Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Tanveer Qaisar Shahid/
  3. Ubalta Dehakta Kashmir Aur Samundar Paar Pakistanio Ka Radd Amal

Ubalta Dehakta Kashmir Aur Samundar Paar Pakistanio Ka Radd Amal

اُبلتا دہکتا کشمیر اور سمندر پار پاکستانیوں کا ردِ عمل

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور مقتدر بی جے پی نے مقبوضہ کشمیر اور مظلوم کشمیریوں پر 5اگست کو جو نیا ظلم ڈھایا ہے، اووَرسیز پاکستانی اس سے لاتعلق نہیں رہ سکے ہیں۔ امریکا میں لاکھوں پاکستانی بستے ہیں۔ نیویارک ان کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ جناب سردار نصراللہ نیویارک میں پاکستانی کمیونٹی کے لیڈر کہے جاتے ہیں۔ وہ خود بھی کونسل مسلم لیگ کے صدر اور نیویارک کے ایک مقامی اخبارمیں ہفتہ وار کالم بھی لکھتے ہیں۔ سردار صاحب کو سیاست اور صحافت گھٹّی میں ملی ہے۔

اُن کے دادا مولوی انشاء اللہ خان تشکیلِ پاکستان سے قبل لاہور سے "وطن" نامی اخبار شایع کرتے رہے ہیں۔ اِسی اخبار کی مناسبت سے لاہور میں "وطن بلڈنگ" کو خاصی شہرت رہی ہے۔ مولوی صاحب کو یہ بھی اعزاز حاصل رہا ہے کہ وہ حضرت علامہ اقبال ؒ کی علمی مجالس میں تقریباً روزانہ ہی حاضری دیتے تھے۔ سردار نصر اللہ صاحب کے والد گرامی، سردار محمد ظفر اللہ، تحریکِ پاکستان اور قائد اعظم ؒ کے سپاہی تھے۔ کونسل مسلم لیگ کے پرچم تلے سردار ظفراللہ صاحب ( مرحوم و مغفور)لاہور میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح ؒکے جلسوں کا اہتمام اور میزبانی کا شرف حاصل کرتے رہے ہیں۔ فقیر سید وحید الدین کی مشہور کتاب "روزگارِ فقیر" اور منیر احمد منیر کی نئی تصنیف "مٹتا ہُوا لاہور" میں سردار نصر اللہ کے دادا اور والد گرامی کا تذکرہ ملتا ہے۔ اِسی ورثے اور جبلت کے تحت سردار نصر اللہ صاحب نے بھی نیویارک میں اپنی مسلم لیگ اور پاکستان کی محبت کا چراغ روشن کررکھا ہے۔ سردار صاحب ایک زمانے میں نیویارک میں نواز شریف کے میزبان اور جلسوں کے مہتمم بھی رہے ہیں۔

سردار نصر اللہ نیویارک میں وزیر اعظم عمران خان کے عشاق میں بھی شمار ہوتے ہیں۔ 22 جولائی کو خانصاحب نے واشنگٹن کے مشہور اسٹیڈیم (کیپیٹل وَن ایرینا) میں پاکستانی امریکیوں سے خطاب کیا تو سردار صاحب بھی اس جلسے میں شریک تھے۔ فون پر سردار نصراللہ نے مجھے بتایا: "متعصب مودی نے کشمیریوں پر جو نیا ستم ڈھایا ہے، نیویارک میں پاکستانی اور کشمیری نژاد امریکی سخت ناراض ہیں۔ ہم نے مظاہرے کرنے اور امریکی میڈیا میں اپنا ردِ عمل دینے کے لیے اپنی کمیونٹی کا ایک اجلاس بلایا۔ پہلے تو یہ طے کیا گیا کہ 50 ہزار ڈالر اکٹھے کیے جائیں تا کہ نیویارک ٹائمز میں بھارتی ظلم کے خلاف اشتہار شایع کروایا جائے۔ اس بارے سب نے جوش تو بہت دکھایا لیکن پچاس ہزار ڈالرز تو کیا، پانچ ہزار ڈالر بھی اکٹھے نہ کیے جا سکے ؛ چنانچہ اشتہار والا منصوبہ تو ڈراپ کرنا پڑا"۔ انھوں نے مزید کہا: " پاکستان نژاد امریکی اب تک نیویارک میں تین احتجاجی جلوس نکال چکے ہیں۔

پہلا احتجاجی مظاہرہ مین ہیٹن میں واقع بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے کیا گیا۔ اس میں جوش تو خوب تھا لیکن شرکت کنندگان کی تعداد اتنی نہیں تھی جتنی مطلوب تھی۔ دوسرا احتجاجی مظاہرہ بھی مین ہیٹن ہی میں بھارتی قونصلیٹ کے سامنے کیا گیا لیکن حاضرین کی تعداد وہاں بھی کم تھی۔ تیسرا مظاہرہ مشرف لیگ کے حامیوں نے کیا اور ان کی تعداد 80کے قریب تھی۔ " سردار نصراللہ نے تاسف سے کہا:"ہم پاکستانیوں نے یہاں نیویارک میں بھارت کے خلاف اپنے احتجاجات تو ریکارڈ کروا دیے لیکن مجھے افسوس اس بات کا زیادہ ہے کہ وہ پاکستان نژاد امریکی جو ہزاروں کی تعداد میں عمران خان صاحب کی تقریر سننے دُور دراز کے امریکی شہروں سے چل کر واشنگٹن ایرینا پہنچے تھے، کشمیریوں کے حق میں اور بھارت کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے نیویارک میں ایک ہزار پاکستانی بھی نہ آ سکے۔ " وزیر اعظم عمران خان صاحب نے امریکا میں بسنے والے پاکستانیوں سے بنفسِ نفیس اپیل کی تھی کہ وہ جوق در جوق، بڑے بڑے جلوسوں کی شکل میں بھارت کے خلاف مظاہرے کریں لیکن خانصاحب کی اپیل بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکی۔ نیویارک کے برعکس لندن شہر میں کشمیریوں اور پاکستان نژاد برطانوی شہریوں نے زیادہ منظم انداز میں مظاہرے کیے ہیں۔

حتیٰ کہ بی بی سی کو بھی تسلیم کرنا پڑا ہے کہ مظاہروں کے باعث مرکزی لندن مفلوج ہو گیا۔ لاریب ان مظاہروں سے مسئلہ کشمیر انٹرنیشنلائز ہُوا ہے۔ بھارتی دانشور بھی یہ بات مان رہے ہیں۔ بھارتی کانگریس کے سینئر لیڈر، ابھیشک مانو سنگھوی، نے بھی اعتراف کیا ہے کہ مودی جی نے بھارتی آئین سے آرٹیکل پنتیس اے اور 370ختم کرکے کشمیر ایشو کو انٹر نیشنلائز کر دیا ہے۔ بھارت کو اب اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں بھی نئے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لندن میں ہونے والے بھارت مخالف پاکستانیوں اور کشمیریوں کے مظاہروں نے بھارت کا ناک میں دَم کر رکھا ہے۔ ان مظاہروں میں اب بھارت نژاد سکھوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہو رہی ہے۔ اس عنصر نے بھارتی سردرد میں مزید اضافہ کیا ہے۔ ششی تھرور ایسے عالمی شہرت یافتہ بھارتی مصنف و دانشور بھی لکھ اور کہہ رہے ہیں کہ اِسی بات کا ڈر تھا کہ برطانیہ کے سکھ بھی کشمیریوں اور پاکستانیوں کے ساتھ مل سکتے ہیں۔ اور ہُوا بھی ایسا ہی۔ کشمیر کی حمایت میں اور بھارت کی مخالفت میں ضعیف و جوان برطانوی سکھ جس طرح اپنی آوازیں اور بازو بلند کر رہے ہیں، اس نے منظر ہی تبدیل کر دیا ہے۔

فلاحِ انسانیت کے لیے برطانیہ میں بروئے کا ر پاکستانیوں کے دو معروف اداروں "مسلم ہینڈز" اور "المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ" کے سربراہان نے بھی تسلیم کیا ہے کہ مظلوم کشمیریوں کے حق میں اور بھارتی جبر کے خلاف لندن میں پاکستان نژاد برطانویوں نے یورپ کا سب سے بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔ " مسلم ہینڈز" کے چیئرمین جناب لخت حسنین نے راقم کے پوچھنے پر بتایا : "آج مقبوضہ کشمیر میں ہمارے مجبور مسلمان بہن بھائی جس انسانی المیے کا سامنا کر رہے ہیں، ان کے حق میں برطانوی پاکستانیوں کا اُٹھنا ایک فطری عمل ہے۔ مَیں ایک چیریٹی ورکر ہُوں اور مَیں اپنے کشمیری بھائیوں کی محض انسانیت کے ناتے مدد کرنا چاہتا ہُوں لیکن انڈین جبر کی موجودگی میں کچھ نہیں کر سکتا۔ کیا یہ سب سے بڑا ظلم اور استحصال نہیں ہے؟" اور "المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ" کے چیئرمین عبدالرزاق ساجد صاحب نے کہا :" لاریب کشمیریوں کی مظلومیت اور نریندر مودی کے نئے استحصالی اقدام کے خلاف لندن میں پاکستان نژاد برطانوی شہری احتجاج میں اُمنڈ کر آئے ہیں۔

دس ہزار سے زائد کا احتجاجی جلسہ اپنی نوعیت کا منفرد اور ولولہ انگیز مظاہرہ تھا۔ لارڈ نذیر احمد نے برطانوی پاکستانیوں کو بھارتی ظلم کے خلاف موبلائز کرنے میں زبردست کردار ادا کیا ہے۔ ہماری تنظیم مقبوضہ کشمیر جا کر خود ستم زدگان کی مقدور بھر اعانت کرنا چاہتی ہے لیکن مودی سرکار نے ہمارے سامنے دیواریں کھڑی کررکھی ہیں۔ " سمندر پاکستانیوں نے یکجہت ہو کر جس طرح بھارت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے ہیں، یہ رائیگاں نہیں جارہے۔ ان کی وجہ سے بھارت سخت دباؤ میں ہے۔ اس کا اندازہ 18اگست2019ء کی اُس پریس کانفرنس سے لگایا جا سکتا ہے جو اقوامِ متحدہ کے دفاتر کے اندر کی گئی تھی۔ اس پریس کانفرنس سے خطاب کرنے جب یو این او میں بھارتی سفیر (سید اکبرالدین) سامنے آئے تو وہ غیر ملکی اخبار نویسوں کے سوالات کے جواب دیتے ہُوئے بوکھلا اُٹھے تھے۔ ان سوالات میں امریکا و برطانیہ میں کشمیریوں اور پاکستانیوں کے بھارت مخالف احتجاجی مظاہروں کا موضوع مرکزی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔

Check Also

Google, Facebook Aur Eman Bil Ghaib

By Basharat Hamid