Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Amir Khakwani/
  3. Afghanistan Main Pakistan Mukhalif Jazbaat Kyon?

Afghanistan Main Pakistan Mukhalif Jazbaat Kyon?

افغانستان میں پاکستان مخالف جذبات کیوں؟

افغانستان جانے اور خاص کر کابل میں چند دن قیام کا موقعہ ملے تو پاکستانیوں کو شدید حیرت ہوتی ہے کہ ہر کوئی پاکستان کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ بچے جو پاکستان میں پلے، بڑھے، پاکستانی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی، ڈاکٹریٹ، انجینئرنگ جیسی اعلیٰ ڈگریاں لیں، وہ بھی پاکستان کے مخالف ملیں گے۔ اس کی وجوہات پر جامع اور غیر جانبدارانہ ریسرچ کرانے کی ضرورت ہے۔ ہم تو اس ایشو کو صحافیانہ انداز ہی میں دیکھ سکتے ہیں، طائرانہ نظراور تین چار موٹی موٹی باتیں، جن سے منظر کچھ واضح ہوجائے۔ میرے نزدیک یہ بات تو درست ہے کہ افغانستا ن میں پاکستان مخالف جذبات شدید ہیں، کابل اور چند دیگر بڑے شہروں میں یہ معمول سے کچھ زیادہ ہوسکتے ہیں۔ ایسا مگر صرف اس لئے نہیں کہ" پاکستان طالبان کی حمایت کر رہا ہے اور ماضی میں روس کے خلاف افغانستان میں جو وار تھیٹر چلتا رہا، اس میں پاکستان کا مرکزی کردار تھا، افغانستان ان جنگوں میں تباہ ہوا اور اسی وجہ سے وہاں کے لوگ پاکستان مخالف ہیں وغیرہ وغیرہ۔" یہ بیانیہ درست نہیں، زیادہ سے زیادہ یہ ادھورا سچ ہوسکتا ہے، وہ بھی پچاس فیصد سے کم۔ افغانستان نے پہلے دن سے پاکستان کی مخالفت کی، 72 برس پہلے نوزائیدہ پاکستان نے کون سا افغان طالبان کی حمایت کر ڈالی تھی؟ یا اس وقت افغانستان میں مسلح جدوجہد شروع کرائی؟ ظاہر ہے ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ افغانستان کی حکومتوں اور اشرافیہ نے خواہ مخواہ پاکستان کے ساتھ تلخی پیدا کئے رکھی اور بھارت کے ساتھ اتحاد بنایا۔ یہ کوئی الزام نہیں بلکہ امر واقعہ ہے۔ افغانستان نے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی ہمیشہ کوشش کی۔ بلوچستان آپریشن سے فرار ہونے والے باغیوں کو پناہ اور سپورٹ فراہم کی۔ پاکستان میں پختونستان کا فتنہ کھڑا کیا، دھماکے اور مسلح کارروائیاں کرائیں۔ یہ سب اس وقت ہوا، جب ابھی پاکستان نے افغانستان میں معمولی سی مداخلت بھی نہیں کی تھی۔ ہمارے بہت سے دانشور، صحافی سٹریٹجک ڈیپتھ(Strategic Depth)کی اصطلاح پر تنقید اور اس کا ٹھٹھا اڑاتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستان نے سٹریٹجک ڈیپتھ کے نام پر افغانستان میں مداخلت کی اور یوں مسائل پیدا کئے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ بھارت تھا جس نے افغانستان کے ساتھ جوڑ توڑ کر کے پاکستان کی مغربی سرحد غیر محفوظ بنائی۔ پاکستان نے جو کیا اسے کائونٹر سٹریٹجک ڈیپتھ کہہ سکتے ہیں۔ پاکستان میں بعض سیکولر دانشور اسلامسٹوں کو تہذیبی نرگسیت کا شکار کہتے ہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو افغان عوام اس نرگسیت کا بہت زیادہ شکار ہیں۔ ویسے تو یہ نرگسیت جنوبی ایشیا میں عام ملے گی۔ پاکستان میں بھی ہے، مگر افغان اپنے تمام تر مسائل، کمزوریوں، غربت، تباہ حالی کے باوجود خواہ مخواہ کے احساس برتری سے سرشار ہیں۔ دیگر عوامل بھی کارفرما ہوں گے، مگر اسی تہذیبی نرگسیت نے بھی افغانوں کو پاکستان کے ساتھ غیر ضروری، غیر منطقی سرد جنگ، پنجابی محاورے کے مطابق اِٹ کھڑکا لگائے رکھنے پر آمادہ رکھا۔ ایک فیکٹر روس کے خلاف افغان جہاد یا تحریک مزاحمت بھی ہے۔ اس میں افغان عوام کے بہت بڑے حصے نے شرکت کی۔ یہ جنگ کئی سال تک چلی، حتیٰ کہ 88ء میں روس افغانستان چھوڑ کر چلا گیا، تاہم اگلے چار برسوں تک روس کا پروردہ افغان جنرل نجیب کابل پر قابض رہ کر کسی نہ کسی طرح حکومت چلاتا رہا۔ اس تمام جنگ میں افغانوں کا ایک حصہ ایسا تھا جس نے دل وجاں سے روس کے ناجائز قبضے کو تسلیم کیا، پہلے ببرک کارمل اور بعد میں جنرل نجیب کی حکومتوں کا حصہ رہا۔ ان میں سوشلسٹ سوچ رکھنے والے سرفہرست تھے، مگر موقعہ پرستوں کی بھی کمی نہیں تھی، بدنام زمانہ ازبک کمانڈر رشید دوستم بھی انہی میں شامل تھا۔ یہ سب پاکستان کو اپنا دشمن نمبر ایک سمجھتے تھے۔ آج بھی یہ موجود ہی ہیں، ہوا میں تحلیل تو نہیں ہوئے۔ 92ء سے 96ء تک کے چار سال افغانستان میں خانہ جنگی کے بدترین ایام تھے۔ کوئی مستحکم حکومت بن نہ پائی، کابل میں حکمت یار اور احمد شاہ مسعود برسوں ایک دوسرے پر گولے، راکٹ برساتے رہے، جہاں جس کا بس چلا، اس نے حکومت بنا لی۔ پاکستان نے مذاکرات اور مصالحت کرانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ایک بار تو مکہ مکرمہ میں امن معاہدہ ہوا کہ حرم پاک میں کئے عہد کی پاسداری کی جائے گی۔ اس معاہدے کی بھی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ حکمت یار پاکستانی اداروں سے نسبتاً زیادہ قریب تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل اختر عبدالرحمن حکمت یار کی جنگجوانہ صلاحیتوں کے قدردان تھے۔ احمد شاہ مسعود اور دیگر حکمت یار مخالف کمانڈر یہ الزام لگاتے تھے کہ پاکستانی ادارے حکمت یار کو زیادہ سپورٹ کر رہے ہیں۔ ان چار برسوں میں افغان کمانڈرآپس میں لڑتے رہے، ملک کھنڈر بنا دیا مگر اپناقصور ماننے کے بجائے اس کی ذمہ داری بھی وہ پاکستان پر عائد کرتے رہے۔ مزے کی بات ہے کہ حکمت یار کی حامی جماعت اسلامی کو شکوہ ہے کہ پاکستانی اداروں نے حکمت یار کو دھوکہ دیا۔ بہرحال یہ سب لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان نے اگرچہ افغان جہاد میں بے پناہ قربانیاں دیں، مگر جن کے لئے دیں، وہ اس طرح سے خوش نہیں ہوئے، جیسا ہم آج توقع کرتے ہیں۔ ایک فیکٹر افغان مہاجرین ہیں۔ کئی ملین افغان پاکستان میں دس پندرہ برس رہے، لاکھوں تو تیس چالیس سال سے یہاں ہیں۔ بہت سے افغان مرد واپس چلے گئے، مگر بیوی بچے پاکستان میں رہے، ہزاروں، لاکھوں کا ایک گھر افغانستان جبکہ دوسرا پاکستان میں ہے۔ کسی بھی ملک میں اتنی بڑی تعداد میں مہاجر آجائیں تو بے شمار مسائل پیدا ہوجاتے ہیں جنگی معاشرے کی اخلاقیات مختلف ہوتی ہے۔ اس زمانے میں اسلحہ اور ہیروئن کی بے پناہ سمگلنگ ہوئی۔ پاکستانیوں نے ہیروئن اور کلاشن کوف افغان مہاجرین کے طفیل دیکھی۔ پاکستانی سماج میں بہت سے مسائل پیدا ہوئے۔ پشاور جو ہندو اکثریت کا شہر تھا، اس میں افغان مہاجرین کی وجہ سے آبادی کا تناسب بدل گیا، بہت کچھ اور بھی پہلے جیسا نہیں رہا۔ افغان محنتی قوم ہے، اس نے پاکستانی معیشت میں خاصی جگہ لے لی۔ کراچی کے ٹرانسپورٹ بزنس میں چھا گئے، لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں بے شمار کاروباری مراکز ان کے ہیں۔ پاکستان میں دانشوروں، تجزیہ کاروں کی بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان کو روس کے خلاف افغان جنگ کا حصہ بننے کا نقصان ہوا۔ اگر شامل بھی ہوئے تھے تو افغان مہاجرین کو کیمپوں تک محدود رکھتے۔ ہمارے حکمرانوں کی عاقبت نااندیشی کی وجہ سے مگر ایسا ہوا۔ ایران میں اس کے برعکس کیا گیا۔ انہیں ہمیشہ کیمپوں تک محدود رکھا گیا، وہیں پر سکول، ڈسپنسریاں وغیرہ بنیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جوافغان مہاجرین یہاں پر رہے، یہاں سے فوائد، ثمرات سمیٹے، ان میں بھی بہت سی شکایات، مسائل، تلخیاں موجود ہیں۔ کسی کو یہ شکوہ کہ ہمیں ہر جگہ مہاجر کہتے رہے، کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ہم نے زیادہ بڑی قربانی دی جبکہ ہمیں سہولتیں اتنی نہیں ملیں۔ سب سے زیادہ یہ منفی خیال کہ پاکستان نے ایسا کیا تو اس کے بدلے اربوں ڈالر بھی لئے۔ حالانکہ وہ اربوں ڈالر جنگ لڑنے کے لئے ملتے رہے اور افغانستان میں، افغان کمانڈروں پر زیادہ تر خرچ ہوئے۔ بسا اوقات ایک خاص بیانیہ مقبول ہوجاتا ہے، پاکستانی لیفٹ نے افغان جہاد کی مخالفت میں یہ بیانیہ تخلیق کیا، بعض ناراض افغان مہاجرین اسے ہی استعمال کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ میں نے لفظ بعض استعمال کیا ہے، سب نہیں۔ سب سے بڑا فیکٹر افغان طالبان ہیں۔ افغانستان میں نائن الیون کے بعد سے جو حکومتیں قائم ہوئیں، وہ طالبان مخالفوں پر مشتمل ہیں، بنیادی طور پر یہ طالبان مخالف تاجکوں، ازبکوں اور ہزارہ اور طالبان مخالف پشتونوں پر مشتمل ہے۔ یہ سب اس شمالی اتحاد کا حصہ تھے جوافغان طالبان کی حکومت (1996-2001) میں تہس نہس کر دئیے گئے۔ ان دنوں افغانستان کا صرف تین چار فیصد علاقہ ان کے پاس تھا، پنج شیر وادی اور شمالی افغانستان کے بعض علاقے۔ طالبان دور میں پاکستانی حکومت اور اداروں نے کھل کر طالبان کی حمایت کی اورتمام انڈے ایک ہی ٹوکری میں رکھنے والی غلطی کر ڈالی۔ جب نائن الیون کے بعد امریکہ نے حملہ کیا تو پاکستان نے کوشش کی کہ معتدل طالبان کی صورت میں ایک گروپ بن جائے، چاہے ملا عمر کی منظور ی سے بنے، مگر کچھ ایسا سیٹ اپ ہو جو امریکیوں کے ساتھ لڑنے کے بجائے مفاہمت کی راہ نکالے اور یوں آئندہ حکومتی سیٹ اپ کا حصہ بنا رہے۔ طالبان نے بے لچک رویہ دکھایا، ایسی کوئی تقسیم نہ ہوسکی۔ طالبان حکومت ختم، ان کی تنظیم ملیا میٹ ہوگئی اور ساتھ ہی افغانستان میں پاکستان کی حامی لابی بھی سرے سے مٹ گئی۔ وہ تاجک، ازبک، ہزارہ یا سیاف، حامد کرزئی جیسے پشتون کمانڈر جو ماضی میں پاکستان رہے، ہمارے اداروں کی مدد سے روس کے خلاف جنگ لڑی، وہ سب طالبان دور میں بھارت سے فنانس لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔ اب وہ بھارتی اتحادی بن چکے تھے۔ یوں افغانستان میں پچھلے سترہ اٹھارہ برسوں میں پاکستان مخالف افغان حکومت رہی، وہاں کی اشرافیہ، میڈیا، لیڈر، کاروباری افراد، سرکاری ملازم سب ہی پاکستان کے مخالف تھے۔ ا مریکیوں نے ہزاروں نوجوانوں کو سکالرشپس دے کر مغرب بھیجا اور انہیں سرکاری محکموں میں میں تعینات کیا۔ یوں ایک پوری اعلیٰ تعلیم یافتہ نسل اینٹی پاکستان جذبات کے ساتھ افغان معاشرے اور اپر کلاس، اپر مڈل، لوئر مڈل کلاس میں موجود ہے۔ جو پاکستان کے حامی ہیں، وہ موجودہ افغان سیٹ اپ سے باہر ہیں، ان کی کوئی آواز میڈیا پر نہیں اور نہ ہی وہ افغان اربن سوسائٹی میں اس وقت قابل ذکر اثر ورسوخ رکھتے ہیں۔ حالات اگر بدل گئے، تب پاکستان کے لئے تصور بھی بدل جائے گا۔ جو پاکستانی حیرت سے پوچھتے ہیں کہ ہم نے اتنی قربانیاں دیں پھر بھی افغان ہم سے نفرت کرتے ہیں، ایسا کیوں؟ انہیں اوپر دئیے نکات سمجھ کر کچھ نہ کچھ بات سمجھ آ چکی ہو گی۔

Check Also

Rezgari

By Ruqia Akbar Chauhdry