Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Yasir Pirzada/
  3. Hamare Zehan Ki Kanjoosi

Hamare Zehan Ki Kanjoosi

ہمارے ذہن کی کنجوسی

امریکہ کی ایک کمپنی ہے، الفابٹ، اپنے ہاں کم ہی لوگوں نے اس کا نام سنا ہے، یہ دنیا کی پانچویں بڑی ٹیکنالوجی کی کمپنی ہے، دنیا بھر میں پھیلے اس کے ملازمین کی تعداد تقریباً 80 ہزار ہے، سالانہ منافع 12.7 ارب ڈالر ہے جبکہ اثاثوں کی مالیت 197ارب ڈالر ہے، عالمی فہرست میں اس کمپنی کا نمبر52 ہے، اس سے پہلے ایمازون 18 اور ایپل11 ویں نمبر پر ہیں۔ مگر اِس کمپنی کی ایک خاص بات ہے جس کی وجہ سے یہ کمپنی دنیا کی سب سے قیمتی کمپنی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ الفابٹ کمپنی گوگل کی مالک ہے۔ انٹرنیٹ پر ہونے والی کھوج (search) کا تقریباً 90 فیصد گوگل کے ذریعے کیا جاتا ہے، آپ نے کسی بھی قسم کی معلومات حاصل کرنا ہو، کوئی تحقیق کرنا ہو یا کسی موضوع کے بارے میں چھان بین کرنا ہو، گوگل سے پوچھ لیں، اس کے پاس معلومات کے خزانے کی کنجی ہے۔ گوگل کا دور دور تک کوئی مقابل نہیں، فیس بک کے ساتھ مل کر گوگل انٹرنیٹ کی نہ صرف70 فیصد ٹریفک پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ انٹرنیٹ کی دنیا میں اشتہارات کی ترویج پر بھی انہی دو کمپنیوں کی اجارہ داری ہے۔ امریکہ میں لابنگ کی مد میں خرچ کرنے والی کمپنیوں میں بھی گوگل کا پہلا نمبر ہے، 2017ء میں الفابٹ نے لابنگ پر 18 ملین ڈالر خرچ کیے تھے جبکہ ایمازون اور فیس بک نے 13ملین ڈالر اور مائیکرو سافٹ اور ایپل نے بالترتیب 11.5 ملین اور 7 ملین ڈالر خرچ کیے۔ جب آپ گوگل پر کسی قسم کا کھوج لگاتے ہیں تو گوگل اپنی من پسند ویب سائٹس کو بڑھاوا دیتا ہے اور انہیں اوپر لے آتا ہے، انہی حرکتوں کی وجہ سے یورپ نے 2017 میں گوگل پر 2.7 ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا۔ گوگل اپنے مقابلے پر کسی دوسری کمپنی کو ابھرتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔ اگر آپ قابل ہیں اور آپ نے ڈیجیٹل دنیا میں کوئی نئی ایجاد کی ہے، کوئی انوکھی ایپ بنائی ہے یا کمپیوٹر کی دنیا میں انقلاب برپا کرنے والے ہیں تو اِس پہلے کہ آپ انقلابی بنیں گوگل آپ کو خرید لے گا۔ گوگل یہ کام 200 مرتبہ کر چکا ہے۔ یوٹیوب، جی میل، اینڈرائیڈ، گوگل ڈرائیو اور ایسی لاتعداد ذیلی کمپنیاں جن کے بغیر ہم ایک لمحہ نہیں گزارتے، الفابٹ کا حصہ ہیں۔

یہ صرف ایک کمپنی کا ذکر ہے، گوگل کی طرح کئی دوسری کمپنیاں بھی ہیں جنہیں آج اگر زندگی سے نکال دیا جائے تو ہماری زندگی کولہو کے بیل جیسی ہو جائے گی، مثلاً بوئنگ کمپنی جہاز بناتی ہے، ایپل آئی فون بناتی ہے، مختلف جاپانی اور کورین کمپنیاں الیکٹرونکس مصنوعات بناتی ہیں، جرمن، جاپانی اور امریکی کمپنیوں کی گاڑیوں پر اجارہ داری ہے، بڑے بڑے کارخانوں میں استعمال ہونے والی مشینیں بھی دو چار طاقتور ملکوں کی کمپنیاں بناتی ہیں، غرض سر سے پیر تک ہم جو چیز استعمال کرتے ہیں وہ دنیا کی پانچ سو بڑی کمپنیوں کی مرہون منت ہے۔ لیکن پانچ سو سال پہلے تک اِن پانچ سو کمپنیوں میں سے کسی کا بھی وجود نہیں تھا، سن 1500ء میں کوئی ذہین ترین شخص بھی یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ پانچ سو سال بعد کے انسان کی مٹھی میں ایک ایسی شے ہوگی جس کے ذریعے وہ گھر بیٹھے اپنے تمام کام نمٹا لے گا۔ آخر اِن پانچ سو برس میں ایسا کیا ہوا کہ آج ہم چاند پر چہل قدمی کر چکے ہیں، مریخ کا معائنہ کرنے چلے ہیں، بلیک ہول کی "تصویر" ہماری جیب میں ہے اور جنیٹنگ انجینئرنگ کے ذریعے مستقبل کے بچوں کی ذہانت کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی تیاری میں ہیں! انسان بنیادی طور پر سہل پسند ہے اور انسانوں میں ہم پاکستانی کچھ زیادہ ہی آرام طلب واقع ہوئے ہیں، نہ صر ف جسمانی طور پر ہم کاہل ہیں بلکہ دماغ استعمال کرنے میں بھی جز رس ہیں، زیادہ پیچیدہ سوال ہمیں پسند نہیں اور اگر کوئی ایسا سوال ہمیں درپیش ہو جو بظاہر آسان مگر حقیقت میں گمبھیر ہو تو ہماری خواہش ہوتی ہے کہ اِس کا آسان سا جواب پلیٹ میں رکھ کر ہمیں پیش کر دیا جائے، سوچنے سمجھنے میں کنجوسی سے کام لینے کی اِس قبیح عادت کو نفسیات دانوں نے cognitive miser (ذہن کنجوس) کا نام دیا ہے۔ جس طرح ایک کنجوس شخص کو پیسے خرچ کرنے میں تکلیف ہوتی ہے بالکل اسی طرح cognitive miser کو سوچنے سمجھنے میں تکلیف ہوتی ہے، ایسا شخص دماغ استعمال کرنے میں کنجوسی سے کام لیتا ہے اور اگر اُس کے سامنے کوئی سوال رکھا جائے تو کوشش کرتا ہے کہ ذہن کو تھکائے بغیر کسی سہل طریقے سے آسان جواب مل جائے۔ ہمارے ہاں مارکیٹ میں بہت سے ایسے دانشور دستیاب ہیں جو یہ خدمات مفت انجام دے رہے ہیں، قوم کو چونکہ سوچنے سمجھنے کی عادت نہیں لہٰذا انہیں ہر قسم کا پکا پکایا جواب ان دانشوروں سے مل جاتا ہے۔ مثلاً اسی سوال کو لے لیں کہ گزشتہ پانچ سو برس میں مغرب نے ترقی کی مگر مسلمانوں نے نہیں کی تو اِس کی کیا وجہ ہے، جواب آئے گا کہ مسلمانوں نے پرنٹنگ پریس کی مخالفت کی تھی، یورپ میں پرنٹنگ پریس کی وجہ سے کتابیں عام ہو گئیں، جو کتب خانے پہلے صرف بادشاہوں اور امرا کی ملکیت ہوتے تھے، پرنٹنگ پریس کی بدولت ان کتب خانوں تک عام بندے کو بھی رسائی مل گئی، مغرب میں علم پھیل گیا، سائنس کی ترقی ہو گئی، وہ قلانچیں بھر کے آگے نکل گئے اور ہم منہ تکتے رہ گئے۔

بات اتنی سادہ نہیں اور بات صرف مسلمانوں کی بھی نہیں۔ جو ترقی یورپ میں ہوئی اس کا عشر عشیر بھی ایشیا اور افریقہ میں نہیں ہوا، ان براعظموں میں صرف مسلمان ہی نہیں بستے تھے بلکہ ہر مذہب اور قومیت کے لوگ بستے تھے۔ دنیا بھر میں پرنٹنگ کی تاریخ پر ذرا نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ آکسفورڈ میں پرنٹنگ کا آغاز 1478ء میں ہوا جبکہ فرانس میں 1563ء میں شاہی اجازت نامے کے بغیر پرنٹنگ پر پابندی تھی اور خلاف ورزی کی سزا موت، یہ کام اگر کسی مولوی نے مغل بادشاہ کے زیر سایہ کیا ہوتا تو آج ہمارے زوال کا ذمہ دار وہ مولوی کہلاتا، پندرہویں صدی میں استنبول میں پرنٹنگ ہائوسز بن چکے تھے اور پہلی کتاب 1503ء کے آس پاس شائع ہوئی تھی مگر ایک تحقیق کے مطابق یہ مسلمانوں کے نہیں تھے۔ ترکی میں مسلمانوں کا پہلا پرنٹنگ پریس 1727ء میں قائم ہوا، یعنی نیو یارک میں پرنٹنگ پریس بننے کے صرف 36 برس بعد! سو مسلمان جو آج تنزلی کا شکار ہیں کیا اُس کی تمام تر ذمہ داری سلطنت عثمانیہ کے اُن بادشاہوں یا ملاؤں پر ڈال دی جائے جنہوں نے پرنٹنگ کی مخالفت کی؟ ترقی نہ کرنے کی بہت سی وجوہات میں سے شاید یہ بھی ایک وجہ ہو مگر cognitive miser کے طور پر ہم فقط یہی وجہ سُن کر قبول کر لیتے ہیں۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ آج تو دنیا برابری کی سطح پر کھڑی ہے، پرنٹنگ کی جو سہولت سڈنی میں کسی شخص کو حاصل ہے لگ بھگ وہی ادیس بابا میں بھی ہے، گوگل ہر کسی کی پہنچ میں ہے، روپے پیسے کی ایشیائی حکومتوں کے پاس کمی نہیں، تحقیق یہ بھی ثابت کر چکی ہے کہ ذہانت پر کسی ایک قوم یا نسل کی اجارہ داری نہیں، ہر انسان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت برابر ہوتی ہے تو پھر آخر وہ کیا وجوہات تھیں جن کی بنیاد پر پانچ سو سال قبل یورپ اپنی تمام تر جہالت کے باوجود ہم سے آگے نکل گیا۔ اس کا جواب پھر کبھی!

About Yasir Pirzada

Muhammad Yasir Pirzada, is a Pakistani writer and columnist based in Lahore. He is the son of famous Urdu writer Ata ul Haq Qasmi. His weekly column "Zara Hat Kay" in Daily Jang, Pakistan’s most widely circulated Urdu daily and his fortnightly column with the name "Off the beaten track" in The News, a leading English daily, addresses issues of an ordinary citizen in humorous style.

Yasir did his graduation from Government College, Lahore and then joined The Nation, an English daily. He later acquired post-graduate degree in Political Science from University of the Punjab and then joined Civil Services of Pakistan.

While doing his Masters from University of the Punjab, Yasir wrote some columns in daily Nawa-i-Waqt with the name of "Zara Hat Key". However, since November 2006, Yasir has been writing regular weekly column in Daily Jang; and since October 2009 a fortnightly column in the YOU Magazine of daily The News.

Check Also

Kho Gaye Hain Hum Sawalon Mein

By Saadia Bashir