Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Orya Maqbool Jan/
  3. Putliyon Ka Khel

Putliyon Ka Khel

پتلیوں کا کھیل

پاکستان کے عدالتی انصاف اور تفتیشی نظام کے سامنے ایک بہت بڑا سوال دیو قامت حقیقت کی طرح منہ پھاڑے کھڑا ہے۔ یہ سوال تفتیش اور انصاف کے نظام کی موشگافیوں سے بار بار یہ دریافت کرتا ہے کہ کیا قاتل صرف اور صرف وہ ہے جس کی انگلی بندوق کے ٹریگر پر ہو یا جس کے ہاتھ سے آلۂ قتل استعمال ہو یا وہ شیطانی دماغ بھی برابر کا ذمہ دار ہے، جس نے اس سامنے نظر آنے والے قاتل کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔

قانون کی کتابوں میں عموماً اس کا جواب یہی ملے گا کہ وہ قتل میں برابر کا شریک ہے، لیکن پاکستان کی عدالتی تاریخ میں صرف ذوالفقار علی بھٹو کا مقدمہ ایسا مقدمہ ہے، جس میں اس اصول کو اپنی پوری صحت اور نیت کے ساتھ نافذ کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ واحد مقدمہ ہے جو پاکستان میں انصاف کی ایک روشن راہ داری پر ملک کو گامزن کر سکتا تھا، لیکن اسے بدترین سیاست، یک طرفہ پراپیگنڈے اور قانونی موشگافیوں کے سمندر میں غرق کر دیا گیا۔

عدالتوں میں پہلی دفعہ یہ سوال حل کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ فیڈرل سیکورٹی فورس کے اہلکاران، میاں محمد عباس، رانا افتخار احمد، ارشد اقبال اور غلام مصطفیٰ کی کیا دشمنی تھی کہ لاہور کے علاقے شادمان کے ایک چوراہے پر ممبر قومی اسمبلی احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان کو انہوں نے اندھا دھند فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ کیا ان چاروں پولیس اہلکاروں کا اس کے ساتھ کوئی زمین کا تنازعہ تھا، رشتے کا جھگڑا تھا، کسی مال مقدمے میں انہیں نواب محمد احمد خان نے تنگ کیا تھا۔

اگر یہ سب نہیں تھا تو کیا وہ نفسیاتی زبان میں "HALLUCINATED" تھے۔ یعنی ایسی ذہنی حالت کا شکار جن کو شکلیں دکھائی دیں یا آوازیں سنا دیں اور وہ انہیں حکم دیں کہ فلاں شخص کو جا کر قتل کر دو اور وہ ایسی نفسیاتی کیفیت میں جا کر قتل کر دیں۔ یہ چاروں تو ملازم تھے جو اپنے گھروں سے ایک سادہ سی ملازمت کرنے آئے تھے، لیکن نواب محمد احمد خان کو قتل کرنے والی بندوق کے ٹریگر پر ان کی انگلیاں موجود تھیں۔

ایک عام عدالتی صورت حال ہوتی تو اس کی دو تعبیریں کی جاتیں۔ پہلی یہ کہ پولیس والوں نے از خود اسے قتل کر دیا اور چونکہ اس بات کا ہمارے پاس کوئی واضح ثبوت نہیں کہ انہیں قتل کرنے کا حکم دیا بھی گیا تھا یا نہیں، اس لیے، یہ چاروں مجرم ہیں، ان میں ڈھونڈنا یہ ہے کہ کس کی گولی سے جان گئی، اس کو سب سے سخت اور باقیوں کو شرک جرم (Accomplica)قرار دے کر کم سے کم سزا دی جا سکتی تھی۔

دوسری تعبیر یہ ہو سکتی تھی کہ استغاثہ وکیل صفائی کے گٹھ جوڑ سے ایک کہانی بناتا، مثلاً یہ کہ ہم کچھ ڈاکوئوں کے تعاقب میں تھے، ان کی گاڑی سے فائر ہو رہے تھے۔ اس آپس کی فائرنگ میں اچانک نواب محمد احمد خان کی گاڑی بیچ میں آ گئی اور بغیر کسی وجہ اور مقصد کے، اتفاقیہ گولی چل گئی اور بیچارہ محمد احمد خان مارا گیا۔ ظاہر بات ہے استغاثہ اپنے ساتھی پولیس والوں کو بچانے کی کوشش کرتا اور معاملہ محکمانہ انکوائری کی نذرہو کر داخل دفتر ہو جاتا۔

لیکن چونکہ بھٹو کے کیس میں یہ نیت باندھ لی گئی تھی کہ اس شخص تک پہنچنے کی کوشش کی جائے گی، جس نے اصل میں حکم دیا ہے اور اس فلم کے پیچھے اس کی کون سی دشمنی اور کون سا مفاد پوشیدہ تھا تو پھر یہ کام آسان ہو گیا۔ جس طرح ایک عام بارسوخ شخص اپنے دشمنوں کو راستے سے ہٹانے کے لیے کرائے کے قاتل استعمال کرتا ہے اور خود صاف بچ نکلتا ہے۔ اسی طرح ایک حکمران اپنے دشمنوں کو راستے سے ہٹانے، ان کو ہراساں اور خوفزدہ کرنے کے لیے انتظامی مشینری اور پولیس کو کرائے کے قاتل اور کرائے کے غنڈوں کے طور پر استعمال کرتا ہے۔

جب وہ اس کا یہ کام کر گزرتے ہیں تو پھر وہ اپنے ان سرکاری کرائے کے گوریلوں کو ہر سطح پر بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن بھٹو کے مقدمے میں لکھے گئے یہ الفاظ عدل کی تاریخ کا ایک نیا باب کھول سکتے تھے جسے سیاسی گرد نے بند کر دیا۔

"The Principal accused(Mr۔ Bhutto)، is The and Culprit having a motive in the matter۔ He has used the members of Federal security Force for personal Vendetta and for Satisfactoin of an urge in him to avenge himself upon a person whom he Considered his enemy۔ For his own personal ends he has Turned those persons in to Criminals and hired assassin and thus Corrupted them"

ترجمہ:مقدمے کا بڑا مجرم(بھٹو) ایک بنیادی قصور وار ہے جس کی معاملے میں مرضی و منشا شامل تھی۔ اس نے اپنی ذاتی دشمنی اور اس شخص سے بدلہ لینے کی خواہش کی تکمیل کے لیے فیڈرل سکیورٹی فورس کے اہلکاروں کو استعمال کیا، جس شخص کو اپنا دشمن قرار دیتا تھا، اپنے اس ذاتی مقصد کی تکمیل کے لیے اپنے ان اہلکاروں کو کرائے کے قاتل اور مجرم بنا کر انہیں بے کار کر دیا"

یہ فقرے تاریخ کا وہ حصہ ہیں جسے شخصیت پرستی کی گرد اور "جمہوری تسلسل" کی قربان گاہ پر قاتلوں، چوروں، ڈاکوئوں اور بددیانتوں کو ہیرو تسلیم کرنے کی روش نے پس پشت ڈال دیا ہے۔ ورنہ یہ فقرے آنے والے سالوں میں اصل قاتل، اصل مجرم، اصل چور اور ڈاکوئوں تک پہنچنے کے لیے مشعل راہ کا کام دیتے۔ آج بھی پاکستان کا نظام انصاف اور تفتیش اس معاملے میں ایک خاموش تماشائی ہے۔ اس کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے کہ 17جون 2014ء کو جن پولیس اہلکاروں نے گولیاں چلا کر ماڈل ٹائون میں 14نہتے شہریوں کو شہید کیا تھا، کیا ان کی ان چودہ کے ساتھ کوئی ذاتی دشمنی تھی۔

کیا طاہر القادری نے ان کی زمینوں پر قبضہ کیا تھا، کیا یہ چودہ نہتے شہری ان پولیس اہلکاروں کے ساتھ کسی مقدمہ بازی میں ملوث تھے، رشتے کا کوئی تنازعہ تھا۔ پھر یہ گولیاں کیسے اور کس کے حکم پر چلیں، کون اصل ناراض تھا، جس کی انا کو تسکین ملی، کس نے سبق سکھانا چاہا تھا اور سبق سکھا دیا۔ ہائی کورٹ نے اپنے اختلافی فیصلے میں نواز شریف، شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ تک پہنچنے والی لکیر اور کھوج کو کاٹ دیا ہے۔

لیکن یہ سوال پاکستان کے نظام انصاف کے منہ پر ایک مستقل طمانچہ ہے کہ "وہ جو اصل میں حکم دیتا ہے وہ قانونی موشگافیوں کی آڑ میں کیسے بچ جاتا ہے"۔ گیارہ سال گزرنے کے بعد بھی لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے بے گناہ شہید ہونے والے طلبہ و طالبات کی روحیں یہ سوال لے کر کھڑی ہیں کہ کیا اس علاقے کا گھیرالو ڈالنے والے سکیورٹی فورسز کے لوگوں کا ان سے کوئی ذاتی جھگڑا تھا، عناد تھا۔

ٹریگر کے پیچھے موجود ان ہاتھوں کا کھوج اور ٹریلTrailاصل حکم دینے والے پرویز مشرف تک کیوں نہیں پہنچتی۔ ایسا شاید کبھی نہ ہو سکے، اس لیے کہ وہ تمام لوگ جو اقتدار کی مسند پر بیٹھتے ہیں، ان کے نزدیک ان کے نیچے کام کرنے والوں کی حیثیت اور مقام ایسے غلاموں کی طرح ہے جسے وہ کسی بھی وقت کرائے کے قاتلوں، چوروں، ڈاکوئوں، بددیانتوں اور حکمرانوں کے اشاروں پر ناچنے والی پتلیوں میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ پتلیوں کے اس تماشے میں ڈوریوں پر گرفت رکھنے والے ہاتھ جب تک گرفت میں نہیں آئیں گے، انصاف کا خواب مکمل نہیں ہو گا۔

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.

Check Also

Aik Parhaku Larke Ki Kahani

By Arif Anis Malik