Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Javed Chaudhry/
  3. Polarization

Polarization

پولرائزیشن

پہلا کریڈٹ بہرحال عمران خان کو جائے گا۔ ملک میں احتساب کا عمل شروع ہو چکا ہے، میاں نواز شریف جمعرات 15 جون کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں گے، یہ بطور وزیر اعظم کسی شخص کی کسی تفتیشی ٹیم کے سامنے پہلی پیشی ہوگی، یہ پیشی دو لوگوں کا کریڈٹ ہے، پہلا کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے، عمران خان خوفناک مذمت، دباؤ اور مخالفت کے باوجود ڈٹے رہے، یہ 2013ء سے 2017ء تک "لگے رہے" یہاں تک کہ وہ وقت آ گیا جب سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ بنا، بینچ نے چار ماہ کیس سنا، پھر جے آئی ٹی بنی اور یہ جے آئی ٹی بھی مسلسل ایک ماہ سے تحقیقات کر رہی ہے، یہ اب تک دو درجن گواہوں اور ملزمان کے بیانات بھی ریکارڈ کر چکی ہے، وزیراعظم کے صاحبزادے بھی بار ہا جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے، حسین نواز پانچ بار جے آئی ٹی کے سامنے بیٹھے اور حسن نواز نے دو بار تفتیش بھگتی تاہم جے آئی ٹی ابھی تک شریف فیملی کے خلاف کوئی ثبوت تلاش نہیں کر سکی، یہ وزیراعظم کو بھی ملزم ثابت نہیں کر سکے گی۔

جے آئی ٹی کے ارکان اپنی نجی محفلوں میں برملا یہ اعتراف کرتے پائے جاتے ہیں"ہمارے ہاتھ ابھی تک کوئی ثبوت نہیں آیا"یہ تمام حقائق جان کرقانونی ماہرین کا خیال ہے یہ معاملہ بالآخر قطری شہزادے حمد بن جاسم کے خط پر جا اٹکے گا اور اگر جے آئی ٹی نے زور دیا تو شریف فیملی گواہی کے لیے شہزادے کو بھی پاکستان لے آئے گی، یہ اگر ممکن نہ ہوا تو شہزادہ سکائپ یا ویڈیو لنک پر اپنا بیان ریکارڈ کرا دے گا، یہ ماضی کا ایک آدھ ثبوت بھی پیش کر دے گا جس کے بعد منی ٹریل ثابت ہو جائے گی لیکن اس سے قبل وزیراعظم کا جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونا اور تفتیش کا سامنا کرنا ملکی تاریخ کا بڑا واقعہ ہوگا اور ہمیں اس کا پہلا کریڈٹ بہرحال عمران خان کو دینا ہوگا، تفتیش کا دوسرا کریڈٹ میاں نواز شریف کو جائے گا، یہ اگر اس کیس کا سامنا نہ کرنا چاہتے تو کوئی انھیں مجبور نہیں کر سکتا تھا، آئین وزیراعظم کو استثنیٰ دیتا ہے، یہ جب تک وزیراعظم ہیں یہ کسی تفتیشی ٹیم یا عدالت میں پیش ہونے کے پابند نہیں ہیں لیکن وزیراعظم نے اپنا یہ استثنیٰ سرینڈر کر دیا، وزیراعظم جے آئی ٹی کو تسلیم کرنے سے بھی انکار کر سکتے تھے، ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی "وائیٹ کالر کرائم" کی تفتیش کے لیے آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمایندوں کو تفتیشی ٹیم کا حصہ بنایا گیا۔

جے آئی ٹی میں ملک کے تیسرے بڑے خفیہ ادارے "آئی بی" کو شامل نہیں کیا گیا، یہ دونوں اقدامات معاملے کو مشکوک بنا دیتے ہیں چنانچہ وزیراعظم کا خاندان اس ہیت کو چیلنج کر سکتا تھا، یہ لوگ دونوں خفیہ اداروں کے نمائندوں کو جے آئی ٹی سے نکلوا بھی سکتے تھے اور یہ "آئی بی" کو بھی اس ٹیم میں شامل کرا سکتے تھے لیکن یہ اس پر بھی خاموش رہے، یہ لوگ تفتیش کے دوران گواہوں پر دباؤ ڈالنے یا ناروا سلوک کو بنیاد بنا کر جے آئی ٹی کا بائیکاٹ بھی کر سکتے ہیں اور اگر شریف فیملی نے جے آئی ٹی کا بائیکاٹ کر دیا تو تفتیش کا عمل رک جائے گااور جے آئی ٹی "ملزمان" کو سنے بغیر رپورٹ تیار کرسکے گی اور نہ ہی یہ "ملزمان" کے لیے سزا تجویز کر سکے گی، شریف فیملی نے اب تک جے آئی ٹی کا بائیکاٹ نہیں کیا، یہ شریف فیملی کی "شرافت" ہے، وزیراعظم قانونی اور آئینی لحاظ سے بھی جے آئی ٹی کو تفتیش کے لیے وزیراعظم ہاؤس بلا سکتے ہیں، ماضی میں اس قسم کی کئی مثالیں موجود ہیں، یوسف رضا گیلانی تازہ ترین مثال ہیں، یہ جب وزیراعظم تھے تو نیب میں ان کے خلاف مقدمے چل رہے تھے، نیب فائلیں بند کرنے کے لیے تیار نہیں تھی اور وزیراعظم تفتیش کے لیے نیب کے دفتر جانے کے لیے رضا مند نہیں تھے، دونوں اداروں کے درمیان ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا، حکومت کے ایک دوست نے درمیانی راستہ نکالا، یہ دوست ملک کے بڑے بزنس ٹائیکون ہیں۔

یہ صدر آصف علی زرداری کے بھی دوست ہیں اور یہ نیب کے اس وقت کے چیئرمین ایڈمرل فصیح بخاری کے بھی ذاتی دوست تھے، یہ چیئرمین نیب سے ملے اور انھیں ٹیم کے ساتھ تفتیش کے لیے وزیراعظم ہاؤس آنے پر رضا مند کر لیا، فصیح بخاری نے نیب کی ٹیم لی اور یہ حکومت کے دوست کے ساتھ وزیراعظم ہاؤس پہنچ گئے، ٹیم میں کے کے آغا بھی شامل تھے، بیرسٹر کے کے آغا کراچی کے نامور وکیل تھے، یہ 1990ء کی دہائی میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی لیگل ٹیم میں شامل تھے، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی برسر اقتدار آئے تو انھوں نے انھیں پہلے ایڈیشنل اٹارنی جنرل لگایا اور بعد ازاں نیب کا پراسیکیوٹر جنرل بنا دیا، یہ اس وقت سندھ ہائی کورٹ کے جج ہیں۔

یہ بھی فصیح بخاری کے ساتھ وزیراعظم ہاؤس گئے، وزیراعظم اس وقت ناشتہ کر رہے تھے، وہ ابلے ہوئے انڈے توڑ کر زردی الگ کر رہے تھے اور سفیدی نکال نکال کر کھا رہے تھے، وزیراعظم نے ناشتے کے دوران ہی تفتیش کا اشارہ کر دیا، وزیراعظم کی پرنسپل سیکریٹری نرگس سیٹھی بھی وہاں آ کر بیٹھ گئیں، نیب کی ٹیم نے پہلا سوال کیا اور وزیراعظم مائنڈ کر گئے، انھوں نے انڈے چھوڑے اور ناراض ہو کر بیڈ روم میں چلے گئے، حکومت کے "دوست" ان کے پیچھے گئے اور انھیں منا کر واپس لے آئے، سوالوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا لیکن وزیراعظم اس بار بھی ناراض ہو گئے، وہ تفتیش کے دوران کئی بار اٹھ کر باہر گئے اور ہر بار وہ دوست انھیں منا کر واپس لائے اور یوں اللہ اللہ کرکے وہ تفتیش مکمل ہوئی اور نیب کی فائلیں بند ہوئیں لیکن میاں نواز شریف نے یوسف رضا گیلانی کی طرح تفتیشی ٹیم کو وزیراعظم ہاؤس طلب نہیں کیا، یہ خود چل کر تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش ہو رہے ہیں، یہ ان کا بڑا پن ہے۔

یہ بڑا پن ثابت کرتا ہے ملک بدل رہا ہے، پاکستان میں اب وہ وقت آ چکا ہے جب وزیراعظم بھی تفتیش کا سامنا کر رہے ہیں اور جب وزیراعظم جیسے لوگ تفتیش کا سامنا کریں گے تو پھر ملک کا کوئی بااثر شخص احتساب اور قانون سے نہیں بچ سکے گا، پھر سب کو تفتیشی اداروں اور عدالتوں میں پیش ہونا پڑے گا، مجھے خطرہ ہے وزیراعظم جوں ہی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں گے اس کے بعد ملک میں کوئی شخص تفتیشی اداروں اور عدالتوں کو انکار نہیں کر سکے گا، پھر جنرل پرویز مشرف کو بھی پاکستان واپس آ کر عدالتوں کا سامنا کرنا پڑے گا، آپ خود فیصلہ کیجیے اگر وزیراعظم قطری خط کی وضاحت کریں گے توکیا جنرل پرویز مشرف کو بھی یہ نہیں بتانا پڑے گا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے شہزادوں نے ان کے اکاؤنٹ میں رقم کیوں جمع کرائی تھی، آپ کو یاد ہوگا جنرل مشرف ٹیلی ویژن شو میں خود اعتراف کر چکے ہیں"میں نے رقم کے لیے بھیک نہیں مانگی تھی، مجھے شاہ عبداللہ نے رقم دی تھی" کیا وزیراعظم کے بعد جنرل مشرف کو بھی منی ٹریل نہیں دینا ہوگی، کیا عدالتیں ان سے بھی سعودی خط نہیں مانگیں گی۔

عمران خان کو بھی انسداددہشت گردی کی خصوصی عدالت باقاعدہ اشتہاری قرار دے چکی ہے چنانچہ عمران خان کو بھی وزیراعظم کی پیشی کے بعد عدالت میں پیش ہونا ہوگا، ہائی کورٹ اسلام آباد کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا مقدمہ سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت ہے، جسٹس صدیقی جوڈیشل کونسل سے عوامی سماعت کا مطالبہ کر رہے ہیں، یہ بار بار تحریری درخواست کر رہے ہیں"میرا مقدمہ کھلی عدالت میں سنا جائے، مجھ پر کھلا الزام لگایا جائے اور مجھے ان الزامات کی صفائی کا موقع دیا جائے" سپریم جوڈیشل کونسل ان کو یہ حق نہیں دے رہی، جب وزیراعظم اپنے تمام تر استثنیٰ کے باوجود جے آئی ٹی میں پیش ہوں گے توکیا پھر جوڈیشل کونسل جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی درخواست درخواست مسترد کر سکے گی؟ میرا خیال ہے کونسل یہ درخواست مسترد نہیں کر سکے گی۔

ملک میں ماضی میں بے شمار کمیشن بنے اور 90 فیصد کمیشنوں کی رپورٹس آج تک عوام کے سامنے نہیں آئیں، وزیراعظم کی پیشی کے بعد یہ رپورٹس بھی خفیہ نہیں رکھی جا سکیں گی، یہ بھی اوپن کرنا پڑیں گی، جنرل اشفاق پرویز کیانی کے دور میں این ایل سی میں میگا کرپشن کا کیس سامنے آیا تھا، یہ کیس میڈیا میں بھی آیا، نیب میں بھی انکوائری ہوئی اور بعد ازاں فوج نے بھی تحقیقات کیں، جنرل راحیل شریف کے دور میں بھی کرپشن پر پاک فوج کے6 اعلیٰ افسروں کو کڑی سزائیں دی گئی تھیں، ان افسروں میں لیفٹیننٹ جنرل، میجر جنرل اور بریگیڈیئر لیول کے آفیسرز شامل تھے، یہ نام آئی ایس پی آر نے میڈیا کو جاری کیے تھے، وہ انکوائری بھی اوپن کرنا پڑے گی اور مستقبل میں بھی جب اس نوعیت کی کوئی شکایت سامنے آئے گی تو اس کے لیے بھی باقاعدہ جے آئی ٹی بنانی پڑے گی اور وہ جے آئی ٹی بھی اسی طرح ملزمان کو طلب کرے گی جس طرح وزیراعظم کو بلایا گیا تھا اور وہ ملزمان بھی وزیراعظم کی طرح تفتیش کے لیے پیش ہوں گے۔

آپ یقین کیجیے اگر یہ ہوگیا تو پاکستان واقعی بدل جائے گا، یہ ملک واقعی قائداعظم کا پاکستان بن جائے گااور اگر خدانخواستہ ایسا نہ ہوا، اگر احتساب کا یہ عمل صرف نواز شریف اور ان کے بچوں تک محدود رہا، صرف یہ لوگ جے آئی ٹی اور عدالتوں میں دھکے کھاتے رہے تو پھر رہا سہا پاکستان بھی ہاتھ سے نکل جائے گا، پھر نہال ہاشمی سچ ثابت ہو جائیں گے، پھر پاکستان مسلم لیگ ن نہال ہاشمی کوواپس لینے پر مجبور ہو جائے گی، پھر میں اضافہ ہوجائے گا اور یہ ملک کو مزید پیچھے لے جائے گی، ہمیں اللہ تعالیٰ ایسے انجام سے بچائے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Governor Hai Aik Bhala Sa

By Najam Wali Khan