Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Arif Nizami/
  3. Kuwen Ke Maindak

Kuwen Ke Maindak

کنویں کے مینڈک!

وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ چین کے مابعد حکومتی عمائدین بالخصوص وزیر خزانہ اسد عمر اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا دعویٰ ہے کہ اب ستوں خیراں ہیں اور پاکستان اقتصادی بحران سے نکل آیا ہے کیونکہ چین نے ہمیں ’بیل آؤٹ، کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ عمران خان کے دورہ چین کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں اقتصادی اور سیاسی تعاون کا ذکر تو ضرور ہوا ہے لیکن چین کی طرف سے جس اقتصادی پیکج کی امید کی جا رہی تھی وہ عنقا ہے۔ سرکاری ترجمان پھولے نہیں سما رہے کہ چین اور پاکستان کے درمیان 15 ایم اویوز پر دستخط ہوئے ہیں۔ سب اچھا ہے کہ اس دعوے کے باوجود چین سے ممکنہ اقتصادی تعاون کی تفصیلات طے کرنے کے لیے پاکستانی وفد بیجنگ روانہ ہو چکا ہے۔ عموماً سربراہ حکومت یا سربراہ مملکت کے دوروں کے حوالے سے یہ طے کر لیا جاتا ہے کہ ایجنڈا کے نکات کیا ہونگے، دوطرفہ میٹنگز کی تیاری کے لیے اعلیٰ سرکا ری عہدیدار شامل کیے جاتے ہیں۔ لیکن یہاں دال میں کچھ کالا ضرور ہے جس کے بارے میں ابھی تک قوم کو اعتماد میں نہیں لیا جا رہا۔ جس روز عمران خان خصوصی پرواز کے ذریعے چین کے لیے روانہ ہو رہے تھے، اسی روز خاکسار چین کے بڑے اقتصادی اخبار اکنامک ڈیلی جس کی روزانہ سرکولیشن دس لاکھ سے زائد ہے کی دعوت پر بیجنگ روانہ ہوا۔ جب میں نے ہوٹل کے کمرے میں ٹی وی آن کیا توچین کے انگریزی چینل پر عمران خان کی آمد کی خبر چل رہی تھی اور یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ پاکستانی وزیراعظم اپنے ملک کے مالی بحران کو دور کرنے کے لیے چین سے امداد مانگنے آئے ہیں لیکن ہم مصر ہیں کہ ہم اقتصادی تعاون کی بات کر رہے ہیں۔ نہ جانے تحریک انصاف کی حکومت قوم کو اندھیرے میں رکھ کرحقائق بتانے سے کیوں ہچکچاتی ہے۔ چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری "سی پیک" کو ہی لیجئے۔ حکومتی عہدیداروں کی جانب سے اس بارے میں مختلف درفنطنیاں چھوڑنے اور بھانت بھانت کی بولیاں بولنے کا خاصا نقصان ہوا ہے۔ موقر انگریزی روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والے ایک ریسرچ آرٹیکل کے مطابق مملکت خداداد پاکستان چین کے بیلٹ اینڈروڈ منصوبے اور "سی پیک" کے بارے میں یکسر نابلد ہے اگرچہ مضمون نگار اس ضمن میں پوری معلومات نہ رکھنے کے حوالے کے باعث 62ارب ڈالرکے ’سی پیک، معاہدے پر دستخط کرنے والی سابق حکومت کو بھی مطعون کرتا ہے لیکن موجودہ حکومت کے بعض خود ساختہ ترجمان اس مضمون کے حوالے سے مضمون نگار کے پیچھے پنجے جھاڑ کر پڑے ہوئے ہیں اور موقر روزنامے کوبھی مطعون کر رہے ہیں لیکن مضمون نگار کا درست کہنا ہے کہ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ60 ممالک پر مشتمل ہے جس میں پاکستان بھی شامل ہے، اس لحاظ سے یہ دنیا کی ستر فیصد آبادی کو کو ر کرتا ہے گویا کہ "سی پیک" چین کے عالمی منصوبے کا چھوٹا سا حصہ ہے۔ ہمارے ہاں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ گویا "سی پیک" چین کے لیے زندگی موت کا مسئلہ ہے، حالانکہ بات یکسر الٹ ہے۔ مزید یہ کہ ’سی پیک، کے تحت ہونے والے معاہدے چینی کمپنیوں اور چینی حکومت کے تحت چلنے والے کاروباری اداروں کے ساتھ ہیں۔ اس لحاظ سے فاضل مضمون نگار کی یہ بات بالکل درست ہے کہ اگر ان منصوبوں میں ردوبدل کرناہے تومذاکرات ان کمپنیوں سے کرنا پڑیں گے۔ مشیر خزانہ رزاق داؤد کا یہ بیان کہ ہم چین کے ساتھ "سی پیک" کے منصوبوں پر دوبارہ مذاکرات کریں گے نہ صرف محل نظر تھا بلکہ کم علمی پر بھی مبنی تھا۔ نہ جانے مشیر موصوف کو اس دورے میں چین ساتھ لے جانے کی کیا تُک تھی پھر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ "سی پیک" کے منصوبوں پر جن میں سے کچھ مکمل بھی ہو چکے ہیں حکومت کیا مذاکرات کرنا چاہتی ہے۔ لگتا ہے کہ اس بارے میں تفصیلات حکومتی عمائدین کو خود بھی معلوم نہیں۔ کرپشن، کرپشن کی گردان کرتے ہوئے قومی مفاد کا بھی خیال نہیں رکھا جا رہا۔ یہ درست ہے کہ کرپشن کا خاتمہ تحریک انصاف کی حکومت کے منشور اور پروگرام کا حصہ ہے لیکن یہ ہمارا ندرونی معاملہ ہے اگر بلاواسطہ طور پر چین جا کرایسا تاثر دیا جائے گا کہ "سی پیک" شریف برادران کے کھانے پینے کا سلسلہ تھا تواس سے یقینا چین کے ساتھ تعلقات متاثر ہونا ہی تھے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان اور چین کے سٹرٹیجک اور معاشی کے علاوہ دفاعی حوالے سے تعلقات کلیدی اہمیت کے حامل ہیں اور محض غیرذمہ دارانہ بیانات سے یہ متاثر نہیں ہونگے۔ دورہ چین کے دوران مجھے شنگھائی میں میڈیا کے حوالے سے ایک بڑے سیمینار اور تجارتی نمائش میں جانے کا بھی موقع ملا۔ چین کی جدید ٹیکنالوجی بالخصوص انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بڑی جہت لگانے کے شواہد دیکھنے کا موقع ملا۔ میں کئی مرتبہ چین جا چکا ہوں ایک وہ دور بھی تھا جب 1976ء میں مجھے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ہمراہ چین کا دورہ کرنے کا موقع ملا تو وہاں ہر مرد اور خاتون ایک ہی طرح کے "ماؤسوٹ" میں ملبوس تھا۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو چیئرمین ماوزے تنگ کو ملنے والے آخری سربراہ حکومت تھے۔ ماؤ اس وقت صاحب فراش اور قریب المرگ تھے لیکن صرف پاکستان اور بھٹو کے ساتھ محبت کی وجہ سے چین کے عظیم لیڈرنے ملاقات کی دعوت دے دی۔ دنیا چیئرمین ماؤ کی صحت کے حوالے سے اتنی فکر مند تھی کہ جب ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں ایک امریکی صحافی نے بھٹو سے سوال کیا کہ چیئرمین ماؤ کی حالت کیسی ہے توبھٹو صاحب نے برجستہ جواب دیا کہ 83سالہ ماؤ اب ایک ٹائیگر تو نہیں ہیں لیکن عمر کے لحاظ سے ان کی صحت ٹھیک ہے۔ اس زمانے میں بیجنگ میں ایک ہی ہوٹل پیکنگ ہوٹل تھاجس میں غیر ملکی ٹھہرتے تھے، اب تو جدید ترین ہوٹلوں کی بھرمار ہے۔ اب یہ دورہے کہ چینی اکانومی نہ صرف جاپان کو پیچھے چھوڑ چکی ہے بلکہ عنقریب امریکہ سے بھی آگے نکل جائے گی۔ وہ سڑکیں جن پر خال خال ہی کسی سرکا ری اہلکار کی گاڑی نظر آتی تھی اب گاڑیوں کی اتنی ریل پیل ہے کہ گاڑیاں اپنے ریفرنس نمبرکے حوالے سے ایک دن کے وقفے کے ساتھ سڑکوں پر لانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ چین کی ہر شعبے میں ترقی کا راز چین کے لیڈر ڈینگ ژاؤ پنگ کی ترقی کی چار جہتیں ہیں۔ 1978ء سے لے کر 1989ء تک ڈینگ ژاؤپنگ چین کے لیڈر رہے۔ وہ نہ سربراہ حکومت تھے نہ صدر اور نہ ہی حکمران پارٹی کے سیکرٹری جنرل لیکن ان کے پروگرام نے بیس برس میں چین کو جدید مارکیٹنگ کے راستے پر گامزن کر دیا۔ چین نے کمیونزم کے نظریئے پر قائم رہتے ہوئے جدید مارکیٹنگ میں دنیا کو پیچھے چھو ڑدیا۔ ڈینگ کا مشہور قول تھا کہ بلی چاہے گرے ہو یا سفید اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا بشرطیکہ وہ چوہے پکڑتی رہے، یہ معمولی سی بات ہماری سیاسی اور فوجی قیادتوں کو اب تک سمجھ نہیں آ سکی۔ ہمارے رہنما، سرکاری اہلکار، بزنس مین اور صحا فی چین کے دورے تو کرتے رہتے ہیں۔ برادرم مشاہد حسین اور ان کے صاحبزادے مصطفی حسین نے تواس حوالے سے تھنک ٹینک بھی بنا رکھا ہے۔ ان کی کوشش بھی ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان نئی جہتوں کواپنایا جائے لیکن مقام افسوس ہے کہ ہمیں چین سے اقتصادی تعاون تو چاہیے، دفا عی تعاون کی بھی خواہش ہے لیکن ہم چین کی مثال کو حکومتی پالیسیوں اور ذاتی رویوں میں اپنانے کے قائل نہیں ہیں۔ دعا تو یہی کی جا سکتی ہے کہ چین سے ہمیں پیسے مل جائیں۔ یقینا وہ ہمیں ایک بار پھر اقتصادی بحران میں غرق ہونے سے بچا لے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ چین کی موجودہ اقتصادی ترقی کے پیچھے خارجہ اور اقتصادی پالیسیوں کے حوالے سے اس کی مثال کو اپنایا جائے۔ مثال کے طور پر چین بھارت کے سیاسی طور پر قریب نہیں بلکہ اس کا بھارت سے سرحد ی تنازع بھی ہے جو گزشتہ برس فوجی جھڑپوں میں تبدیل ہوتے ہوتے رہ گیا۔ اس کے باوجود جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی چین کے دورے پر گئے تو چینی صدر شی جن پنگ نے ان کا انتہائی پرتپاک طریقے سے خیرمقد م کیا۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ چین کی بھارت کے ساتھ تجارت پاکستان سے بھی زیادہ ہے۔ تجارت کے حوالے سے یہی حال تائیوان کے ساتھ ہے جسے وہ اپنا حصہ سمجھتا ہے۔ گویا کہ چین نے جس طرح کیمونزم اور مارکیٹ اکانومی کوساتھ ساتھ چلایا جائے۔ اسی طرح وہ اپنے دشمن ممالک سے بھی تجارتی اور اقتصادی روابط بڑھانے سے ذرا بھر بھی گریز نہیں کرتا۔ یہی حقیقت پسندی اس کی ترقی کا راز اور ایک ہم ہیں کہ کنویں کے مینڈک بنے رہنے پر ہی خوش ہیں۔

Check Also

Zara Bhoolna Seekhen

By Javed Ayaz Khan