Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Riayatullah Farooqui/
  3. Bacha Aor Taleem

Bacha Aor Taleem

بچہ اور تعلیم

میں تو اپنے حساب سے بچوں کی تربیت والا موضوع نمٹا چکا تھا اور خیال یہی تھا کہ اس بار "خطابی وزیراعظم" اور ان کے ہنی مون پیریڈ کے حوالے سے ہی کچھ ہلکا پھلکا لکھا جائے کہ بعض قارئین نے اس جانب متوجہ کیا کہ بچوں کے تعلیمی پہلو پر تو سرے سے بات ہی نہیں ہوئی۔ سچ پوچھئے تو خود مجھے بھی حیرت ہوئی کہ یہ اس قدر اہم پہلو نظر انداز کیسے ہوگیا؟ اس حوالے سے میرا مشاہدہ یہ کہتا ہے کہ بچے دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو تعلیمی ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جو ہنرمند ہوتے ہیں۔ تعلیمی سے میری مراد وہ بچے ہیں جو قدرتی طور پر ان شعبہ ہائے زندگی کے لئے پیدا ہوئے ہوتے ہیں جن پر دسترس تعلیم کے ذریعے میسر آتی ہے۔ مثلا طب، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، بزنس ایڈمنسٹریشن، قانون اور تدریس جیسے شعبے۔ جبکہ ہنرمند یا فنکار بچوں سے میری مراد وہ بچے ہیں جنہیں قدرت نے مصوری، کیلی گرافی، رقص، گائیکی، دستکاری اور ایسے ہی دیگر بہت سے تخلیقی شعبوں کے لئے پیدا کیا ہوتا ہے۔ بے حد بدقسمتی کی بات ہے کہ یہ دوسری قسم والا بچہ عام طور پر والدین کی بے رحمی کی بھینٹ چڑھتا ہے۔ بنیادی وجہ اس کی یہ ہوتی ہے کہ عام طور پر فنکار بچوں کی تعلیم سے نہیں بنتی۔ سکول سے ان کی مستقل شکایات آتی ہیں، امتحانی نتیجہ بھی بہت برا ہوتا ہے۔ والدین شروع میں کچھ زور زبردستی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب سارے حربے ناکام ہوجائیں تو ایسے بچے کو "نالائق بچہ" ڈیکلئر کرکے اسے روحانی و جسمانی دونوں ہی طرح کے تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے والدین کو شعور ہی نہیں ہوتا کہ ان کے گھر نالائق نہیں بلکہ ایک بہت ہی خاص بچہ پیدا ہوگیا ہے۔ ایسا بچہ جو مستقبل میں قومی سطح پر ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ملک و قوم کے تعارف کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ یہ ایک قدرتی عمل ہے کہ جن بچوں کو خدا نے کسی تخلیقی ہنر کے لئے چن رکھا ہو ان کہ رغبت اوررجحانات کتاب کے بجائے اس تخلیقی میدان کے اوزاروں کی جانب کردیا ہوتا ہے۔ ایسا بچہ پڑھے گا تو وہ فن کب سیکھے گا جس کے لئے اسے چنا گیا ہے۔ جس بچے کو قدرت نے مصوری کے شعبے کے لئے چنا ہے اسے آپ تین برس کی عمر میں بھی قلم کاغذ پکڑائیں گے تو وہ قلم سے بھی کوئی لفظ لکھنے کے بجائے کوئی سکیچ بنانے کو ترجیح دیگا۔ آپ اسے دو کتابیں پکڑا دیجئے، ایک وہ جس میں عبارت لکھی ہو اور دوسری وہ جس میں تصاویر ہوں۔ وہ عبارت والی کتاب ایک جانب سرکا دے گا اور تمامتر دلچسپی تصاویر والی کتاب میں لے گا۔ ممکن ہے آپ یہ سوچیں کہ تین برس کا تو ہر بچہ ایسا ہی کرتا ہے تو فرق یہ ہے کہ یہ جو آرٹس بچہ ہے یہ دس اور بیس برس کی عمر میں بھی یہی کرے گا۔ یہ جوانی میں جا کر اپنے ہنر سے متعلق کوئی غیر نصابی مطالعہ تو کرلے گا لیکن درسگاہ میں بیٹھ کر تعلیم پر آمادہ نہیں ہوگا۔ سو یہ بات بہت زیادہ سمجھنے کی ہے کہ اگر آپ کے بچوں میں کوئی ایسا بچہ ہے جو تعلیم میں دلچسپی نہیں لے رہا تو اسے نالائق سمجھنے کے بجائے اس کے اس دوسرے پہلو کو ٹٹولیں اور اس جانب لگانے میں اپنا کردار ادا کیجئے۔ فنکار بچوں میں اکا دکا ہی ایسے ہوتے ہیں جو تعلیم میں بھی دلچسپی لیتے ہیں ورنہ ایسے بچوں کی عام طور پر تعلیم سے بنتی نہیں۔ دوسرا حساس معاملہ تعلیمی بچوں کے سبجیکٹ کے انتخاب کا ہے۔ یہ اس نسبت سے بے حد اہم معاملہ ہے کہ اس پر بچے کے تمامتر مستقبل اور شعبہ حیات کے انتخاب کا دار و مدار ہوتا ہے۔ اس معاملے میں بھی والدین کی ایک بڑی تعداد بہت خطرناک غلطی کا ارتکاب کرتی ہے، جس سے بسا اوقات بچے کی پوری زندگی تباہ وجاتی ہے۔ ویسے تو یہ حرکت والد بھی کر لیتے ہیں لیکن اکثر مائیں یہ کہتی پائی جاتی ہیں کہ "میں تو اپنے چاند کو ڈاکٹر بناؤں گی" بعض مائیں فرماتی ہیں "دیکھ لینا میرا بیٹا تو پائیلٹ بنے گا" یا اسی طرح کا کوئی بھی اور شعبہ والدین از خود چن لیتے ہیں اور پھر اس پر مصر رہتے ہیں کہ بچہ تو بس یہی بنے گا۔ اس حوالے سے یہ بات سمجھنی بہت ضروری ہے کہ یہ کار خانہ حیات جس میں ہم انسان رہتے ہیں، ایک ہمہ جہت اور متنوع کارخانہ ہے۔ یہاں حیات کا دار و مدار ایک ایکو سسٹم پر ہے۔ جس طرح اس ایکو سسٹم میں مختلف حشرات الارض اور چرند و پرند کی موجودگی کا بہت ہی کلیدی کردار ہے اسی طرح خود انسانوں کا مختلف شعبوں سے ہونا بھی بہت لازمی ترین ضرورت ہے۔ نہ یہاں سارے انسان انجینئر ہوسکتے ہیں اور نہ ہی سارے ڈاکٹر، وکیل یا عالم دین۔ مہذب انسانی حیات کا دارومدار اس بات پر ہے کہ انسان نے تاریخی طور پر علم و فن کی جتنی بھی وادیاں فتح کر رکھی ہیں ان تمام وادیوں سے وابستہ لوگ مسلسل پیدا ہوتے رہیں۔ چنانچہ اس مقصد کے لئے قدرت نے پیدائشی طور پر ہربچے کے دل میں اس شعبہ حیات کی طرف کشش رکھدی ہے جس کی خدمت کے لئے اسے چنا گیا ہے۔ یہ رجحانات عام طور پر تین سے پانچ سال کی عمر میں ظاہر ہونے شروع ہوجاتے ہیں لیکن یہ اظہار بچے کی حرکتوں سے ہوتا ہے زبان سے نہیں۔ مثلا بعض بچے ایسےہوتے ہیں جنہیں آپ کوئی مشینی کھلونا دیتے ہیں تو وہ اس سے وہی کھیل کھیلنے لگتے ہیں جس کے لئے وہ بنا ہے۔ یعنی اگر کار ہے تو بچہ اسے ڈرائیو کرنے لگے گا اور اسے بہت سنبھال کر بھی رکھے گا۔ لیکن بعض بچے ایسے ہوتے ہیں جو اس سے کھیلنے کے بجائے اس پر غور و فکر شروع کر دیتے ہیں کہ یہ چلتا کیسے ہے؟ اگر کوئی سکرو ڈرائیور وغیرہ دسترس میں ہو تو اس کھلونے کے پیچ کھولنے کی کوشش کرے گا، اور سکرو ڈرائیور نہ ہو تو یہ دیکھنے کے لئے زمین پر پٹخ کر کھلونا توڑ ڈالے گا کہ آخر اس کے اندر وہ کیسا نظام فٹ ہے جو اس کار کو چلا رہا ہے؟ ۔ اب ایسا بچہ شعور سے عاری والدین سے تو تھپڑ کھائے گا لیکن اگر والدین سمجھدار ہوئے تو سمجھ جائیں گے کہ بچہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبے کی جانب جائے گا۔ بعینہ بعض بچوں کو آپ نے گروپ کی صورت کھیلتے ہوئے ڈاکٹر کا رول ادا کرتے دیکھا ہوگا۔ اور نوٹ کیا ہوگا کہ کچھ بچے روز ہی کھیل کود میں ڈاکٹر بننے کو ترجیح دے رہے ہوتے ہیں۔ یہ درحقیقت قدرت تعلیمی مضمون اور شعبہ حیات کے انتخاب کے حوالے سے والدین کی مدد کر رہی ہوتی ہے تاکہ وہ اس کا شعبہ حیات بھانپ کر شروع سے بچے کو اسی جانب لے جانے کی منصوبہ بندی کر سکیں۔ یہی بچے جب سات سے دس سال کی عمر کو پہنچتے ہیں تو پھر باقاعدہ اپنی زبان سے والدین کو بتانے لگتے ہیں کہ وہ کیا بننا چاہتے ہیں۔ سو اگر والدین اپنی مرضی تھوپنے کے بجائے بچے کے رجحانات کے مطابق چلیں تو انہیں کبھی بھی بچے سے تعلیمی حوالے سے کوئی شکایت نہ ہوگی۔ بہت کم مگر بعض بچے ایسے بھی نکل آتے ہیں کہ وہ تعلیم ماں باپ کے شوق والی اختیار کر لیتے ہیں لیکن عملی زندگی میں نظر وہ کسی اور ہی شعبے میں آتے ہیں۔ مثلا بعض ڈاکٹرز و انجینئرز شعبہ ابلاغیات میں بہت نمایاں دیکھے جا سکتے ہیں۔ خود مجھے بھی تعلیمی پس منظر کے لحاظ سے امام مسجد ہونا چاہئے مگر انتیس برس سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہوں !

Check Also

Shah e Iran Ke Mahallat

By Javed Chaudhry