمارے حلقے میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ووٹ امیدوار یا اس کی کارکردگی کو نہیں بلکہ عمران خان کو ڈالے گئے ہیں۔ پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ برادری ازم سے ہٹ کر سوچا گیا ہے اور یہ نوجوان نسل اور خواتین کی سوچ ہے۔

نئی نسل کو اندازہ ہے کہ ہمیں تھانے کچہریوں میں کوئی کام نہیں، ہم نے ملازمت اپنے بل بوتے پر لینی ہے، شناختی کارڈ خود بنوانے ہیں اور سڑکیں کسی نہ کسی طریقے بن ہی جانی ہیں۔

دوسرا یہ نئی نسل سوشل میڈیا پر ایکٹیو رہتی ہے۔ روایتی میڈیا پر پابندیاں تھیں لیکن سوشل میڈیا پر یہ بیانیہ تھا کہ عمران خان کو ہر طرح سے ریاستی جبر کے ساتھ کچلا جا رہا ہے۔

الیکشن والی رات میں نے پولنگ اسٹیشن پر موجود ایک دو اساتذہ سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ گنتی کے وقت مسلم لیگ کے ووٹ ہی نہیں نکلے اور بظاہر مسلم لیگ کے پکے گھرانے بھی عمران خان کو ووٹ ڈال کر گئے ہیں۔

منی ہائسٹ کا ایک فقرہ یاد آ رہا ہے۔ اس میں بینک ڈکیتی کا ماسٹر مائینڈ پروفیسر کہتا ہے کہ اگر ہم نے عوامی حمایت حاصل کرنی ہے تو ہمیں سکیورٹی اہلکاروں کو ظالم اور خود کو مظلوم ثابت کرنا ہوگا کیوں کہ عوام کے دل میں ہمیشہ مظلوم کی حمایت پیدا ہوتی ہے۔

ہماری سیاست میں بھی گزشتہ ایک دو سال سے یہی ہوا ہے۔ پی ٹی آئی کو ایسے طریقوں سے کچلنے کی کوشش کی گئی ہے، جسے عوام بھی زیادتی سمجھ رہے ہیں۔

خیر ہمارے علاقے میں برادری ازم کا ووٹ پہلی مرتبہ ٹوٹا ہے اور میری نظر میں عام ووٹر کی سوچ اور انتخابات کی حرکیات میں یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔

گزشتہ چار پانچ برسوں کے دوران جو بھی ہوا ہے، میری نظر سے ان سب میں سے بڑی تبدیلی مقامی سطح پر برادری ازم کے نظام میں دراڑیں پیدا ہونا ہے۔ پی ٹی آئی کا بطور جماعت پتہ نہیں لیکن عمران خان پہلی مرتبہ سامنے نہ ہوتے ہوئے بھی گاوں دیہات تک پہنچ چکے ہیں۔

سن 2018 کے بارے میں میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن اس مرتبہ ووٹ اور ووٹر عمران خان کے تھے۔

Check Also

Insaan Rizq Ko Dhoondte Hain

By Syed Mehdi Bukhari