Wednesday, 24 April 2024
  1.  Home/
  2. Orya Maqbool Jan/
  3. La Hawla Wala Quwwata Illa Billah

La Hawla Wala Quwwata Illa Billah

لا حول ولا قوۃ الا باللہ

تم لوگ ماضی میں زندہ رہتے ہو، پرانی داستانیں یاد کر کے اپنا قد بلند کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہو، تم نے فارسی کا وہ محاورہ تو ضرور سنا ہوگا "پدرم سلطان بود" جس کے معنی ہیں میرا باپ بادشاہ تھا۔ اقبال کو جواب شکوہ میں اپنی انہی لن ترانیوں اور ماضی پرستیوں کا جو الہامی جواب ملا تھا، وہی پڑھ لیں ؎

تھے تو آباء وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو

ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو

جواب شکوہ کی اسی الہامی شاعری کا نتیجہ ہی تھا کہ اقبال زندگی بھر، اپنی قوم کی بے عملی، مرعوبیت، کج کلاہی، علم و عمل سے دوری اور ماضی پرستی کا رونا روتا رہا۔ تجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتیکہ تو گفتار، وہ کردار، تو ثابت وہ سیارہیہ بات درست ہے کے ماضی کے خوابگیں ماحول میں زندہ رہنے والی قومیں اگر حال میں مست خرام ہو جائیں، تو ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔

کیا یہی حال ہمارا ہے، کیا امتِ مسلمہ بحیثیت مجموعی اسی کیفیت کا شکار ہے کہ جس کی وجہ سے دنیا بھر میں اس پر ذلت و مسکنت مسلط ہو چکی ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ ذلت ان ملکوں کی حکومتوں اور باسیوں پر مسلط ہوئی ہے جو بحیثیت مجموعی اللہ کی بادشاہت کا اعلان تو کرتے ہیں لیکن پوری قوم عمومی طور پر اور حکمران خصوصی طور پر، طاقت، سرمایہ، ٹیکنالوجی اور سیاسی قوت کے لات و عزیٰ کے سامنے مسلسل سجدہ ریز ہیں۔

ان کی صبح ان خداؤں کی مدح سے آغازہوتی ہے، ان کے اخبار، رسائل، میڈیا، بیورو کریسی، سیاستدان، ارباب حل و عقد، سارا دن ان کی سیاسی اور معاشی قوت کی حمد کرتے ہیں، وہ ان کی ٹیکنالوجی کے ترانے اور بھجن گاتے ہیں، ان کی عالمی چودھراہٹ کے گیت ان کے لبوں پر ہوتے ہیں اور سب سے بڑھ کر ان کی خوفناک، تباہ کن فوجی طاقت کے سامنے یہ ایسے جھک جاتے ہیں جیسے پناہ مانگنے کے لیے لوگ کالی دیوی کے سامنے جھکتے ہیں یا اہرمن کے لیے نذر گزارتے تھے اور دیوتاؤں کے غضب سے بچنے کے لئے نیل کے دریا کی نذر انسانی جانیں ذبح کرتے تھے۔

یہ خود کو سیکولر اور ملحد کہتے ہیں، یعنی وہ جن کا کسی خدا پر یقین نہیں۔ لیکن انہوں نے زندگی کے ہر شعبے میں پرستش کے لیے ایک خدا ڈھونڈ رکھا ہے۔ جب اس سے بڑا کوئی بت یا خدا آجاتا ہے تو یہ پہلے والے کی چوکھٹ چھوڑ کر نئے طاقتور بت کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ اقبال نے ان دنیا پرست مشرکین کے بارے میں خوب کہا "تراشیدم، پرستیدم، شکستم" (بت تراشتے ہیں، اس کی پرستش کرتے ہیں اور توڑ دیتے ہیں )۔

یہ لوگ جو خود ساری زندگی ماضی کے مزاروں کی خوابناکی میں ڈوبے رہتے ہیں، اہرام مصر، دیوار چین، روم کا کولیسیم (collasium)، فارس کا آتش کدہ، بابل کے معلق باغات، اٹلی کا پیسا ٹاورجیسے آثار قدیمہ اور فتوحات کرتے ہوئے الیگزینڈر، ہینی بال، چنگیز خان، نپولین۔

غرض یہ ساری داستانیں وہ اپنے بچوں کو ازبر کراتے ہیں، ان پر مسلسل تحقیق کرتے رہتے ہیں، انہیں میڈیا میں زندہ رکھتے ہیں اور نسل در نسل ان خداؤں کی مورتیاں نصابوں، کہانیوں اور گیتوں میں منتقل کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی مسلمان ان کے سامنے اپنے ماضی کی داستان دہرائے، جنگ قادسیہ، یرموک سلاسل، مذار، قسطنطنیہ، دیبل اور سومنات کی فتوحات کا ذکر کردے تو یہ ایکدم پکار اٹھتے ہیں کہ اس زمانے میں جسمانی قوت پر جنگ لڑی جاتی تھیں، آج ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ ایک جہاز پینتیس ہزار فٹ کی بلندی سے پینتیس ہزار لوگوں کو منٹوں میں ہلاک کرسکتا ہے۔ جن روم و ایران کی طاقتوں کو آپ شکست دینے کی بات کرتے ہیں، ان کے اور آپ کے پاس ایک جیسے ہتھیار تھے۔ تلوار، تیر، برچھے، نیزے بھالے، سواری کے لیے ایک جیسے گھوڑے تھے۔

آج آپ پیدل ہو اور مقابلے پر ٹینک ہے۔ آپ کے ہاتھ میں بندوق اور زیادہ سے زیادہ راکٹ لانچر ہیں جب کہ دوسری جانب ڈرون، میزائل، فضائی بمبار اور فضا میں موجود سیٹلائٹ سے رہنمائی حاصل کرکے موت مسلط کرنے والے ہتھیار ہیں۔ تمہارا ان سے کیا مقابلہ۔ تم زمین پر رینگنے والے حشرات الارض کی طرح ہو جسے زمین پر اترے بغیر ختم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن میرے اللہ نے اکیسویں صدی میں ہی یہ سارے دعوے جھوٹے کر دکھائے، ساری کہانیاں باطل کر دیں، ٹیکنالوجی قوت اور اختیار کے سارے بت افغانستان کی سرزمین پر ان لوگوں کے ہاتھوں پاش پاش کر دیے جنہیں یقین تھا کہ؎

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو

اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

چند دن پہلے ماسکو میں جو دنیا کی بڑی طاقتیں طالبان کے ان فرزانوں کے سامنے دم بخود، امن کی بھیک مانگ رہی تھیں، کہا جاتا ہے یہ عالمی ایجنڈا ہے۔ نہیں یہ زمین پر ذلت آمیز شکست کا نتیجہ تھا۔ عمومی طور پر گوریلا جنگ میں ایک آنکھ مچولی کا کھیل چلتا رہتا ہے۔ چھاپہ مار کاروائیاں جاری رہتی ہیں، لیکن باغیوں کا علاقوں پر مسلسل کنٹرول مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کے اس طرح سامنے آنے کی صورت میں کچلے جانے کا ڈر ہوتا ہے۔ لیکن افغانستان وہ ملک ہے جہاں آج سترہ سال جنگ کے بعد یہ معاملہ ہی الٹ ہو گیا۔ جن کے پاس تمامتر ٹیکنالوجی اور ریاستی طاقت ہے وہ ستر فیصد افغانستان سے بھاگ گئے۔

ماسکو کانفرنس سے چند دن قبل 6 نومبر 2018 کو رائٹرز نے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے کہ افغانستان میں اب ٹیکس بھی طالبان اکٹھا کر رہے ہیں اور لوگ انہیں بخوشی دے رہے ہیں۔ بجلی فراہم کرنے والے سرکاری کمپنی "برشنا شرکت" اپنے بلوں پر طالبان کا لوگو لگاتی ہے تاکہ لوگ بل ادا کریں اور وہ اس میں ٹیکس کی مقرر کردہ رقم طالبان کودیتے ہیں۔

رائٹرز لکھتا ہے کہ اس وقت افغانستان میں ٹیکس اکٹھا کرنے کا جو نظام طالبان نے مرتب کیا ہے، وہ بہت منظم ہے اور کوئی شخص ٹیکس چوری نہیں کرتا۔ چند ماہ پہلے ایشلے جیکسن "Ashley Jackson" کی کتاب "Life under the Taliban Shadow government" (طالبان کی شیڈو حکومت میں زندگی) کے مطابق افغانستان میں لوگ زکوٰۃ اور عشر صرف طالبان کو دیتے ہیں۔ تمام سرحدوں پر برآمدات اور درآمدات پر کسٹم ڈیوٹی بھی طالبان وصول کر رہے ہیں۔

رائٹرز کے مطابق طالبان کا قائم کردہ عدالتی نظام سرکاری عدالتی نظام سے بہت بہتر ہے۔ اسی لیے لوگ اپنے مقدمے طالبان کے پاس لے جا رہے ہیں اور طالبان کے فیصلے نافذ بھی ہوتے ہیں۔ لوگوں کے نزدیک طالبان انہیں بیک وقت داعش اور حکومت دونوں کے حملوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔ رائٹرز کی رپورٹ اور کتاب میں لاتعداد لوگوں کے انٹرویوز شامل کئے گئے ہیں جو بتاتے ہیں کہ طالبان اب ایک گوریلا باغی طاقت نہیں رہی بلکہ یہ ایک شاندار طرز حکومت والی حقیقت بن چکے ہیں۔ جہاں تک ان کی عسکری فتوحات کا تعلق ہے اس کا بار بار ذکر کیا جا چکا۔

دنیا کی ہزار سالہ تاریخ میں یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ پوری دنیا ایک طرف ہو، اور ایک نہتے ملک کے طالبان دوسری طرف۔ 48 ممالک کی افواج مل کر حملہ آور ہوں۔ تمام پڑوسی پاکستان، ایران، تاجکستان اور چین مخالفین کو راستے اور پناہ دیں، ایسے میں ٹیکنالوجی اور دنیاوی قوت سے محروم طالبان پوری نام نہاد "مہذب دنیا" کو شکست دے دیں۔ کیا اب بھی ہمیں ضرورت ہے کہ ہم ماضی کی مثالیں دیں۔

ہم کہیں، دیکھو ہم قادسیہ، نہاوند، قسطنطنیہ، سومنات اور سلاسل میں عالمی طاقتوں کو شکست دینے والوں کی نسل ہیں۔ اب ماضی کے طعنے سننے کے دن گزر گئے۔ ہم اکیسویں صدی کی ٹیکنالوجی، قوت، طاقت اور پوری دنیا کے اتحاد کو شکست دینے والے طالبان والی امت کے امین ہیں۔ ہم نے تاریخ کے قرطاس پر یہ لکھ دیا ہے کہ اللہ سے بڑی کوئی طاقت نہیں، اگر آپ اس پر بھروسہ کریں۔

لا حول ولا قوۃ الا باللہ (نہیں ہے کسی قسم کی قوت اور طاقت بغیر اللہ کی مدد کے)۔ اور مدد اور طاقت انہی کو میسر آتی ہے جو سب خداؤں سے منہ موڑ کر اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں۔

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.

Check Also

Bheer Chaal

By Syed Mehdi Bukhari