Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Abdullah Tariq Sohail/
  3. Naik Azam Lekin Sagoon?

Naik Azam Lekin Sagoon?

نیک عزم لیکن شگون؟

سابق صدر آصف زرداری کے بارے میں یہ خیال لوگوں کو یقین کی حد تک تھا کہ وہ "متحدہ اپوزیشن" کے قیام میں بڑی رکاوٹ ہیں کیونکہ محکمہ زراعت والوں نے انہیں مقدمات میں پھنسا رکھا ہے لیکن گزشتہ روز کے ان کے بیانات سے سبھی لوگ چونک گئے۔ انہوں نے کہا کہ "حکومت چل نہیں سکتی اور اپوزیشن کو متحد ہو کر قرارداد لانا ہو گی۔ بیان کے پہلے حصے سے تو اب خود تحریک انصاف کے حامی بھی اتفاق کر رہے ہیں لیکن قرار داد لانے سے کیا مراد ہے؟ تحریک عدم اعتماد تو ممکن نہیں۔ کوئی بھی جماعت حکومت کا تختہ پلٹنے کی حامی نہیں ہے۔ سب کو پتہ ہے کہ حالات کشیدہ ہوئے تو کچھ اور ہو جائے گا۔ حکومت کی عوامی اکثریت بہت کم سہی لیکن یہ محفوظ "ہاتھوں " میں ہے۔ اس کی اکثریت کا باقی رہنا اختر مینگل کی جماعت اور متحدہ کی مٹھی میں ہے اور یہ دونوں کسی اور کی مٹھی میں ہیں۔ اسمبلی کے اندر سے حکومت کو کوئی پریشانی نہیں۔ جو مصیبت ہے باہر ہی سے آئے گی۔ بہرحال، بیان انوکھا ہے اور اگر اپوزیشن متحد ہو جاتی ہے تو بڑی خبر ہے۔ اسے وزیر اعظم کے اس بیان کی روشنی میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ملک میں ان کی کرسی اس روز ہلی تھی جس روز انہوں نے کہا تھا کہ میری کرسی مضبوط ہے۔ سب کو گرفتار کرنے کا عزم "نیک" سہی لیکن شگون نیک نہیں لگتا۔ ٭٭٭٭٭تحریک انصاف دوسرے ضمنی الیکشن میں ایک اور سیٹ ہار گئی۔ یعنی پشاور کی وہ صوبائی سیٹ جو موجودہ وزیر اعلیٰ نے خالی کی تھی۔ یہاں سے اے این پی جیتی اور یوں وہ کہہ سکتی ہے کہ عام انتخابات میں اس کی جیتی ہوئی سیٹیں نتیجے بدل کر، باقی ملک کی طرح، تحریک انصاف کو دے دی گئی تھیں۔ تھوڑے دن پہلے جو ضمنی انتخابات ہوئے تھے، ان میں بھی اے این پی تین سیٹوں پر جیتی تھی۔ ایک سیٹ پر تو رات گئے، "منصفانہ" والے آ گئے اور پی ٹی آئی کے امیدوار کی جیت ہو گئی۔ دوسری سیٹ پر "منصفانہ" والوں نے دوبارہ گنتی کرا دی اور وہ بھی پی ٹی آئی کو دے دی۔ یوں اس کی دو جیتی ہوئی سیٹوں پر "منصفانہ" پھر گیا۔ ضمنی الیکشن کے اس دوسرے رائونڈ میں کراچی بھی شامل ہے لیکن بوجوہ اس کے نتائج کسی گنتی میں نہیں ہیں۔ کراچی کا ووٹر گھروں سے نکلتا ہی نہیں اسے پتہ ہے۔"منصفانہ" کے آگے کسی کی نہیں چلتی۔ 247ہی کو دیکھ لیجیے یہ سیٹ صدر صاحب نے خالی تھی۔ یہ بھی پاکستان کے بڑے حلقوں میں سے ایک ہے۔ ساڑھے پانچ لاکھ ووٹر یہاں رہتے ہیں لیکن کتنے ووٹ پڑے؟ جیتنے والے کو 30ہزار سے زیادہ ملے، ہارنے والوں کے ملا کر لگ بھگ اتنے ہی۔ کل 60ہزار کر لیجئے۔ باقی پانچ لاکھ کہاں گئے؟ پی ٹی آئی کو پوش علاقوں سے سارے ووٹ ملے۔ گویا غیر پوش آبادی کے پانچ لاکھ ووٹر"منصفانہ" سے ڈرتے اس کا لحاظ کرتے ہوئے گھروں ہی میں رہے۔ اب آپ کی مرضی ہے، اسے پرلطف صورتحال سمجھیے یا لمحہ پریشانیہ قرار دیجئے۔ یہی حال باقی کراچی کا بھی ہے۔ ووٹر ووٹ سے لاتعلق ہو گیا ہے۔ مین سٹریم کے سارے عمل سے الگ ہو گیا ہے، یا کر دیا گیا ہے۔ یہ مت کہئے کہ ضمنی الیکشن میں ٹرن آئوٹ کم ہوتا ہے۔ بے شک کم ہوتا ہے لیکن اتنا نہیں کہ ہر سو ہو کا عالم ہو۔ دور دراز علاقوں میں بھی ضمنی الیکشن کے دوران 30سے 40فیصد تک ووٹ پڑتا ہے۔ یہاں تو بات دس فیصد کے آس پاس پہنچ گئی۔ ٭٭٭٭٭صدر صاحب کی چھوڑی ہوئی سیٹ پر ضمنی الیکشن ہو رہا تھا تو اسی دوران صدر صاحب اخبار نویسوں سے ہم کلام ہوئے۔ اللہ اللہ، کیا فرمایا؟ یہ فرمایا کہ میں نہیں جانتا مہنگائی کیوں بڑھ گئی ہے۔ یعنی مہنگائی کی وجہ سے اظہار لاعلمی فرمایا۔ آپ یوں سمجھئے کہ صدر صاحب ملکی معاملات سے اتنے زیادہ لاتعلق نہیں ہیں، یعنی انہیں پتہ ہے کہ مہنگائی ہو گئی ہے لیکن یہ نہیں جانتے کہ وجہ کیا ہے۔ صدر صاحب چاہتے تو سرے سے مہنگائی کی خبر سے بھی بے خبری ظاہر کر سکتے تھے یعنی فرما سکتے تھے کہ مجھے نہیں پتہ کہ ملک میں مہنگائی ہو گئی ہے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ جزوی طور پر باخبری، جزوی بے خبری کا اظہار کیا۔ اسے "بیلنسنگ ایکٹ" بھی کہا جا سکتا ہے۔ صدر صاحب کی مصروفیات ایسی ہیں کہ کامل باخبری ہونا بہت مشکل ہے۔ ہفتے پہلے وہ جوانی پھر نہیں آنی قسم کی فلمیں دیکھنے میں مصروف رہے۔ ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ ڈوری مان (کارٹون فلم) سے بھی دلچسپی ہے۔ اچھی بات ہے۔ کارٹون فلموں کی دنیا میں ڈوری مان تبدیلی کی علامت ہے اور موصوف تبدیلی سرکار کا عنوان ٹھہرے۔ ٭٭٭٭٭صدر صاحب کا ذکر آتا ہے تو لوگ ان کے "شوق پروٹوکول" کا تذکرہ کرتے ہیں۔ کوئی شبہ نہیں، پروٹوکول کے باب میں صدر صاحب بہت مشتاق بھی ہیں اور بے تاببھی۔ جب بھی کہیں تشریف لے جاتے ہیں یا کہیں سے تشریف لاتے ہیں تو خلائق کو ان کے پروٹوکول سے ان کے مقام و مرتبے کا علم ہو جاتا ہے لیکن اس ہفتے ان کے گورنر صاحب ان پر بازی لے گئے۔ گورنر موصوف تھر تشریف لے گئے تو 66گاڑیاں ان کے ہمراہ تھیں اور ایک سے بڑھ کر ایک کے حساب سے چکا چوند کرنے والی یہ گاڑیاں طویل قطار کی صورت تھر کے دیہات میں داخل ہوئیں تو سنہری دھوپ قافلے کی رو پہلی رعنائی کے مقابلے میں ماند پڑ گئی۔ گورنر موصوف کو حویلی لایا گیا تو ریت کے میدان پر ریڈ کارپٹ بچھایا گیا۔ گورنر کے صدقے تھر کی کرموں جلی ریت کے بھاگ جاگے۔ ٭٭٭٭٭خبر ہے کہ وزیر ریلوے کی پنجاب کے سینئر وزیر سے ملاقات ہوئی ہے۔ خبر کے الفاظ ہیں کہ دونوں نے باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔ ذرائع کا اصرار ہے کہ ملاقات میں امور پر نہیں، بس ایک ہی"امر" پر تبادلہ خیالات و خواہشات کیا۔ وہ "امر" کیا ہو سکتا ہے؟ رہنے دیں، راز کی بات ہے۔ بس دعا فرماتے رہیے۔

Check Also

Dyslexia

By Khateeb Ahmad