Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Saleem Zaman/
  4. Bad Wolf Ki Kahani

Bad Wolf Ki Kahani

بیڈ ولف کی کہانی

چند سال قبل دیر رات کو اپنی اسٹڈی میں بیٹھا کچھ لکھ رہا تھا کہ سب سےچھوٹی بیٹی کے کمرے سے ہلکی سے چیخ کی آواز سنائی دی۔ سناٹے میں چیخ نے میرا دل پکڑ لیا، میں بچوں کے کمرے کی طرف دوڑ کر گیا تو بچوں کی ماں بیٹی کو پیار کر رہی تھی۔ وہ پھٹی آنکھوں سےکھڑکی کی جانب دیکھ کر والدہ کے سینے سے چمٹی ہوئی تھی۔ میرے استفسار پر ماں بولی ڈر گئی ہے۔

میں قریب گیا اور اسے اٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لیا اور اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا، پیار سے پوچھا بیٹو کیا ہوا، وہ جب میرے سینے سے لگی تو پسینے سے بھیگ رہی تھی۔ کھڑکی کی طرف اشارہ کر کے بولی بابا، وہاں سے مجھے بیڈ ولف bad wolf دیکھ رہا تھا۔ اوہ اچھا، میں نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی، اسکی ماں کو اشارہ کیا کہ تم جاو سو جاو، وہ اٹھی تو میں بیٹی کے بستر پر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور بیٹی کو گود میں لے لیا۔

بیٹو، ولف کی کہانی سناوں؟

نہیں بابا، اس کی ریڈ ریڈ eyes بہت بری ہیں۔

بیٹو، آپ تو بہت طاقتور اور اسٹرانگ ہو اور آپ نے تو اس ولف کو مار دیا تھا نا اس اسٹوری میں۔

بیٹی نے اپنی نیم خوابیدہ آنکھوں سے میرے چہرے کی طرف دیکھا۔ جیسے پوچھ رہی ہو میں نے بابا اسے مارا۔

جی بیٹو، آپ نے اسے اتنا مارا کہ وہ روتا ہوا چلا گیا۔

کیسے بابا؟ سنائیں نہ کہانی۔

اچھا ایک دن بابا، ماما اور بیٹو شاپنگ پر جا رہے تھے۔ جب مارکیٹ میں پہنچے تو ایک ائسکریم والا گاڑی کے قریب آیا، اس نے ائسکریم ہاتھ میں پکڑی ہوئے تھی اور بابا کو کہہ رہا تھا کہ اپنی بیٹی کے لئے آئسکریم لے لو، بابا ابھی گاڑی کا شیشہ کھولنے ہی والے تھے۔ بیٹو نے پیچھے سیٹ سے آواز دی، بابا، بابا ونڈو نہ کھولیں یہ ولف ہے۔ بابا گھبرا گئے۔ لیکن اس نے بابا کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہنے لگا میں بیڈ ولف ہوں۔

اور میں تمہیں کھا جاوں گا۔ بابا ڈر کر رونے لگے۔ تو بیٹا نے کہا، بابا آپ ڈرنا نہیں، میں ہوں، بیٹا اسٹرانگ ہو گئے۔ اور کہا بابا، آپ چپ تو ہوں اور گاڑی کی ڈگی کھولیں، میری اسٹک اس میں ہے میں ابھی اس گندے ولف کو ٹھیک کرتی ہوں اور پھر بیٹا نے گاڑی سے اسٹک نکالی اور اور ولف کو دو لگائیں اور اسے ڈانٹا کہ میرے بابا کا ہاتھ چھوڑ دو جب اسے بہت مار پڑی تو اس نے بابا کو چھوڑ دیا۔

اور بیٹو سے معافی مانگنے لگا کہ پلیز بیٹو، مجھے معاف کر دو میں آئیندہ آپ کے بابا کو نہیں کھاؤں گا۔ بیٹے نے ایک اور اسٹک اسے لگائی اور کہا میرے بابا کو سوری بولو اور آئیندہ یہاں نہی آنا ورنہ بہت لگاؤں گی۔ اس نے بابا کو کہا۔ مجھے معاف کر دو مجھے نہیں پتہ تھا کہ اتنی اسٹرانگ بیٹی ہے آپ کی۔ اب آئیندہ میں آپ کو تنگ نہیں کروں گا اور نہ ہی کھاؤں گا۔ بس میں mountains پر چلا جاؤں گا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر بابا اور بیٹو نے اس کی سوری مان لی۔ پھر وہ بھاگ گیا۔ دیکھا میری اسٹرانگ بیٹی سے ڈر کر ولف کیسے بھاگا۔

بیٹی کی خوشی سے ننھے قہقہے پھوٹ پڑے اور بستر پر اچھل کر کودتے ہوئے بولی۔ میں فرانگ (strong) ہوں۔ ولف ڈر گیا ڈر گیا۔ اور پھر سے گود میں آ کر لیٹ گئی۔ میں بالوں میں انگلیاں پھیرتا رہا وہ نیند کی وادیوں میں کھو گئی۔ ایک مطمعن روشن چہرہ نیند کی وادی میں یوں لگ رہا تھا جیسے چاند پر چودھویں کا چاند۔

آج رات مجھے نیند نہیں آ رہی۔ جب سے لوگوں سے ناطہ توڑا ہے اور زبان بند کی ہے۔ اب زیادہ تر میرا وقت اپنے کمرے میں گزرتا ہے کیونکہ لوگوں میں چھپے بھیڑے مجھے تکتے ہیں۔ ان کے پنجے، آنکھیں مجھے ڈراتی ہیں۔ بچے اپنی زندگیوں میں مصروف ہو گئے ہیں۔ آج رات مجھے اپنے اردگرد بھیڑیوں سے ڈر لگ رہا ہے۔ کوئی کھڑکی سے مجھے آنکھیں دکھا رہا ہے۔ کوئی روشندان سے اپنے نوکیلے دانت نکالے غرا رہا ہے۔ کمرے سے باہر نہیں نکل سکتا دو بھیڑیے میری دروازے کے آگے ٹہل رہے ہیں تاکہ میں اگر باہر نکلوں تو وہ مجھے پھاڑ کھائیں۔

اچانک مجھے بستر کے نیچے سے غرانے کی آواز سنائی دینے لگی۔ میری چیخ نکل گئی۔ میری بیگم کھانستے ہوئے میرے دروازے پر کھڑے کھڑے بولی سو جاؤ بڑے میاں۔ کیوں آدھی رات کو سب کی نیند خراب کرنے لگے ہو۔ میں نے وحشت سے پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھا تو اس کا دل پسیجا۔ ٹشو پیپر اٹھا کر میری رال کو صاف کیا۔ اور بولی خیر ہے۔ کچھ نہی ہوا سو جاؤ۔ میں اسے تکتا رہا۔

اتنے میں میری سب سے چھوٹی بیٹی۔ جو اب بیرون ملک سائیکالوجی پڑھ رہی ہے اور چھٹیوں پر ہماری طرف آئی ہوئی ہے۔ بھاگتی ہوئی کمرے میں آئی۔ اپنی ماں سے پوچھا۔ بابا کی چیخ تھی؟ ماں بولی، ہاں۔ یہ کبھی گھبرا جاتے ہیں تو نیند اکھڑ جاتی ہے۔ تب تک وہ میرے قریب آ چکی تھی۔ میرے چہرے پر اپنا نرم نرم سا ہاتھ رکھ کر بولی۔ بابا، ولف سے ڈر گئے تھے۔ میں نے پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھا کہ اسے کیسے پتہ چلا۔

وہ اپنی امی سے بولیں۔ امی آپ سو جائیں۔ میں بابا کے ساتھ ہوں۔ پھر میرے بیڈ پر میرا ہاتھ پکڑ کر بیٹھ گئی۔ بولی بابا، ولف کی اسٹوری سنیں گے؟ میں چونکہ اس کا ساتھ چاہتا تھا۔ میں نے اس لئے نفی میں سر ہلایا کہ نہیں۔ سنوں گا۔ وہ سمجھ گئی اور مسکرا کر بستر پر بیٹھ گئی اور سر میں اپنی پاکیزہ انگلیاں پھیرتے ہوئے بولی۔ بابا۔ brave بنیں۔ آپ نے اس اسٹوری میں ولف کو مار دیا ہے۔ پھر پیار سے اس نے میرے سر کو اپنے کندھے سے لگا دیا، اور بولی۔

میں، بابا اور ماما مارکیٹ جا رہے تھے کہ بابا نے کہا مجھے آئسکریم کھانی ہے۔ میں نے جیسے ہی آئسکریم والے کے پاس شیشہ اتارا تو بابا بولے بیٹو۔ خیال سے یہ تو آئسکریم والا نہیں یہ تو گندہ ولف ہے۔ میں نے بیٹی کے کندھے پر پڑے سر کو آنکھیں بند کرنے پر مجبور کیا۔ یہ رال بھی عجیب چیز ہے۔ منہ بند ہو تو آنکھوں سے بہہ جاتی ہے۔

Check Also

Balay

By Mubashir Ali Zaidi