دولت کا سکون سے کوئی تعلق نہیں
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پیسہ انسان کی زندگی میں بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ پیسے سے انسان روٹی، کپڑا، مکان اور اپنی زندگی کی دیگر ضروریات پوری کرتا ہے۔ اپنی سماجی ضروریات پوری کرتا ہے۔ تعلیمی سفر جاری رکھنے اور صحت کے حصول کے لیے بھی پیسہ ناگزیر ہے۔ پیسہ ہماری زندگی کی اہم ترین ضرورت ہے۔
اس کے بغیر زندگی کا پہیہ بہت ہی مشکل سے چلتا ہے۔ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ خوشحال اور بہترین زندگی گزارے اور اس دور میں مال و دولت کی بدولت ایسی زندگی گزارنا ممکن ہے۔ پیسہ چونکہ زندگی کے لیے بہت اہم ہے، اس لیے ہر انسان اس کے حصول کے لیے بھرپور تگ و دو کرتا ہے۔ پیسے اور دولت کا حصول بری بات نہیں، مگر اس کی وجہ سے دیگر بہت کچھ نظر انداز کردینا برا ہے۔ دنیا میں ایسے افراد کی کمی نہیں، جن کی زندگی کا مقصد ہی صرف پیسہ کمانا ہے۔ اس مقصد کی خاطر وہ لوگ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔
اخلاقیات کی ہر حد پامال کرجاتے ہیں۔ برائی کی ہر حد پار کرجاتے ہیں۔ ایسے افراد کے نزدیک عزیز ترین خونی رشتوں کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ انھیں زیادہ سے زیادہ دولت کمانے اور جمع کرنے کی ہوس ہوتی ہے۔ اپنی ہوس کو پورا کرنے کے لیے وہ لوگ کسی کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ صبح اٹھنے کے بعد سے رات کو بستر پر جانے تک انھیں ہر لمحہ یہی دھن سوار رہتی ہے کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ پیسہ جمع کیا جائے۔ اس کوشش میں انھیں قوانین و ضوابط توڑنے اور اخلاقی حدود پامال کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ یہ لوگ حلال و حرام کی تمیز بھول جاتے ہیں اور ذاتی مفاد، خود غرضی اور نفسانیت ہر وقت ان کے پیش نظر رہتی ہے۔
آج ہمارے معاشرے میں زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ معاشرے میں سب سے زیادہ اسی موضوع پر بات ہورہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کیسے کمایا جائے؟ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا ہمارے معاشرے کے ایک عام آدمی کی زندگی کا نصب العین بن چکا ہے۔ بیشتر لوگ ہر وقت اسی فکر میں مگن رہتے ہیں۔
آج کے نوجوان کے آئیڈیل صاحبان علم و دانش افراد نہیں، بلکہ دولت سے مالا مال لوگ ہیں۔ انھیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ان کی دولت کن کن حرام ذرایع سے حاصل کی گئی ہے اور کتنے لوگوں کا حق چھین کر جمع کی گئی ہے۔ یہ نوجوان بس ان کی طرح امیر بننا چاہتے ہیں۔ معاشرے میں عزت و احترام بھی اسے دیا جاتا ہے، جس کے پاس مال و دولت زیادہ ہو۔ اگرچہ سب یہ جانتے ہوں کہ یہ دولت کرپشن، رشوت، دھوکا دہی اور غلط طریقوں سے حاصل کی گئی ہے۔ زبان سے سب لوگ ایسی دولت کی مذمت کرتے ہیں، لیکن عملی طور پر خود بھی انھیں کی طرح دولت کی ہوس میں مبتلا ہوتے ہیں۔
دولت کی ہوس سے انسان حرام وحلال کی تمیز سے محروم ہوجاتا ہے۔ معاشرے میں مقابلے کی دوڑ میں دولت اور ہوس نے ہماری خوشیوں کو محدود کردیا ہے۔ رشتوں اور تعلقات کی اہمیت کم کردی ہے۔ پہلے لوگ بہت مطمئن اور پْر سکون زندگی گزارتے تھے، حالانکہ وہ محنت مزدوری کرتے تھے اور انھیں کسی بھی قسم کی آسائشیں میسر نہ تھیں۔ آج دولت کی فراوانی اور بے تحاشہ سہولیات کے باوجود بھی انسان بے سکون ہے۔ ہر شخص نے اپنے ذہن میں پیسوں کا تخمینہ بنا رکھا ہے کہ اتنی فراوانی ہو جائے تو زندگی پر سکون ہو جائے گی اور جب اسے مطلوبہ مقدار میں دولت مل جاتی ہے تو وہ اس سے بھی زیادہ دولت کمانا چاہتا ہے۔
یہ سلسلہ اسی طرح چلتا ہے، کبھی نہیں رکتا۔ پر سکون زندگی گزارنے کے لیے سب سے اہم چیز دل کا مطمئن ہونا ہے۔ دولت کا سکون سے کوئی تعلق نہیں۔ سکون اور خوشیوں کا تعلق دل سے ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ چند ہزار روپے میں بھی پرسکون زندگی گزار رہے ہیں اور بہت سے لوگ بے تحاشہ دولت ہونے کے باوجود بھی ہمیشہ سکون سے محروم رہتے ہیں۔ اگر خوشیوں کا تعلق دولت سے ہوتا تو غریبوں کے بچوں کو مسکرانا ہی نہ آتا اور کبھی کوئی متمول شخص ڈپریشن کا شکار نہ ہوتا۔ روپے پیسے سے دْنیا کی ہر مادّی چیز تو خریدی جا سکتی ہے، مگر احساسات و جذبات، بے غرض چاہت و الفت، قیمتی وقت اور حقیقی خوشی اور سکون کا کوئی مول نہیں۔ دل کا سکون، مال و متاع کا محتاج نہیں۔
انسان دولت کو سب کچھ سمجھتا ہے۔ حیرت کی بات مگر یہ ہے کہ انسان اپنی حفاظت کے لیے دولت کماتا ہے، لیکن اسے خود اپنی دولت کی حفاظت کی فکر میں نیند نہیں آتی۔ والدین زندگی بھر جدوجہد کرکے اپنی اولاد کے لیے دولت کماتے ہیں، لیکن ان کے پاس اپنی اولاد کے ساتھ گزارنے کے لیے وقت نہیں ہوتا۔ انسان دولت اس لیے کماتا ہے کہ برے وقت میں کام آئے، لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دولت کسی کام نہیں آتی۔ علاج کے لیے دولت موجود ہے، لیکن دوا اثر نہیں کرتی۔ دولت کے حصول میں انسان اپنے آپ کو فراموش کر بیٹھتا ہے۔
دوست و احباب سے دورہوجاتا ہے۔ رشتے داروں سے تعلقات منقطع ہوجاتے ہیں۔ دولت کی حصول کے لیے انسان جھوٹ بول کر تجارت کرتا ہے، بدعنوانی کرتا ہے۔ دوسروں کا حق کھا جاتا ہے، سودی کاروبار کرتا ہے، چوری کرتا ہے، کسی کی زمین ہڑپ کر لیتا ہے، وراثت کی تقسیم میں حق داروں کے حقوق چھین لیتا ہے، چیزوں میں ملاوٹ کرتا ہے، ذخیرہ اندوزی کرتا ہے، حلال و حرام کی تمیز نہیں کرتا، جائز ناجائز کا فرق بھول جاتا ہے۔ المیہ مگر یہ ہے کہ ناجائز طریقوں سے کمائی گئی دولت کی خامیوں سے اچھی طرح واقف ہونے کا باوجود بھی انسان دولت کی ہوس میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ دین بھی دولت کے بارے میں کئی ہدایات دیتا ہے، تاکہ انسان دولت کے گڑھے میں گر کر خود کو نقصان پہنچانے سے گریز کرے، لیکن انسان اس سے عبرت حاصل نہیں کرتا اور اسی ڈگر پر چلتا رہتا ہے۔
دولت کے دائرہ اختیار کو سمجھنا انسان کے لیے بہت ضروری ہے۔ دولت سے جو کچھ کیا جاسکتا ہے، وہی کچھ کیا جانا چاہیے۔ زندگی کا ہر معاملہ دولت پر منحصر نہیں ہوتا۔ بہت کچھ ہے جو دولت سے حاصل کیا جاسکتا ہے، مگر بہت کچھ ہے جو دولت سے کسی بھی طور حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ زندگی کے ہر معاملے کو دولت سے جوڑنا ہمارے تمام معاملات کو غیر متوازن اور غیر مستحکم کرنے کا باعث بنتا ہے۔ محبت، خلوص، دوستی اور دیگر بہت سے تعلقات اور معاملات کا دولت سے زیادہ تعلق نہیں ہوتا۔ اگر ہم ان معاملات میں دولت کو غیر ضروری طور پر کوئی کردار ادا کرنے دیں تو صرف خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔
اس نکتے کو سمجھنا ضروری ہے کہ دولت محض ذریعہ ہے، مقصد نہیں۔ ہم دولت کی مدد سے بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں، مگر دولت بجائے خود کچھ بھی نہیں ہے۔ زندگی ہم سے قدم قدم پر دولت کے بارے میں معقول اور متوازن طرزِ فکر و عمل کا تقاضا کرتی ہے۔ جو لوگ دولت کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں، سب کچھ ہونے کے باوجود بھی وہ ہمیشہ سکون سے محروم ہوتے ہیں۔