Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Orya Maqbool Jan/
  3. Motapay Ki Waba Aur Capitalism Ki Bhook

Motapay Ki Waba Aur Capitalism Ki Bhook

موٹاپے کی وبا اور کیپیٹل ازم کی بھوک

پوری دنیا کو اس وقت ایک عجیب و غریب ہیجانی کیفیت میں مبتلا کیا جا چکا ہے۔ ایک خوف ہے جو ہر صاحب حیثیت اور درمیانے طبقے کے فرد کے سر پر مسلط ہے۔ موٹاپے (Obesity) اور اس سے متعلق بیماریوں کا خوف۔ اس وقت دنیا میں جتنی تحقیق، جستجو اور سرمایہ کاری موٹاپا ختم کرنے کے لیے ہو رہی ہے اسکا پانچ فیصد بھی بھوک ختم کرنے اور دنیا کو قحط سے نجات دلانے کے لیے نہیں ہو رہی۔

دنیا کی تقریبا چھ ارب آبادی میں سے ایک چوتھائی ناکافی اور گھٹیا خوراک کے استعمال سے قحط سالی اور بیماریوں کا شکار ہو رہی ہے جبکہ ایک چوتھائی لوگ ایسے ہیں جو ضرورت سے زیادہ ایسی خوراک استعمال کرتے ہیں جس میں غذائیت (Nutrients) کم اور کلوریز (calories) زیادہ ہوتی ہیں، جسے عرف عام میں جنک (Junk) خوراک کہا جاتا ہے۔ یہ ایک چوتھائی یعنی تقریبا ڈیڑھ ارب افراد جو روزانہ زیادہ خوراک استعمال کرتے ہیں، جدید کارپوریٹ اقتصادی نظام کے محبوب ترین افراد ہیں اور ہر روز انکی تعداد میں اضافے کے سامان مہیا کیے جاتے ہیں۔ افراد ذیابیطس یعنی شوگر کے مرض کا جلد شکار ہوتے ہیں اور پھر بے شمار بیماریاں انہیں گھیر لیتی ہیں۔

تحقیق کے مطابق میکسیکو شہر کے چودہ فیصد افراد شوگر کے مریض ہیں جبکہ بھارت کے شہروں میں رہنے والے گیارہ فیصد شوگر کے مرض میں گرفتار ہیں۔ امریکہ میں 2000ء میں پیدا ہونے والا ہر تیسرا بچہ آج شوگر میں مبتلا ہوچکا ہے۔ اس سب کی بنیادی وجہ وہ مرض ہے جسے موٹاپا کہتے ہیں جس نے اس دنیا کو گھیرا ہوا ہے۔ امریکہ میں 1980 سے اب تک موٹاپے کا شکار بچوں کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ موٹے افراد اس کیپٹل ازم اور کارپوریٹ نظام زندگی نے جان بوجھ کر کاروباری مقاصد کے تحت تخلیق کیے ہیں۔ انہیں میڈیا کی چکا چوند کی مدد سے خوراک کا ایک ایسا طرز زندگی یعنی لائف سٹائل دیا گیا ہے جس کے تحت وہ خوراک نہیں بلکہ ایک میٹھا زہر اپنے جسموں میں آہستہ آہستہ داخل کرتے ہیں۔

ایک امریکی ایک سال میں روزانہ 800 سافٹ ڈرنک کی بوتلیں پیتا ہے۔ یعنی وہ روزانہ تقریبا 25 چمچے چینی ضرورت سے زیادہ استعمال کرتا ہے۔ یہاں سے آپ خود آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہر تیسرا امریکی موٹا کیوں ہے۔ اگراس سافٹ ڈرنک کی لت یا عادت کا سگریٹ پینے کی لت سے موازنہ کیا جائے تو خوفناک بات یہ سامنے آتی ہے کہ سگریٹ کا اثر تو ساٹھ سال کی اوسط عمر کے بعد ظاہر ہوتا ہے جبکہ ضرورت سے زیادہ چینی یا شوگر کے استعمال کے اثرات بچپن ہی سے ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔

سافٹ ڈرنک کے ساتھ ساتھ خوراک جو ہم میڈیا کے بہلاوے اور لائف سٹائل کی جکڑ بندیوں میں کھا جاتے ہیں اسکے اثرات مزید تباہ کن ہوتے ہیں۔ مثلا ایک پاؤنڈ کے پیزا اور چٹنی میں سوڈیم کی مقدار ضرورت سے دو گنا زیادہ ہوتی ہے اور کلوریز اتنی کہ دن بھر کے لئے کافی۔ اسی طرح ان برگرز، پیزا اور فرنچ فرائز کی وجہ سے کھانے میں نمک کی مقدار میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے۔ نمک بذات خود موٹاپا نہیں کرتا لیکن زیادہ نمک کھانے سے سافٹ ڈرنک پینے کی فوری طلب بڑھتی ہے اور آدمی اس طلب کا شکار ہوکر مزید چینی جسم میں انڈیلتا ہے۔

جنک فوڈ میں بے انتہا نمک کا استعمال، بلڈ پریشر، دل کی امراض اور فالج (stoke) جیسی امراض میں مبتلا کرتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اگر امریکی خوراک میں آدھ نمک کم استعمال کریں تو سالانہ ڈیڑھ لاکھ اموات سے بچ سکتے ہیں۔ خوراک کی صورت یہ زہر پیدا ہوتے بھی دیا جاتا ہے۔ بوتل سے دودھ پینے والا بچہ پہلے آٹھ ماہ میں ماں کے دودھ کے مقابلے میں 30 ہزار کلوری زیادہ حاصل کرتا ہے اسکا مطلب ہے اس نے عام سائز کے 120 چاکلیٹ کھائے ہیں۔ لاتعداد سائنسی تحقیقات یہ ثابت کرتی ہیں کہ بوتل کے دودھ کا موٹاپے سے بنیادی تعلق ہے۔

موٹاپا اس وقت کیپٹل ازم اور کارپوریٹ سماج کا محبوب ترین موضوع ہے جبکہ اتنے ہی لوگ بھوک اور قحط سالی کا بھی شکار ہیں لیکن آج کے جدید، مہذب، سیکولر، لبرل، جمہوری اور سرمایہ دارانہ معاشرے میں ان غرباء کی کوئی اہمیت نہیں۔ انکا ذکر صرف فیشن کے طور پر عالمی کانفرنسوں میں کیا جاتا ہے اور بس، جبکہ موٹاپے کی وبا ایک پھلتا پھولتا ہوا کاروبار ہے، سکہ رائج الوقت ہے۔

موٹاپے پر خصوصی توجہ کی لاتعداد وجوہات ہیں، اور سب کی سب منافع بخش کاروبار سے جڑی ہوئی ہیں۔ بھوک کا تو ایک سادہ سا علاج ہے کہ بھوکے لوگوں تک خوراک پہنچا دی جائے۔ اللہ اللہ خیر صلا، مسئلہ ختم۔ لیکن موٹاپے کو ختم کرنے کے گرد تو کاروبار کی ایک دنیا گھومتی ہے۔ بھوک کا شکار فرد تو ایک دن خود ہی اس دنیا سے گزر جائے گا، اسے زندگی بچانے کے لیے خوراک کے سوا کسی اور چیز کا انتظار نہیں ہوتا۔ جبکہ موٹاپے کے شکار افراد کی باقی ماندہ بیمارزندگی کے لئے ایک کارپوریٹ دنیا آباد کی گئی ہے۔

ورزش اور جم کلچر اس وقت پوری دنیا میں ایک وبا کی صورت پھیلا ہوا ہے۔ ایک ایسا کاروبار جو انسان کو صحت مند رکھنے کے لیے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی اربوں ڈالر کی فوڈ انڈسٹری کی پیدا کردہ موٹاپے کی بیماری سے نجات کے بھی کام آتا ہے۔ گلی کوچوں میں جم کھلے ہیں اور انکے لیے ہر روز نت نئے طریقوں کی ایکسرسائز مشینیں تیار ہوتی ہیں۔ جو لوگ جسمانی مشقت برداشت نہیں کرسکتے، یا انکا موٹاپا ضرورت سے زیادہ ہے تو انکے لیے بے شمار آپریشن ہیں، چربی نکالنا، معدہ چھوٹا کرنا وغیرہ وغیرہ۔

جس فوڈ انڈسٹری کی فاسٹ فوڈ اور سافٹ ڈرنکس وغیرہ سے آپ موٹا ہوتے ہیں وہی کارپوریٹ کلچر آپ کے لئے کم کلوریز والی خوراک بھی علیحدہ سے تیار کرواتا ہے مثلا شوگر فری سافٹ ڈرنک وغیرہ۔ موٹاپا کم کرنے والی روزانہ خوراک ایک (Diet plan) کے تحت مارکیٹ کی جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ امیر معاشروں اور شہری زندگی میں ہوتا ہے۔ اسی لئے اربن کلچر کو کارپوریٹ سرمایہ دار کی جنت کہتے ہیں۔ قحط زدہ شخص کو بھوک مٹانے کے لیے تو صرف خوراک چاہیے اور اسکا بندوبست زراعت کرتی ہے۔ لیکن کیا کریں وہ لوگ جن کا پیشہ زراعت ہے انکی تعداد دنیا میں ڈھائی ارب اور ان میں سے 96 فیصد غریب ممالک میں رہتے ہیں۔

اگر دنیا کی ساری توانائیاں بھوک مٹانے پر خرچ کی جائیں تو فائدہ غریب کاشتکار کو ہوگا کارپوریٹ سرمایہ دار کو کچھ حاصل نہ ہوگا۔ ظالم سیکولر، لبرل، جمہوری سرمایہ دار معاشرے نے ان زراعت پیشہ افراد کو بھی خوراک پیدا کرنے سے دور کرکے کاروبار کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ایسی فصلیں اگائی جارہی ہیں جن کا انسان کی خوراک سے کوئی تعلق نہیں، مثلا تمباکو، جلانے اور توانائی حاصل کرنے والی فصلیں (Agro fuel)، کاغذ اور برادے (Pulp) والے درخت، سویابین وغیرہ۔ انہیں cash crop کہا جاتا ہے۔ یعنی بھوکے سے رزق چھین کر نوٹ تھمائے جاتے ہیں۔

قحط کی طرف توجہ نہ کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ بھوک سے مرنے والے عموما بچے ہوتے ہیں۔ دنیا میں آٹھ کروڑ بچے سالانہ مرتے ہیں۔ مرنے والے غریب لوگ ہیں، انہوں نے کارپوریٹ کلچر کے لئے کونسا بڑے ہوکر بلڈ پریشر، ہائپر ٹینشن، شوگر، دل کے امراض اور کینسر کی ادویات استعمال کرنا ہے۔ انکی زندگی اہم ہے اور نہ موت افسوسناک۔ ڈیڑھ ارب خوش خوراک زیادہ اہم ہیں جو پہلے موٹاپے کا شکار کیے جاتے ہیں، پہلے انہیں خوراک سے مریض بنایا جاتا ہے پھر ادویات کے مسلسل استعمال سے انہیں زندہ رکھنے کی جدوجہد کی جاتی ہے۔ کس قدر خوفناک ہے۔

یہ کارپوریٹ سرمایہ داری ہے جو پورے سیکولر جمہوری نظام کو کنٹرول کرتا ہے، سیاسی پارٹیوں کو مستقل فنڈنگ کے ذریعے خاموشی سے خریدتا ہے۔ دنیا کی تمام پارلیمنٹیں اور کانگریسیں اسکی زر خرید ہیں۔ وہ ان جمہوری بھیڑیوں کے ذریعے ڈیڑھ ارب لوگوں کو بھوک اور قحط سے مرنے دیتا ہے اور ڈیڑھ ارب خوش خوراک لوگوں کو سسک سسک کر مرنے والی زندگی تحفے میں دیتا ہے۔ پارلیمنٹ، حکومت مالیاتی ادارے، میڈیا سب اسکی مٹھی میں ہیں۔

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.

Check Also

Brahui Zaban CSS Nisab Mein

By Asadullah Raisani