Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Irshad Ahmad Arif/
  3. Dairon Ka Safar

Dairon Ka Safar

دائروں کا سفر

بات پارلیمنٹ میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری سے چلی اور عدلیہ کی فعالیت تک پہنچ گئی ؎

ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا

بات پہنچی تیری جوانی تک

آج کل خلائی مخلوق کا ذکر معدوم ہے، جنہیں یہ ذکر مرغوب تھا جو سول بالادستی کے نام پر طعنہ زن تھے وہ قومی سلامتی اور مفاد کی خاطرغیر مشروط محبت میں مبتلا ہیں، اس قدر زیادہ کہ تحریک انصاف، مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی میں امتیاز مشکل ہے ؎

ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے

اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے

عدالتی فعالیت پر داد وتحسین کے ڈونگرے برسانے والوں کو بھی آہستہ آہستہ سمجھ آ رہی ہے کہ عام آدمی کے روز مرہ مسائل تعلیم، صحت، روزگار، ملاوٹ، مہنگائی پر ازخود نوٹس اور ماتحت اداروں کی سرزنش کی حد تک تو بات ٹھیک ہے۔ آئین کی تعبیر و تشریح میں بھی کوئی حرج نہیں، لیکن عدالتی فعالیت کے بہانے پارلیمنٹ اور منتخب حکومت یا انتظامیہ کے دائرہ اختیار میں مداخلت ضرر رساں ہے، حکومت اور پارلیمنٹ کو مفلوج کرنے کے مترادف۔

سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کے ہاں چند ہفتوں بعد ایک محفل جمتی ہے، شہر کے دانشور، تجزیہ کار اور سفارتی و عسکری ماہرین جمع ہوتے اور اہم قومی و بین الاقوامی امور پر باہم تبادلہ خیال کرتے ہیں، اس بار موضوع بحث لامحالہ آرمی ایکٹ میں ترامیم اور مختلف سیاسی جماعتوں کا انداز فکر تھا۔ سروسز چیفس کے تقرر و مدت ملازمت میں توسیع کا ذکر جسٹس آصف سعید کھوسہ کے فیصلے کے بغیر مکمل نہیں، اس فیصلے پر حکومت اور ادارے کی برہمی بجا مگر عدالتی احکامات پر عملدرآمد کے دوران سب سے زیادہ ندامت مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے حصے میں آئی، دونوں کا سول بالادستی اور" سلیکٹڈ " "سلیکٹر" والا شتر گربہ بیانیہ اپنی موت آپ مر گیا۔ مسلم لیگ کے ڈاکٹر نثار چیمہ، جاوید لطیف اور شاہد خاقان عباسی بے چارے پوچھتے ہی رہ گئے کہ "ووٹ کو عزت دو" کا بیانیہ ترک کرنے کے عوض شریف خاندان نے کیا حاصل کیا؟ کچھ ہمیں بھی تو پتہ چلے کہ کارکنوں کو مطمئن کر سکیں۔ محفل میں مگر عدلیہ کی فعالیت پر سوال اٹھا، 28نومبر کے عدالتی فیصلے کے محرکات، نتائج اور فوائد پر بحث چل پڑی اور پھر سٹیل ملز، ریکوڈک کے فیصلوں سے پاکستان کو پہنچنے والے طویل المیعاد معاشی و سیاسی نقصاناتکا جائزہ لیا گیا۔ آج کالم لکھنے بیٹھا تو پی آئی اے کے نئے سربراہ ایئر مارشل ارشد ملک کے بارے میں عدالتی فیصلہ یاد آ گیا جو چند روز قبل صادر ہوا اور ارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا گیا۔ عدالتوں کا کام فیصلے صادر کرنا ہے اور وہ اپنے روبرو پیش ہونے والے دلائل و شواہد کی بنا پر درست فیصلے کرتی ہیں۔ عدالتی فیصلوں کی صرف تعمیل نہیں، تعظیم بھی مہذب معاشرے پر واجب ہے، یہ بحث پاکستان میں عشروں سے جاری ہے اور شائد مزید کئی برس تک جاری رہے کہ حکومت کو کوئی کاروباری ادارہ چلانا چاہئے یا نہیں؟ حقیقت مگر یہ ہے کہ کئی کاروباری ادارے اب بھی عمال حکومت چلاتے اور افراد کی نااہلی، ادارے کے خسارے کا بوجھ مفلوک الحال عوام اپنے کندھوں پر اٹھاتے ہیں۔ خون پسینے کی کمائی سے وہ اپنے بیوی، بچوں کا پیٹ پال سکیں، ان کے علاج معالجے پر توجہ دیں نہ دیں سرکاری اداروں کے خسارے کو کم کرنے اور ان اداروں کے کرپٹ، کام چور اور حرام خور افسروں و اہلکاروں کی عیش و عشرت کے لئے وسائل فراہم کرنے کے پابند ہیں، ارشد ملک کی آمد سے پہلے پی آئی اے انہی میں سے ایک تھا۔

پی آئی اے ایک زمانے میں دنیا کی چار پانچ بہترین ایئر لائنز میں شامل تھی، چند روز قبل امارات ایئر لائنز کا گورابانی ملازمت سے ریٹائر ہوا جس نے پی آئی اے کی معاونت سے امارات ایئر لائنز کی داغ بیل ڈالی، پی آئی اے کے تربیت یافتہ عملے، کرائے پر لئے گئے ایک جہاز اور خوشدلانہ تعاون کے بل بوتے پر امارات ایئر لائنز دنیا کی دو تین بڑی، نیک نام اور معیاری ایئر لائنز میں سے ایک ہے۔ ارشد ملک پاک فضائیہ میں تھے تو اپنی ذہانت، قابلیت، مہارت اور تجربے کی بنا پر افسروں اور ماتحتوں کی آنکھ کا تارہ رہے۔ پی آئی اے میں آئے تو ایئر مارشل اصغر خان اور ایئر مارشل نور خان کو رول ماڈل بنا کر چلے اور صرف ایک سال میں خسارے میں 41فیصد کمی کر دی۔ دو پارک طیارے قابل استعمال بنائے، مسافروں کی تعداد میں دو لاکھ کا اضافہ کیا، 47نئے روٹس پر پروازیں شروعہوئیں اور پروٹوکول کی بدعت ختم کی۔ ملک کی اہم اور طاقت ور ترین شخصیت نے ایک بار بتایا کہ عمران خان کی خواہش پر میری ایک عزیزہ نے برطانیہ میں اعلیٰ منصب چھوڑ کر پی آئی اے میں ملازمت قبول کر لی، میں نے حوصلہ افزائی کی مگر چند روز بعد وہ منہ بسورتی آئی اور بولی آپ نے مجھے کہاں پھنسا دیا، یہاں تو بدترین قسم کی دھڑے بندی، اقربا پروری، لوٹ مار اور کام چوری کا کلچر ہے، میرٹ کا دور دور تک نام و نشان نہیں اور قومی وسائل کو گِدھوں کی طرح نوچنے کا رواج ہے۔ ارشد ملک نے مگر اسی ادارے میں سفارشی کلچر پر قابو پایا، ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے پروردہ عناصر کو لگام ڈالی اور سروسز بہترین بنانے پر توجہ دی۔ صاف نظر آنے لگا کہ دو تین برس میں پی آئی اے منافع بخش ادارہ ہو گا اور ملکی و غیر ملکی مسافر ایک بار پھر "باکمال لوگ لاجواب پرواز" کا اعتراف کریں گے۔ مافیا کو یہ کب گوارا تھا کہ اس کی چودھراہٹ اور مفت خوری پر زد پڑے، متحرک ہوا، عدالتی فیصلے نے ارشد ملک کو عضو معطل بنا دیا، جس پی آئی اے کو اعجاز ہارون، اعظم سہگل اور سابقہ حکمرانوں کے ناتجربہ کار چہیتے راس تھے وہاں پاک فضائیہ کا ایک تجربہ کار عہدیدار محض تکنیکی بنیادوں پر چلانے کا اہل نہیں، واجب تعمیل قابل احترام فیصلے کا ایک پہلو یہ بھی ہے ع

اے روشنی ٔ طبع تو برمن بلاشدی

منیر نیازی نے کہا تھا ؎

منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے

کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

نجکاری کا شتر بے مہار عمل جب ایون فیلڈ فلیٹس اور سرے محل جیسے انڈے بچے دے رہا تھا کسی نے روکا نہ ٹوکا۔ سٹیل ملز کی نجکاری اور ریکوڈک کے معاملے پر حکومت کے ہاتھ پائوں باندھ دیے گئے، جسٹس افتخار محمد چودھری یہ فیصلے دے کر گھر جا بیٹھے، ریاست نتائج بھگت رہی ہے۔ منافع میں چلنے والی سٹیل ملز بند پڑی ہے، ریاستی خزانے پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔ ریکوڈک فیصلے کی بنا پر ہم چھ ارب ڈالر ہرجانہ ادا کرنے کے پابند ہیں اور پی آئی اے کو منافع بخش ادارہ بنا کر نجکاری کے قابل بنانے والا ارشد ملک، تکنیکی وجوہات کا شکار ہو گیا، یہ تکنیکی وجوہات ہی تھیں جو 28 نومبر کے فیصلے کی بنیاد بنیں اور مسلم لیگ(ن) و پیپلز پارٹی کے بیانیے کے علاوہ پارلیمنٹ کی خود مختاری و بالادستی کا تصور مذاق بن گیا۔ آسیب کا یہ سایہ کب تک ہمارا پیچھا کرے گا اور ہم کب تیز تر سفر کا ہدف حاصل کر پائیں گے کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتا فی الحال ہم دائروں کا سفر ذوق شوق سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ۔

Check Also

Som Aur Seyam Mein Farq

By Toqeer Bhumla