Tuesday, 23 April 2024
  1.  Home/
  2. Gul e Nokhaiz Akhtar/
  3. Koi Shak?

Koi Shak?

کوئی شک؟

بات ہورہی تھی کہ ہم لوگ کتنے وہمی اور شکی ہیں۔ عدیل نے کوئی عملی نمونہ پیش کرنے کے لئے کہا۔ میں نے اسے ساتھ لیا اور اندرون شہر روانہ ہوگیا۔ موچی گیٹ سے ذرا پہلے ایک تانگے والے پر نظر پڑی جس کا تانگہ شاید آجکل دودھ وغیرہ کی سپلائی کے کام آتا تھا۔ تانگے والا ایک درخت کے نیچے دراز تھا، ساتھ ہی اس کا تانگہ اورگھوڑا بندھا ہوا تھا۔ میں نے عدیل کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اورآگے بڑھ کر تانگے والے کو سلام کیا۔ وہ چونک کرسیدھا ہوگیا۔ میں نے تانگے کی طرف اشارہ کیا"چاچا جی یہ بیچنا ہے؟"۔ تانگے والے نے اپنی آنکھیں ملیں، پھر غور سے میری طرف دیکھا اور کھنکار کر بولا"تانگہ یاگھوڑا؟"۔ میں نے جلدی سے جواب دیا، نہیں! صرف یہ لکڑی والا تانگہ،۔ تانگے والے نے ایک نظر بوسیدہ سے لکڑی کے تانگے پر ڈالی، پھر سرکھجاتے ہوئے بولا"لے لو لیکن پانچ ہزار کا دوں گا۔ میں نے سرہلایا، بالکل ٹھیک ہے، آپ کل یہ تانگہ تیار رکھئے گا، ہم پانچ ہزار دے کر لے جائیں گے،۔ میرا جواب سن کر وہ ایک دم سن ہوگیا، چلے آئے۔ اگلے دن دوبارہ اس کے پاس پہنچے۔ آج اس کی طبیعت میں کچھ لاپروائی سی نظر آئی۔ ہمیں دیکھتے ہی بولاصاحب جی! اصل میں کل میں نیند میں تھا، ورنہ خالص دیار کی لکڑ کا تانگہ کون پانچ ہزار میں بیچتا ہے۔ میں نے اطمینان سے پوچھا"توپھر آپ اس کا کیا لیں گے؟،۔ اس نے ایک لمحے توقف کئے بغیر فوراً کہا"آٹھ ہزار،۔ میں نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا"چاچا جی! میں آپ کو اس کے دس ہزاردوں گا، بس تانگہ کل مجھے دے دیجئے گا،۔ یہ سنتے ہی تانگے والے کے چہرے پر شکوک کی پرچھائیاں لہرانے لگیں۔ پھرہم آگئے۔ اگلے دن پھر پہنچے تو تانگے والا خاصا مضطرب نظر آرہا تھا۔ بات شروع ہوئی تو جلدی سے بولا"اصل میں یہ تانگہ میرے بھائی کا ہے اور وہ کہتا ہے کہ اب ایسے تانگے مارکیٹ میں آنے ہی بند ہوگئے ہیں، بڑا لاجواب پیس ہے لہذا پندرہ ہزار سے ایک پیسہ کم نہیں ہوگا۔ ، میں نے کچھ دیر سوچا، پھر آہستہ سے کہا"میں آپ کو اس کے پچاس ہزار دینے کے لئے تیار ہوں، اب کوئی اعتراض؟،۔ یہ جملہ سنتے ہی تانگے والےکا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ کچھ دیر اسے میری بات پر یقین نہ آیا۔ پھر جونہی حواس بحال ہوئے ایک دم سخت آواز میں بولا"جائو جائو کام کرو، مجھے نہیں بیچنا یہ تانگہ."میں نے بہتیرا زور لگایا، رقم ایک لاکھ تک بڑھا دی لیکن تانگے والا لڑنے مارنے پر اتر آیا۔ میں نے عدیل کی طرف دیکھااور اس نے ہنستے ہوئے سرہلادیا۔ میرے ایک دوست کو ایک کمپنی کی طرف سے سافٹ ویئر انجینئر کی جاب آفر ہوئی۔ موصوف انٹرویو دینے گئے اور نوکری سے انکار کرآئے۔ وجہ پوچھی تو بتانے لگے کہ کمپنی کچھ مشکوک لگ رہی تھی۔ تفصیل پوچھی تو بتایا کہ مجھے ڈیڑھ لاکھ تنخواہ، گاڑی اور گھر دے رہے تھے۔ اب بھلا اتنی تنخواہ اور مراعات کون دیتا ہے۔ مجھے تو یقین ہوگیا ہے کہ وہ مجھ سے کوئی خطرناک کام کروانا چاہتے ہیں لہذا میں انکار کر آیا ہوں۔ آج کل یہی دوست پانچ پانچ سو روپے میں ویب سائٹس ڈیزائن کررہے ہیں اورجس کمپنی کے بارے میں انہیں شبہ تھا اس کے بارے میں پتا چلا ہے کہ وہ دبئی کی کمپنی تھی اور اپنے سارے ملازمین کو دبئی لے جاچکی ہے۔ ہمارا شک اور وہم اتنا پختہ ہوچکا ہے کہ ہم پہلی بار یقین کرنے کے لئےتیار ہی نہیں ہوتے کہ کوئی ہمارے ساتھ مخلص بھی ہوسکتا ہے۔ دکاندار سے ریگولر ڈرنک کی بوتل لیں، بے شک آپ دوکان سے باہر کھڑے ہوکر بوتل پی رہے ہوں، وہ پچاس روپے ایکسٹرا رکھ لے گا کہ جب بوتل واپس کرنے آئوگے تو دوں گا۔ اُستاد کو یقین ہے کہ وہ جس بچے کو پڑھانے پر مامور ہے اس کے والدین اس کا معاوضہ کھاجائیں گے لہذا اس نے اصول بنا لیا ہے کہ فیس ایڈوانس لینی ہے۔ کام کا معاوضہ کام کے بعد دینے کا رواج ہی ختم ہوتا جارہاہے۔ ڈاکٹر، ا سکول، گھریلو ملازم، بچوں کوا سکول چھوڑنے والی وین.سب ایڈوانس پیسے لیتے ہیں۔ مہینے کے بعد پیسے لینے والا کام صرف حکومت کرتی ہے یعنی پہلے بجلی، گیس، پانی استعمال کیا جاتاہے، پھر اس کا بل آتاہے۔ ہمیں شک ہے کہ ہر بندہ دو نمبر ہے، اور یقین ہے کہ ہم ایک نمبر ہیں۔ دوسروں کے ساتھ کچھ غلط ہوجائے تو یہ ان کے اعمال کی سزا ہوتی ہے لیکن ہمارے ساتھ ایسا کچھ ہوجائے تو یہ آزمائش ہوتی ہے۔ خوش نصیبی کو لات مارنے میں بھی ہمارا ثانی نہیں۔ ہمیں نوبل پرائز مل جائے پھر بھی ہم ناراض، آسکر مل جائے پھر بھی ناخوش.اور ائیرپورٹ کے امیگریشن کائونٹر پر جامہ تلاشی لی جائے پھر بھی غصہ۔ اصل میں دنیا کو چاہئے کہ نوبل پرائز کسے دینا ہے، آسکر کسے دینا ہے یہ ہم سے پوچھ کر دیا کرے۔ سو پچاس ہمارے بندوںکو بھی یہ انعامات ریگولر ملتے رہیں تو کیا حرج ہے۔ لیکن دنیا چونکہ سازشی ہے لہذا وہ تو چاہتی ہی یہ ہے کہ اپنی مرضی ہم پر مسلط کرے۔ شکی اور وہمی لوگوں کی سب سے بڑی قسم وہ ہے جو اپنے مطلب کی ہر بات پر فوراً یقین کرلیتی ہے۔ ہماری ماسی کہنے لگی "صاحب جی! سنا ہے حکومت نے گیٹ کے باہر والی جگہ دھونے پر پابندی لگا دی ہے اور اب جو کوئی بھی ایسا کرے گا اسے دولاکھ جرمانہ کیا جائے گا۔ میں نے غور سے اس کی بات سنی اور سمجھ گیا کہ موصوفہ حکومت پر ڈال کر گھر گھر دہشت پھیلانا چاہ رہی ہیں۔ میں نے کہا"ثریا! تم نے آدھی خبر سنی ہے.باقی کی خبر یہ ہے کہ حکومت نے کہا ہے کہ آئندہ جو ماسی بھی ہفتے میں تین سے زائد چھٹیاں کرے اس کی تنخواہ میں سے دو لاکھ روپے کاٹ لئے جائیں،۔ یہ سنتے ہی اس کی تین منٹ طویل چیخ نکل گئی!

About Gul e Nokhaiz Akhtar

Gul Nokhaiz Akhtar is a Pakistani columnist and writer for various TV shows. He is the author of 12 books and writer of over 2000 TV scripts and plays.

Check Also

Zindagi Bas Aik Round Aur

By Arif Anis Malik