Tuesday, 30 April 2024
  1.  Home/
  2. Prof. Riffat Mazhar/
  3. Mehangai Ka Be Qabu Jin

Mehangai Ka Be Qabu Jin

مہنگائی کا بے قابو جِن

موسمِ گرما کی آمدآمد ہے اور ہم میمنہ ومیسرہ درست کرنے میں لگے ہیں۔ یوں سمجھ لیجئے کہ ہم حالتِ جنگ میں ہیں اور "میڈم بجلی" کامقابلہ کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں ماررہے ہیں۔ وجہ اِس کی یہ کہ پچھلے سال ہمیں میڈم کے "ہتھ" لگ چکے ہیں اور اب کی بار ہم کماحقہ بندوبست کرنے کی تگ ودَو میں ہیں۔

ہمارے پاس "موکل" توہیں نہیں جو ہمارے میٹرکی ریڈنگ کھینچ کے پیچھے کردیں اور نہ ہی ہم بجلی چوروں کے خلاف کوئی قدم اُٹھاسکتے ہیں کیونکہ یہ کام حکمرانوں کاہے اور حکمرانوں کی مجبوری یہ کہ اُنہوں نے آخر اِنہی چوروں سے ووٹ بھی تولینے ہوتے ہیں۔ اِس لیے ہمیں"تُوں گٹھڑی سنبھال تینوں چورنال کی" کے مصداق خودہی کچھ کرنا ہوگا۔ دراصل پچھلے سال گرمیوں میں ہمارا ایک ماہ کا بِل 90ہزار روپے آیا تو پہلا تاثر یہ تھاکہ ایسا ہوہی نہیں سکتا۔

ہم نے گھرمیں کون سی کوئی خفیہ فیکٹری لگائی ہوئی تھی جواتنا بِل آتا۔ پھر جب آنکھیں مَل مَل کے دیکھا تو ہونی ہوچکی تھی اور بِل تواُتنا ہی تھا۔ جب بِل ریڈنگ کا مطالعہ شروع ہوا تواللہ گواہ ہے کہ "کَکھ" سمجھ نہ آیا البتہ یہ ضرور پتہ چلاکہ میٹرریڈنگ کا بِل تو صرف 2سطور میں تھا لیکن ٹیکسز کی فہرست شیطان کی آنت کی طرح طویل۔ پھرہرماہ بِل کی وہی رفتار لیکن ٹھنڈے پیٹوں نہ ہضم ہونے کے باوجود ہم بِل قبول کرتے چلے گئے کہ چچا غالب فرماگئے

رنج سے خوگر ہوا انسان تو مِٹ جاتاہے رنج

مشکلیں مجھ پرپڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں

ہمارا ذہن ٹھہرا ارسطوانہ اِس لیے ہم نے سوچاکہ کیوں نہ اِن ٹیکسز کا پتہ لگایا جائے۔ ہمیں یہ اعتراف کرنے میں کوئی جھجک نہیں کہ اِن 32سے 35 فیصد ٹیکسز میں سے کچھ سمجھ میں آئے اور کچھ سَرکے اوپر سے گزر گئے۔ جوکچھ سمجھ میں آیا اُس میں پہلا 17فیصد جی ایس ٹی یعنی جنرل سیلز ٹیکس ہے۔ کوئی ہمیں سمجھائے تو سہی کہ بجلی تو ہم نے خریدلی اور اُس کی قیمت پر سمجھوتہ بھی کرلیا پھر یہ سیلزٹیکس کیوں؟ دوسرا بڑا ٹیکس وہ ہے جو بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو اداکیا جاتا ہے۔ یہ براہِ راست عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق بجلی پیدا کرنے والی نِجی کمپنیوں یعنی آئی پی پیزکو غیرملکی قرضوں کی ادائیگی اور ملکی دفاعی اخراجات کے

بعد تیسری سب سے بڑی رقم اداکی جاتی ہے۔ امیرِجماعت اسلامی سراج الحق کے مطابق اِن 88 کمپنیوں میں سے بیشتر کے مالکان پاکستانی ہیں جو مہنگی ترین بجلی پیدا کرتے ہیں اور اضافی پیداوار کی مَدمیں بھی اب تک ساڑھے آٹھ ٹریلین روپے حاصل کرچکے۔ اصولاََ اِنہیں صرف مہنگی بجلی کی قیمت ہی اداکی جانی چاہیے لیکن یہ آئی پی پیز سالانہ 2ہزار ارب روپے کیپسٹی پیمنٹ یعنی "غیراستعمال شُدہ بجلی" کی مَد میں حاصل کرتے ہیں۔ اِن کمپنیوں کے ساتھ جو معاہدہ کیاگیا ہے وہ 2027ء تک ہے اِس لیے یہ تلوار سَر پر لٹکتی ہی رہے گی۔

سات، آٹھ قسم کے ٹیکسز تو اور بھی ہیں لیکن چونکہ ہمارے یاقوم کے "رَولا ڈالنے" سے یہ ٹیکسز تو ختم ہونے کے نہیں اِس لیے مزید ٹیکسز کی تشریح کارِبیکار، آگے چلتے ہیں۔ قوم سے کہیں بہتر حکمران جانتے ہیں کہ ملک میں مہنگائی کا جِن بے قابو کیوں ہے؟ قصور اِس میں حکومت کابھی نہیں کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم گندم کابہت بڑا حصہ بیرونی ممالک سے درآمد کرتے ہیں اِس کے علاوہ اشیائے خورونوش میں خوردنی تیل اور پام آئل بھی درآمد کیاجاتا ہے۔ اگر کبھی چینی کی پیدوار زیادہ ہوجائے تو شوگرمِلز مالکان پہلے وافر مقدار میں چینی برآمد کرکے اپنی جیبیں بھرتے ہیں اور پھر وہی چینی مہنگے داموں درآمد کی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے بیشمار زرِمبادلہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور ہم کشکولِ گدائی لیے آئی ایم ایف کے دَرپر سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔

قارئین! یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ خوراک کی مَدمیں ہرکسی کو گندم، چاول، پیاز، دودھ، دالیں، چینی، سبزیاں اور خوردنی تیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اِس کے علاوہ گھرکا کرایہ، یوٹیلٹی بِلز (پانی، بجلی، گیس) اور ٹرانسپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں ماشاء اللہ بڑے بڑے معیشت دان بیٹھے ہیں جوہر روز الیکٹرانک میڈیا پر بیٹھ کر ارسطوانہ بحثیں کرتے رہتے ہیں۔ اِن میں سے ہے کوئی ایسا جو 50ہزار روپے میں گھریلو اخراجات کا تخمینہ لگاکر دکھا سکے۔ وفاقی وزیرِاطلاعات ونشریات عطاء اللہ تارڑکا کہنا ہے کہ معاشی اشاریے بہتری کی جانب گامزن ہیں اور مہنگائی کم ہورہی ہے۔ اگلے سال تک یہ 15فیصد تک آجائے گی۔

عرض ہے کہ عوام معاشی اشاریوں کو جانتے ہیں نہ معیشت کی گھمن گھیریوں کو۔ اُن کی معیشت توپیٹ سے شروع ہوکر پیٹ پرہی ختم ہوتی ہے۔ اُنہیں بس اتناہی علم ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری کا جِن اُنہیں نگلنے کوتیار بیٹھا ہے۔ وہ یہ دیکھ کربھی جلتے کڑھتے رہتے ہیں کہ حکمرانوں کی آویزاں کردہ ریٹ لِسٹ کے عین نیچے سبزی، گوشت اور کریانہ فروش مَن مرضی کے نرخوں پراپنی اشیا فروخت کررہے ہیں۔ اِن چھوٹے دُکانداروں اور سبزی، پھل اور کریانہ فروشوں سے جب سوال کیاجاتا ہے کہ وہ حکومتی ریٹ لسٹ کے مطابق سامان فروخت کیوں نہیں کرتے تو اُن کا جواب ہوتا ہے کہ اُنہیں جس ریٹ پر اشیائے ضروریہ ملیں گی وہ اُسی پرہی فروخت کرسکتے ہیں۔ حکومت ذخیرہ اندوزوں پرتو ہاتھ ڈالنے کی سکت نہیں رکھتی ہماری دُکانوں پرریٹ لسٹیں چسپاں کرتی پھرتی ہے۔

اِس وقت وفاقی ادارہ شماریات کے اعدادوشمار کے مطابق مہنگائی کی شرع 29فیصد ہے جبکہ وفاقی وزیرِاطلاعات کے مطابق اگلے سال تک اِسے 15فیصد تک لایا جائے گا۔ سوال مگر یہ ہے کہ علاقائی ممالک میں یہ شرح کتنی ہے؟ چین میں مہنگائی کی شرح محض 0.7 فیصد ہے۔ چین کی بات تو چھوڑیں کہ وہ عالمی طاقت ہے جو امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ڈَٹ کرکھڑا ہے لیکن بھارت جہاں غربت کایہ عالم کہ 80کروڑ افرادکو ماہانہ 5کلو اناج مفت تقسیم کیاجاتا ہے۔

یہی نہیں بلکہ بھارت میں پاکستان کی کل آبادی سے بھی زیادہ افراد فاقہ کشی پر مجبور ہیں وہاں بھی مہنگائی کی شرح 5.10 فیصد ہے۔ وہ بنگلہ دیش جسے ہمارے مارشل لائی حکمران بوجھ سمجھتے تھے وہاں مہنگائی 7.3 فیصد اور ڈیفالٹ کرجانے والے ملک سری لنکا میں اِس وقت مہنگائی کی شرح 5.9 فیصد ہے۔ اگر اگلے سال تک پاکستان مہنگائی کی شرح کو 15 فیصد تک لانے میں کامیاب ہوبھی جاتاہے تو پھر بھی مہنگائی کایہ جِن بے قابو ہی رہے گا۔

عوام کو یہ کہہ کر بہلایا نہیں جاسکتا کہ رفعتوں کو چھوتی مہنگائی کی اصل ذمہ دار تحریکِ انصاف کی ساڑھے تین سالہ حکومت ہے یا اتحادیوں کی سولہ ماہ کی حکومت میں مہنگائی کایہ جِن بے قابو ہوا ہے۔ اِس سے پہلے کہ مہنگائی کا عفریت کسی خونی انقلاب کاپیش خیمہ بن جائے، حکمرانوں کوانقلابی اقدامات اُٹھاتے ہوئے اشرافیہ کے جبڑوں سے وہ دولت نکالنی ہوگی جو مجبورومقہور عوام کی رگوں سے لہونچوڑ کر بنائی گئی۔ یاد رکھیں کہ عوام اب نہ تومہنگائی کابوجھ برداشت کرنے کی سکت رکھتے ہیں اور نہ ہی مزید ٹیکسز کا۔

Check Also

Inam Rana, Marrakech Aur Shame On You

By Syed Mehdi Bukhari