Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Irshad Ahmad Arif/
  3. Sheikh Maikhane Main Aane Ko Musalma Aya

Sheikh Maikhane Main Aane Ko Musalma Aya

شیخ میخانے میں آنے کو مسلماں آیا

وزیر اعظم کی سربراہی میں نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل کے نام سے ایک نئے ادارے کی تشکیل اور اس میں آرمی چیف کی بطور رکن شمولیت موجودہ حکومت کی ترجیحات کا مظہر ہے۔ حیرت انگیز طور پر کونسل میں آرمی چیف کی رکنیت پر صرف سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اعتراض کیا یا ایک آدھ صحافی نے۔ بحیثیت مجموعی ردعمل حوصلہ افزا رہا، جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف اور ان کے ہمنوا میڈیا نے گزشتہ ڈیڑھ دو سال میں ریاستی، سیاسی اور صحافتی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا جو ڈھنڈورا پیٹا اور اسے جمہوریت کے منافی گردانا وہ صدابصحرا ثابت ہوا، عوام تو خیر اسے کھسیانی بلی کھمبا نوچے سمجھتے تھے، مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے بھی کان نہیں دھرا اور نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی طرح نئی کونسل کو بھی وقتی ضرورت اور قومی تقاضہ سمجھ کر قبول کیا۔ اس سوال کا جواب آج تک کوئی جمہوریت پسند نہیں دے سکا کہ فوجی آمریت کے دوران قومی معیشت کی حالت مستحکم کیوں رہی اور شرح نمو آٹھ فیصد تک کیسے برقرار رکھی گئی جبکہ نام نہاد جمہوریت پسند ان ادوار میں تحریکیں چلاتے اور عوام کو عدم تعاون پر اکساتے رہے۔ ایوب خان اورضیاء الحق کو تو اچھی اقتصادی و معاشی ٹیم اور سازگار حالات کا کریڈٹ جاتا ہے مگر پرویز مشرف دور میں صرف پاکستان نہیں پورا خطہ ہی عدم استحکام کا شکار تھا اور ٹیم بھی بس اندھوں میں کانا راجہ، معیشت اس کے باوجود سدھری اور سنبھلی۔ اقتصادی و معاشی استحکام میں دیگر عوامل کے علاوہ اہم ترین عنصر قومی اداروں میں ہم آہنگی اور باہمی اعتماد تھا جو بھٹو، نواز شریف، بے نظیر بھٹو اور زرداری دور میں عنقا رہا۔ سیاسی قیادت کو عسکری ادارے کی طرف سے جب بھی کوئی مشورہ ملا اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بجائے اسے مقتدر حلقوں کی ڈکٹیشن اور مداخلت سے تعبیر کیا گیا۔ مجھے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے "سوہنے منڈے" حفیظ پیرزادہ مرحوم کا انٹرویو یاد ہے۔ ممتاز صحافی مطیع اللہ جان کو دیے گئے ٹی وی انٹرویو میں پیرزادہ صاحب نے اعتراف کیا کہ 5جولائی1977ء سے ڈیڑھ دو ہفتے قبل جنرل ضیاء الحق نے قائد عوام سے بار بار درخواست کی کہ پورے ملک میں جاری مظاہروں اور سرکاری اداروں کے تشدد کی وجہ سے فوج میں بے چینی پائی جاتی ہے آپ براہ کرم قومی اتحاد سے سیاسی تصفیہ کریں ورنہ میرے لئے دبائو برداشت کرنا مشکل ہوجائے گا۔ بھٹو حکومت کے حق میں فوجی سربراہوں کا بیان بھی پی این اے کے مقابلے میں حکومت کی سودے بازی پوزیشن مضبوط کرنے کے لئے جاری ہوا مگر حفیظ پیرزادہ کے بقول بھٹو صاحب وقت ضائع کرتے رہے اور کسی سیاسی تصفیے کے امکان کو معدوم جان کر فوج مداخلت پر مجبور ہوئی۔ بعد میں جھوٹ کا طومار باندھا گیا کہ پی این اے اور حکومت کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو گئے تھے مگر ضیاء الحق نے مداخلت کر کے سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ 1998ء میں جمہوریت پسند آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت نے وزیر اعظم نواز شریف کو نیشنل سکیورٹی کونسل کے قیام کا مشورہ دیا تو ٹھنڈے دل و دماغ سے تجویز پر غور کرنے کے بجائے چیف کو گھر بھیج دیا گیا، نئے اور پسندیدہ چیف جنرل پرویز مشرف نے جو گل کھلائے وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ جنرل راحیل شریف جب تک آرمی چیف رہے میاں نواز شریف ان کی بلائیں لیتے نہیں تھکتے تھے۔ ایک بار غالباً کاکول میں وزیر اعظم نے راحیل شریف زندہ باد کے نعرے بھی لگوائے مگر جونہی ریٹائر ہوئے، مخالفانہ پروپیگنڈہ مہم سے انہیں جمہوریت مخالف جرنیل ثابت کیا گیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت دیا مگر مشورہ ان کا ایک نہ مانا۔ کم و بیش سارے ہی سیاسی حکمرانوں کے اردگرد پیدائشی خوشامدیوں، موقع پرستوں اورعقل و خرد کے دشمنوں کا جمگھٹا رہا منیر نیازی مرحوم نے شاید ہمارے حکمرانوں کے بارے میں کہا تھا ؎کج اُنج وی راہواں اوکھیاں سنکج گل وچ غماں دا طوق وی سیکج شہر دے لوک وی ظالم سنکج سانوں مرن دا شوق وی سیاس حقیقت سے کون انکار سکتا ہے کہ فوج ایک ادارے کے طور پر ہمارے تمام قومی اداروں سے بہتر حالت میں ہے۔ 1947ء کی فوج اور آج کی فوج میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ وفاقی کابینہ میں بحث و تمحیص اور کور کمانڈر کانفرنس میں گفتگو کا موازنہ ممکن نہیں، ہمارے سابق صدر اور تین بار کے وزیر اعظم کو اگر کسی برگیڈیئر کے سامنے بیٹھ کر ایران، امریکہ تنازع، افغانستان کی اندرونی صورتحال اور موجودہ اقتصادی و معاشی بحران پر بات کرنی پڑے تو ہاتھ میں پرچیوں کے باوجود پندرہ منٹ میں پسینے چھوٹ جائیں۔ بھنڈی، دال اور سری پائے کا ذکر چلے تو شائد فوجی افسر کو مات ہو کہ "کھانے۔ پینے "کے معاملے میں ہمارے سیاستدانوں کا اندرون ملک کیا بیرون ملک بھی کوئی ثانی نہیں، لکڑ ہضم پتھر ہضم۔ 1998ء میں بجلی کے بحران اور چوری کی بلند سطح سے تنگ آ کر میاں نواز شریف نے واپڈا ایک فوجی جرنیل کے حوالے کیا۔ چند ماہ میں صورتحال کافی بہتر ہوئی اور میاں شہباز شریف نے معیاری سڑکیں بنانے کے لئے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کی خدمات حاصل کیں، موجودہ حکومت معاشی بحران کا سامنا کر رہی ہے اور قومی ترقی و خوشحالی اس کے اہداف میں سرفہرست، اگر ترقی و خوشحالی اور معاشی استحکام کی منزل حاصل کرنے کے لئے عمران خان فوجی قیادت کو شریک مشورہ کرتے ہیں تو اس پر کسی کوکیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ ۔ فوجی قیادت اپنے تھنک ٹینک کی محنت اور Inputسے سیاسی قیادت کو آگاہ کر سکتی ہے اور اپنی تجربہ کار، جفا کش، ایثار پیشہ افرادی قوت کو وقف کرنے پر تیار بھی۔ یہ اعتراض لغو ہے کہ قومی ترقیاتی کونسل کی تشکیل سے معاملات عملاً ٹیکنو کریٹس کے ہاتھ میں چلے جائیں گے۔ کیا دنیا بھر میں ٹیکنو کریٹس سربراہان حکومت کو مشورے نہیں دیتے اور اچھے حکمران ٹیکنو کریٹس سے رہنمائی حاصل نہیں کرتے؟ ۔ یہ حکمرانوں کے خوشامدی، موقع پرست اور لالچی نورتنوں سے کہیں بہتر ہوتے اور ملک و قوم کا بھلا کرتے ہیں۔ جب قدرتی آفات اور دیگر حالات میں سول حکمران فوج کی مدد طلب کرتے ہیں تو موجودہ معاشی بحران سے نمٹنے میں ان کی مشاورت و معاونت سے گریز کیوں؟ وزیر اعظم نے حسین اصغر ایسے دیانتدار قابل اور دلیر افسر کو قرضہ کمشن کا سربراہ مقرر کیا اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو ڈی جی آئی ایس آئی۔ امید یہ ہے کہ اگلے چند دنوں میں وزارتی سطح پر بھی تبدیلیاں ہوں گی۔ بہتر لوگ آگے آئیں گے یوں معاشی بحران اور سیاسی بوالعجبیوں سے نجات ملے گی۔ تاہم وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ کو اب اپنی کارگزاری ہی نہیں، فیصلہ سازی کے عمل کو بہتر بنانے کے لئے بھی ٹھوس اقدامات کرنے پڑیں گے، محض نعروں، دعوئوں وعدوں سے کام نہیں چلے گا۔ فوجی قیادت قومی ترقیاتی کونسل میں بیٹھ کر سیاسی قیادت کی قوت فیصلہ، مختلف موضوعات پر تیاری اور اہلیت اور سب سے بڑھ کر قومی امور چلانے کی صلاحیت کا مشاہدہ کرے گی۔ کونسل میں شامل وزراء اعلیٰ، وزراء کی دانش و بصیرت ذہنی و علمی سطح، انداز گفتگواور انداز کار کا راز عیاں ہو گا اور عزم و ارادے کی پختگی سامنے آئے گی۔ کونسل انداز حکمرانی میں بہتری لانے اورقومی بحران سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے لیکن اگر ہمارے باتونی وزراء نے ریاضت سے جی چرایا اور اپنی ناکامیاں، کمزوریاں بھری بزم میں عیاں کر دیں تو یہ فیصلہ اونٹ کو خیمے میں داخل کرنے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اب تک تو یہ بھرم قائم ہے کہ عمران خان اور اس کے ساتھی ماضی کے بگاڑ کو سدھارنے میں مصروف ہیں اور ان کی نیک نیتی، ارادے پر شک نہیں کیا جا سکتا، لیکن اجلاسوں میں ہاتھی کے دانت کھانے کے اور، دکھانے کے اور نظر آئے، پتہ چلا کہ ایں ہم شتر بچہ است تولینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ قوم اور اداروں کی امیدیں پامال نہ ہوں تو اچھا ہے۔ عمران خان نے اپنے آپ کو امتحان میں ڈالا ہے، سرخرو ہوں تو ہم خوش، ہمارا خدا خوش ؎شیخ آنے کومے خانے میں مسلماں آیاکاش مے خانے سے نکلے تو مسلماں نکلے

Check Also

Balcony

By Khansa Saeed