Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Amir Khakwani/
  3. Pach Sawal, Panch Jawab

Pach Sawal, Panch Jawab

پانچ سوال، پانچ جواب

چند سوالات فیس بک، ای میلز اور ٹیکسٹ میسج کے ذریعے آئے، ایک دو زبانی بھی پوچھے گئے اور باربار اس حوالے سے استفسار کیا جا رہا ہے۔ فیس بک پر اس حوالے سے لکھتا رہا ہوں، کالموں میں پہلے بھی ذکر آیا ہے، مگر چونکہ ابھی الیکشن اور اس سے متعلقہ ایشوز پر گرما گرم بحثیں چل رہی ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ ان بنیادی سوالات کو بھی نمٹا دیا جائے۔ پہلا سوال : الیکشن میں ز بردست دھاندلی ہوئی ہے، اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہربڑی جماعت یہ بات کر رہی ہے، آخر اتنی ساری جماعتیں کیسے یہ بات کہہ سکتی ہیں؟ جواب: اس کی وجہ بڑی واضح ہے کہ یہ الیکشن بنیادی طور پر پی ٹی آئی بمقابلہ تمام بڑی جماعتیں تھا۔ الیکشن سے پہلے ہی مختلف رپورٹوں میں یہ کہا گیا کہ ہر جگہ پی ٹی آئی ہی کا کسی نہ کسی سے مقابلہ ہے۔ پنجاب میں پی ٹی آئی بمقابلہ مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی بمقابلہ پیپلزپارٹی۔ پیپلزپارٹی کا پنجاب میں صفایا ہوچکا ہے، اس بار بھی بے شمار امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوئیں، مگر ان کے چند ایک الیکٹ ایبل ضرور مقابلے میں تھے۔ خیبرپختون خوا میں پی ٹی آئی بمقابلہ امیرمقام یعنی ن لیگ، پی ٹی آئی بمقابلہ ایم ایم اے اور تحریک انصاف ہی کا مقابلہ اے این پی سے تھا۔ سندھ، کراچی میں پی ٹی آئی بمقابلہ ایم کیو ایم، پی ٹی آئی بمقابلہ پی ایس پی، حقیقی، پی ٹی آئی بمقابلہ ایم ایم اے۔ انتخابی نتائج آئے تو قومی سطح پر پی ٹی آئی جیت گئی، پنجاب میں اس نے ن لیگ کے بعض مضبوط پاکٹس میں شگاف ڈالے، فیصل آباد تسخیر کر لیا، جبکہ جنوبی پنجاب اور شمالی پنجاب میں وہ چھا گئی۔ کراچی میں متحدہ کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا، ایم ایم اے یعنی جماعت اسلامی کا صفایا ہوگیاجبکہ پیپلزپارٹی کو تاریخ میں پہلی بار لیاری سے شکست ہوئی۔ خیبر پختون خوا سے اے این پی کا صفایا ہوگیا، ن لیگ کا گڑھ ہزارہ ڈویژن تحریک انصاف کے نوجوانوں سے لٹ گیا، جبکہ ایم ایم اے کو ایسی شکست ہوئی کہ اس کے قائدین اپنے گھروں والی آبائی نشستیں ہی ہار بیٹھے۔ یہ تمام ہاری ہوئی پارٹیاں زخم خوردہ ہیں۔ زخم ایک پارٹی یعنی پی ٹی آئی نے دیا ہے تو یہ سب باآواز بلند اور یکجا ہو کر کراہیں گے تو اس میں حیرت کیسی؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی دھاندلی کی شکایت کرنے والی پیپلزپارٹی نے اندرون سندھ صفایا کر ڈالا، پہلے سے زیادہ نشستیں لیں اور اپوزیشن کی بڑی جماعت فنکشنل لیگ کے مضبوط علاقوں سانگھڑ وغیرہ کو بھی فتح کر لیا۔ کیا وہاں دھاندلی نہیں ہوئی؟ پنجاب میں جہاں اس کے الیکٹ ایبل تھے، اسے اچھے ووٹ ملے یا نشستیں جیتیں جیسے مظفر گڑھ، جیسے رحیم یار خان، وہاں دھاندلی نہیں ہوئی؟ ادھر ایم ایم اے میں جے یوآئی کی پہلے چھ نشستیں تھیں، اب گیارہ ہوگئیں، بلوچستان سے اسے اچھی اہم نشستیں ملیں۔ وہاں دھاندلی نہیں ہوئی؟ محمود اچکزئی صاحب پشتون بیلٹ سے پچھلی بار فاتح تھے، رنز اپ مولانا فضل الرحمن کی جماعت تھی۔ اس بار اچکزئی صاحب کی پارٹی کا صفایا ہوگیا، مولانا صاحب کی جماعت فاتح ٹھیری۔ دونوں کہتے ہیں کہ دھاندلی ہوئی؟ کیسے؟ بلوچ علاقوں خاص کر مکران میں نیشنل پارٹی ہار گئی، ان کی نشستیں بی این پی مینگل کو ملیں یا بی این پی عوامی کو۔ نیشنل پارٹی کہتی ہے کہ دھاندلی ہوئی، مینگل صاحب کہتے ہیں کہ دھاندلی ہوئی، تو کیسے ہوئی؟ کوئی ایک فریق کہہ سکتا ہے کہ دھاندلی ہوئی، دو نوں کا کہنا تو مذاق ہے۔ دوسرا سوال : الیکشن میں ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ پولنگ ایجنٹ نکال دئیے گئے، یہ تو زیادتی ہوئی؟ جواب: اگرپولنگ ایجنٹ نکال دئیے گئے تو پھر ایسا کیوں ہوا کہ کوئی پارٹی صرف وہاں ہاری جہاں اس کے امیدوار کمزور تھے اور ہارپہلے سے نظر آ رہی تھی؟ یہ ایجنٹ نکالے جانے سے پی ٹی آئی کو لاہور میں فائدہ کیوں نہیں ہوا؟ صرف وہی سیٹیں ملیں جہاں پچھلی بار بھی زیادہ ووٹ ملے تھے۔ گوجرانوالہ، سیالکوٹ، سرگودھا، اوکاڑہ میں پولنگ ایجنٹ نہیں نکالے گئے تھے کیا؟ وہاں سے تو پی ٹی آئی کو ایک بھی نشست نہیں ملی۔ ساہی وال، خانیوال میں ایسا کیوں نہ ہوا؟ آخریہ پولنگ ایجنٹ ڈھونڈ کر اسی حلقے کے پولنگ سٹیشنوں سے کیوں نکالے گئے، جہاں پر ن لیگ کمزور تھی۔ پنجاب کے کئی اضلاع میں ن لیگ نے صفایا پھر دیا، سب سیٹیں لے گئی۔ آخر کیوں؟ دھاندلی ہوتی، پولنگ ایجنٹ نکالے جاتے تو پھر وہاں سے سیٹیں کیوں ن لیگ لے جاتی۔ کئی سیٹوں پر تو مارجن بھی خاصا کم ہے، چند سو ووٹوں سے لیگی امیدوار جیتے۔ آخر یہ دھاندلی کرنے والے کتنے احمق تھے کہ جہاں پانچ سو ووٹوں کا فرق تھا، وہاں سے پولنگ ایجنٹ بھی نہیں نکالا اور نہ ہی دھاندلی کی، ن لیگ کو جیتنے دیا۔ اسی طرح کراچی میں پیپلزپارٹی ملیر سے تو نشستیں لے گئی، لیاری میں صرف وہاں سے ہاری، جہاں بلاول پر عوام کی جانب سے پتھرائو کیا گیا تھا۔ اگر وہاں دھاندلی کی گئی ہوتی تو زرداری صاحب پیپلزپارٹی کراچی پر سخت تنقید کیوں کرتے؟ دھاندلی انتظامیہ نے کی اور استعفا پیپلزپارٹی کراچی کے صدر کو دینا پڑا؟ آخر کیوں؟ بھائی لوگو یہ سب کہانیاں ہر بار بنائی جاتی ہیں، ہاری ہوئی پارٹی الزام نہ لگائے تو کیا کرے؟ زرداری صاحب کیسے مان سکتے ہیں کہ اگر ہم دس برسوں کے اقتدار میں لیاری والوں کو پانی فراہم کر دیتے تو آج بلاول وہاں سے جیت جاتا۔ مولانا فضل الرحمن کیسے تسلیم کر لیں کہ میں نے ڈیرہ والوں کو بالکل اکیلا چھوڑ دیا، اسی کی مجھے سزا ملی ہے۔ جماعت اسلامی اپنی تنظیمی کمزوریاں اپنے شوریٰ کے اجلاس میں تو مان سکتی ہے، اسے مشتہر کیوں کرے گی؟ ن لیگ کیسے مان لے کہ پنجاب کے عوام نے تبدیلی کے لئے ووٹ دیا ہے؟ اے این پی کیسے کہے کہ صوبے کے عوام ہم سے اتنے برگشتہ ہیں کہ ہارون بلور کی شہادت بھی ہمدردی کا ووٹ نہ دلوا سکی۔ تیسرا سوال : جہاں جہاں گنتی ہو رہی ہے، وہاں سے پی ٹی آئی والے ہار رہے ہیں، یہ دھاندلی کا ثبوت نہیں ہے؟ جواب: اگر گنتی کے بعد پی ٹی آئی والے جیت جاتے تو پھر یہ کہا جاتا کہ دیکھیں اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کی وجہ سے الیکشن کمیشن اپوزیشن کی جیتی ہوئی سیٹیں انہیں ہرا رہا ہے۔ یارو اگر کہیں گنتی کے بعد اپوزیشن کی سیٹیں بڑھی ہیں تو اس پر شکر ادا کرو کہ پراسیس چل اور ریلیف مل رہا ہے۔ پچھلی بار تو یہ حق ملتے ملتے تین چار سال لگ گئے تھے۔ ویسے اس حوالے سے ڈس انفارمیشن کا سیلاب آیا ہوا ہے، کئی ایسے حلقے بھی ہیں جہاں گنتی کے باوجود پی ٹی آئی مخالف امیدوار نہیں جیت سکا، الٹاتحریک انصاف کے ووٹ بڑھ گئے۔ اسی طرح بعض حلقوں سے ن لیگ کے جیتے امیدوار ہار گئے ہیں اور آزاد یا پی ٹی آئی کا امیدوار جیت گیا۔ سوشل میڈیا پر سارا کھیل جھوٹ، غلط بیانی اور سازشی تھیوری بیچنے کا چل رہا ہے۔ چوتھا سوال : دوبارہ گنتی سے انکار کیوں کیا جا رہا ہے، یہ دھاندلی کو سہار ا نہیں دیا جا رہا؟ جواب: اس حوالے سے ایک مکمل پروسیجر موجود ہے۔ ریٹرننگ آفیسر کو الیکشن کمیشن نے ہدایات جاری کر رکھی ہیں کہ قوانین کے تحت جہاں ضروری ہو، وہاں گنتی دوبارہ کرائی جائے۔ اس پر عمل ہو رہا ہے، متعدد جگہوں پر گنتی ہوئی ہے۔ اگر رولز کے مطابق عمل نہیں ہوا جیسے مقررہ وقت میں درخواست نہ دی جائے یا پھر جہاں فرق بیس تیس ہزار کا ہے اور گنتی کا فائدہ کوئی نہیں، وہاں انکار کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح دس بیس پولنگ سٹیشن سیمپل کے طور پر لئے گئے، دوبارہ گنتی میں ووٹ نہیں بڑھے تو پھر روک دیا گیا۔ قوانین کے مطابق امیدوار کو اگر ریٹرننگ آفیسر کے کسی فیصلے پر اعتراض ہے تو پھرٹریبونل کی آپشن موجود ہے، وہاں جائیں، ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں اپیل کی آپشن بھی ہے۔ صاحبو!اگر بار بار گنتی ہی کراتے رہیں تو پھر آفیشل نوٹیفکیشن کب جاری ہوگا؟ پارلیمنٹ کا اجلاس اور حلف کب اٹھایا جائے؟ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر لوگوں کو ریٹرننگ آفیسرز سے ریلیف مل رہا ہے، ورنہ پچھلے انتخابات کے بعد اس دوبارہ گنتی کے لئے جہانگیر ترین اور بعض دوسرے لوگوں کودو ڈھائی برس لگ گئے تھے۔ پانچوں سوال :ہم ان الیکشن کو نہیں مانتے، دھاندلی سے مینڈیٹ چرایا گیا ہے، جوڈیشل کمیشن بنانا چاہیے۔ جواب: ماننے، نہ ماننے کا حق کسی سے نہیں چھینا جا سکتا۔ سرائیکی کا ایک محاورہ ہے، مکرنا لوہے کا کوٹ (قلعہ) ہے۔ کوئی اگر نہ مانے تو صبح کی روشنی اور رات کی تاریکی سے بھی انکار کردے۔ کسی نے کیا بگاڑ لینا ہے؟ جہاں تک جوڈیشل کمیشن کا تعلق ہے، اس عدلیہ پر پہلے اعتماد تو قائم کر لیجئے۔ جوڈیشل کمیشن کی اتنی بڑی ایکسرسائز ہوجائے، تب کون سا ہارے ہوئوں نے مان لینا ہے؟ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ کمیشن میں نان پی سی او ججز ہوں، شائد یہ خیال ہے کہ ہمارے دور میں بنائے جج ہمارے مطابق چلیں گے۔ صاحبو، اگر نان پی سی اوججز پر مشتمل جوڈیشل کمیشن نے اپوزیشن کے الزامات مسترد کر دئیے، تب کیا ہوگیا؟ عمران خان نے جوڈیشل کمیشن بنوایا تھا، اس کا فیصلہ آنے پر ہاتھ کٹوا کر بیٹھ گیا تھا۔ اگر پانامہ سکینڈل نہ آتا تو اس کی سیاست دریابرد ہوچکی تھی۔ بہتر ہے سیاسی معاملات سیاسی طریقے سے نمٹائیں۔

Check Also

Doctors Day

By Naveed Khalid Tarar