Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Amir Khakwani/
  3. Gunah Be Lazzat

Gunah Be Lazzat

گناہ بے لذت

عرفان صدیقی صاحب کی گرفتاری کے افسوسناک واقعے اور پھر اچانک رہائی کے عجیب وغریب فیصلے پر خاصا کچھ کہا جا چکا ہے۔ ملک بھر کے صحافتی، جمہوری، سیاسی اور عوامی حلقوں سے اس بھونڈے اقدام پر شدید تنقید کی گئی۔ مذمت اس قدر زوردار اور اجتماعی نوعیت کی تھی کہ فوری طور پر پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ ایسی مضحکہ خیز پسپائی کہ اتوار کے روز عدالت کھلوا کر سائل کے وکلا کی عدم موجودگی ہی میں ضمانت لینا پڑی۔ حماقت کی ہی کیوں گئی؟اندازہ نہیں تھا کہ اس صریحاً ناجائز اقدام سے کس قدر شرمندگی اور خجالت اٹھانا پڑے گی؟کتنے بڑے پیمانے پر مخالفت ہوگی؟

عرفان صدیقی صاحب کو جس انداز سے گرفتار کیا گیا، جس عامیانہ انداز سے بزرگ صحافی اور اہل قلم کو ہتھکڑی پہنا کر عدالت لایا گیا، وہ ہر اعتبار سے غلط، ناجائز اور قابل مذمت ہے۔ مقدمہ کی جو تفصیل سامنے آئی، وہ مضحکہ خیز تھی۔ اس پر ٹاک شوز میں سوال اٹھے تو حکومتی کیمپ میں سے کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ اسلام آباد پولیس کا موقف اتنا کمزور اور بودا تھا کہ چند لمحے نہیں ٹھیر سکا۔ اس قدر بھد اڑی کہ رہا کرناہی پڑا۔ ممکن ہے پس پردہ بھی کچھ ہوا ہو، نادیدہ قوتوں نے مداخلت کی ہو، سمجھایا اور اعتدال کی راہ دکھائی ہو۔ وجوہات جو بھی ہوں، وہ مجسٹریٹ جنہوں نے چودہ دنوں کے لئے جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجا تھا، انہوں نے ہی اپنے فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے اتوار کے دن ضمانت کا فیصلہ کیا۔ ہم عدالتوں کا احترام کرتے اور ججوں کے فیصلوں کو چیلنج کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اعلیٰ عدالتیں مگر اپنے بہت سے فیصلوں میں ماتحت عدلیہ خاص کر مجسٹریٹ کی سطح پر کئے فیصلوں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کریمنل لاء کے ممتاز ماہرین میں شمار ہوتے ہیں، فوجداری کیسز میں ان کی قابلیت مسلمہ ہے، توقع کرنی چاہیے کہ مذکورہ مجسٹریٹ کی اہلیت اور قانونی وژن کا وہ جائزہ لیں گے۔ یہ تو معروف کالم نگار، استاد اور ایک بڑی جماعت کے نمایاں رہنما کا کیس تھا، میڈیا کوریج اور عوامی ردعمل کے باعث شنوائی جلد ہوگئی۔ اگریہاں کئی گمنام عام آدمی ہوتا تو پھر اس کا کیا بنتا؟وہ غریب معمولی جرم میں دو ہفتے سی کلاس جیل کاٹتا اورمعلوم نہیں کب ضمانت مل پاتی۔

عرفان صدیقی صاحب سے سوچ کے اختلاف کے باوجود ان کی وضع دار شخصیت، ان کے سحرانگیز قلم اور تحمل کے مداح ہیں۔ عرفان صدیقی مسلم لیگ ن کی حکومت میں شامل رہے، ہم اس حکومت کے ناقدین میں تھے۔ پانامہ ایشو کے بعد بے شمار کالم میاں نواز شریف اورا ن کی حکومت کے خلاف لکھے۔ صدیقی صاحب کو ظاہر ہے وہ پسند نہیں آئے ہوں گے، ایک لفظ کا انہوں نے شکوہ یا اعتراض نہیں کیا۔ جب کبھی ملاقات ہوئی تو ہمیشہ خندہ پیشانی سے ملے، بلکہ کتابوں پر لکھے میرے کسی کالم یا دوسری کسی تحریر کی ستائش کر ڈالی۔ عرفان صدیقی میاں نواز شریف کے قریبی، قابل اعتماد ساتھیوں میں سے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ میاں صاحب کی تقریریں بھی لکھتے رہے، غالباً مریم نواز صاحبہ کی بعض تقاریر بھی لکھیں۔ کوئی چاہے تو اسے ناپسند کر سکتا ہے، اختلاف کا ہر ایک کو حق حاصل ہے۔ تقریریں لکھنا مگر جرم نہیں۔ ان کی لکھی کسی مخصوص تقریر پر اگر الزام ہے کہ وہ ضرورت سے زیادہ سخت، قانون کے منافی تھی تو پھر قانونی کارروائی اسی بنیاد پر کرنی چاہیے تاکہ دفاع کا جائز موقعہ اور وقت مل سکے۔ کرایہ داری قانون کے تحت مقدمہ تو بھینس چوری اور اس جیسے من گھڑت، جعلی مقدمات جیسا لگا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ان مقدمات میں کیا رویہ روا رکھا جاتا ہے؟

اس معاملے میں پولیس اورضلعی انتظامیہ کا موقف کسی کو قائل نہیں کر پایا۔ خود پی ٹی آئی کے بہت سے ڈائی ہارڈ مگر معتدل حامی، پارٹی کے رہنما، سیاسی کارکن اس اقدام کی مخالفت کرتے رہے۔ حکومت کو اس غلط فیصلے سے سبق سیکھنا چاہیے۔ ایسے بھونڈے فیصلے نہ صرف عمران خان کی کریڈیبلٹی تباہ کر سکتے ہیں بلکہ احتساب کا پورا عمل مشکوک اور بے اعتبار ہوجائے گا۔ اِس ایک غلطی سے اربوں روپوں کی منی لانڈرنگ اور فیک اکائونٹس، پاپڑ والے، فالودے والوں کے اکائونٹس کے ذریعے ٹرانزیکشنز کی تحقیقات چل رہی ہیں، زرداری صاحب اور ان کے ساتھیوں کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے، وہ سب کچھ بے معنی ہوجائے گا۔ عام آدمی تو یہی سمجھے گا کہ کرایہ دار ی قانون کی خلاف ورزی کیس کی طرح زرداری صاحب پر بھی جھوٹا کیس ڈالا گیا، حمزہ شریف کی لاکھوں ڈالرز کی مبینہ منی لانڈرنگ اور مشکوک ٹی ٹی والے معاملات بھی ڈس کریڈٹ سمجھے جا سکتے ہیں۔

ہتھکڑیاں لگانے والا معاملہ بھی اس بار بھرپور طریقے سے نمایاں ہوا ہے۔ صدیقی صاحب کی ہتھکڑیاں لگی تصویر دیکھ کر سینے میں گھونسہ سا لگا۔ یہ سب غلط، ناجائز اور غیر قانونی ہے۔ قانون کے تحت پولیس صرف اس وقت کسی شخص کو فزیکل ٹچ کر سکتی، ہتھکڑیاں لگا سکتی ہے جب وہ گرفتاری دینے کے لئے تیار نہ ہو۔ ممتاز ماہر قانون اور دانشور ڈاکٹرمحمد مشتاق نے اگلے روز اس حوالے سے نہایت مفید، عمدہ تحریر لکھی۔ وہ لکھتے ہیں، " مجموعہ ضابطہ فوجداری (CR PC)کی دفعہ چھالیس، ذیلی دفعہ ا یک کے مطابق اگر کوئی شخص گرفتاری کی مزاحمت نہ کرے، بھاگنے کی کوشش نہ کرے یا اپنے قول وفعل سے گرفتاری دینے پر آمادگی اختیار کرے تو اس کے جسم کو چھونے کی بھی اجازت نہیں۔ اس شخص کو ہتھکڑیاں پہنانے کا توسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی طرح اسی دفعہ کی ذیلی دو کے تحت اگر کوئی شخص گرفتاری کی مزاحمت کرے یا فرار ہونے کی کوشش کرے تو اس کے خلاف صرف اتنی طاقت استعمال کی جا سکتی ہے جتنی اس کی گرفتاری یقینی بنانے کے لئے ضروری ہے۔ دفعہ 50 نے مزید تصریح کی ہے کہ کسی شخص کی نقل وحمل کو صرف اس حد تک ہی محدود کیا جا سکتا ہے جتنا اسے فرار ہونے سے باز رکھنے کے لئے ضروری ہے۔ "اس سے یہ واضح ہوا کہ جس کیس میں ملزم نے رضامندی سے گرفتاری دے دی، اس کے بھاگنے کا بادی النظر میں کوئی امکان نہ ہو، عمر اور جسمانی ساخت کے اعتبار سے بھی اس کا فرار ہوجانا ممکن نہ ہو، اسے ہتھکڑی لگانا صریحاً ظلم، ناتدبیری اور سفاکی ہے۔

ہم نے دیکھا کہ پولیس نے یونیورسٹی وائس چانسلروں کے معاملے میں بھی ہتھکڑیاں لگائیں اور بدنامی سمیٹی، بعض سیاستدانوں کو بھی دانستہ اس تذلیل کا نشانہ بنایا گیا، بعض سینئر بیوروکریٹس اور پروفیشنلز کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھا گیا۔ عرفان صدیقی صاحب سے پہلے معروف اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود کے ساتھ بھی ایسا کیا گیا۔ ان پر دس سال پرانا کرپشن کیس تھا، اس معاملے میں ہتھکڑیاں لگا کر عدالت پیش کیا۔ وہ بھی زیادتی تھی، ڈاکٹر شاہد مسعود نے بھاگ کر کیاافغانستان چلے جانا تھا؟یہ ظلم آج کانہیں بلکہ عشروں پرانا ہے۔ فیض کی مشہور نظم آج بازار میں پابجولاں چلو کو تو لافانی شہرت حاصل ہوچکی ہے۔

یہ تو خیر سب معروف، ممتاز لوگ تھے، جن کی ہتھکڑیاں لگی تصویریں میڈیا پر آئیں، خبریں چلتی رہیں تو لوگوں کو علم ہوا اور ان کا ردعمل سامنے آیا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ روزانہ ہزاروں لوگ عدالتوں میں ایسے ہی پیش ہوتے ہیں۔ ایسے بہت سے واقعات ہیں جب ستر اسی سالہ بیمار یا ضعیف بزرگ اور آٹھ، دس سالہ بچے تک کو ہتھکڑی لگا کر عدالت پیش کیا گیا، حتیٰ کہ جج صاحبان نے نوٹس لے کر پولیس کو اس ظلم سے باز رکھا۔ عام آدمی کی بالکل ہی شنوائی نہیں ہوپاتی، اسے قانون کا کچھ علم ہے نہ اپنے حقوق سے شنوائی۔ یہ ظلم اب بند ہونا چاہیے۔ چاہے معروف لوگ متاثر ہوں یا عام آدمی، غلط بات غلط ہی ہے۔ اسے ختم ہونا چاہیے۔ عام طور پر ایسا پولیس اپنی جہالت اور سنگدلانہ رویے کے تحت کرتی ہے۔ بعض کیسز میں بااثر، طاقتور لوگ بھی اپنے مخالفین کو ذلیل کرانے کے لئے پولیس کی مدد سے ایسا کرتے ہیں۔ حکومتیں بھی اپنے ناقدین اور اپوزیشن کو تنگ کرنے کے لئے ایسا کرتی رہی ہیں۔ بھٹو صاحب کے دور میں بہت لوگ نشانہ بنے، جنرل ضیا ء نے تو صحافیوں کو کوڑے تک لگوائے۔ نوے کے عشرے میں میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی ایک دوسرے کو نشانہ بنایا۔ اب زمانہ بدل چکا ہے۔ ہتھکریاں لگا کر ذلیل کرانے کا ایک مقصد دوسروں کو ڈرانا بھی ہوتا ہے کہ اب تمہارا نمبر لگنے والا ہے۔ یہ سب غلط، قابل مذمت، شرمناک ہے۔ چیف جسٹس کھوسہ صاحب نے اپنے کئی فیصلوں میں بہت اہم دوررس نظائر قائم کئے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ وہ اس ہتھکڑیاں لگانے والے معاملے پر بھی کوئی نظیر قائم کریں، اس قانون کے غلط استعمال کی راہ ہمیشہ کے لئے مسدود ہوسکے۔ عرفان صدیقی صاحب اس معاملے سے سرخرو ہو کر نکلے ہیں، اللہ ان کے لئے آئندہ بھی آسانیاں پیدا کرے۔ اس کیس سے کاش ہم یہ ہی سیکھ لیں کہ قوانین کا غلط اور بے حکمت استعمال کس طرح روکا جا سکتا ہے، جبکہ ہتھکڑیاں صرف عادی یا خطرناک ملزموں ہی کو لگا ئی جائیں۔ اگر اس گناہ بے لذت سے یہی سبق کشید کر لئے گئے تو یہ بھی ہمارے سماج کے زندہ، بیدار ہونے کا ثبوت ہوگا۔

Check Also

Ramzan Mein Chori

By Sadiq Anwar Mian