Thursday, 18 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Nasir Abbas Nayyar/
  4. Main Kis Se Panah Maangun?

Main Kis Se Panah Maangun?

میں کس سےپناہ مانگوں؟

مُلا شمس الدین کچھ مہینوں سے اپنے دل میں غضب اور تخیل میں فساد محسوس کررہے تھے۔ ان کا دل کسی شے کی طرف ایک پل کے لیے نہیں کھنچتا تھا، الٹا اس میں طیش اور وحشت کے بگولے اچانک اٹھتے۔

وہ محسوس کرتے کہ وہ اکیلے ہیں اورلوگوں سے ان کی شناسائی سراسر وہم تھی۔ وہ کسی سے آشنا تھے نہ کوئی ان کا رفیق تھا۔ وہ کسی بیابان کا رخ کرنے کے لیے سخت مضطرب ہوجاتے۔ گھر اور مسجد دونوں جگہوں پر، وہ خود کو کسی ان دیکھی شے کے قابومیں محسوس کرتے اور خود کو اس سے الجھتا محسوس کرتے۔

ان کے دماغ میں حرارت بھر جاتی اور تخیل میں آتشیں ہیولے بننے لگتے اور ان کی کھوپڑی سے باہر نکلے کے لیے زور آزمائی کرتے۔ ان کا جسم تپنے اور سر چکرانے لگتا۔ انھیں دیوار کا سہارا لینا پڑ جاتا۔

انھیں لگتا، ان کے قلب کی آنکھیں جیسے بینائی سے محروم ہوتی جارہی ہیں۔ وہ اب تک جس روشنی، حکمت، اور اطمینان سے سرفراز تھے، وہ ان سے چھین لی گئی ہے۔ انھیں یقین تھا کہ وہ کسی گناہ کی سزا جھیل رہے ہیں مگرکوشش کے باوجود وہ یا دنہ کرسکتے کہ وہ کیا گناہ تھا۔

یہ حالت ان پر مسلسل طاری رہتی، وہ خوابوں میں بھی عجب صورتیں دیکھتے، تاہم عصر کے بعداس حالت میں شدت پیدا ہوتی اور عشا تک رہتی۔ مغرب اور عشا کی نمازوں کی امامت ان کے لیے کڑا امتحان بنتی جارہی تھی۔ عین نماز کے دوران، ان پر بے دلی اور ویرانی، گھنے سیاہ بادل کی مانند چھا جاتی اور ان کی زبان لڑکھڑانے لگتی۔ وہ خود پرمشکل سے قابو پاتے۔ نماز کے بعد دعا کرواتے ہوئے ان پر گریہ طاری ہوجایا کرتا۔ کئی نمازیوں کی آنکھیں بھی بھیگ جایا کرتیں۔

لوگ ان سے دینی اور فقہی مسائل دریافت کرنے سے لے کر دعا کروانے آتے، اور ان میں سے اکثر کی مردایں پوری ہوتیں تو انھیں تحائف اور سوغاتیں بھی پیش کرتے، مگر مُلاکا باطن عجب ویرانی، غضب، وحشت، جنون، اضطراب جیسے عجیب اور متضاد جذبات محسوس کیا کرتامگر وہ کسی سے اس کا ذکر تک نہ کرسکتے۔

دو ہفتے پہلے، ان کے استاد مولانا وجیہ الدین ان کی مسجد میں تشریف لائے۔ مغرب سے پہلے انھوں نے ان کی حالت میں تغیر محسوس کیا۔ ان سے خلوت میں ملاقات کی۔ مُلا اپنی حالت بتاتے ہوئے روہانسے ہوگئے۔ مولانا نے توجہ سے ان کا حال سنا، اور کہنے لگے:

"میں جانتا ہوں کوئی شخص اپنی زبان سے اپنا پورا حال بیان نہیں کرسکتا، اس لیے وہ خود اور دوسرے اس کے حال سے پوری طرح واقف نہیں ہوسکتے۔ ہم اپنے اور دوسروں کے بارے میں محض اندازے لگاتے عمر بسر کردیتے ہیں۔ کبھی اندازے درست، کبھی غلط ہوتے ہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ تمھیں دوسری شادی کی ضرورت ہے"۔

مُلا شمس الدین نے وحشت زدہ آنکھوں سے انھیں دیکھا۔

" تمھاری پہلی بیوی آٹھ سال پہلے دنیا سے گزرگئی۔ تم اب سِن کہولت میں ہو۔ پچاس سال کے ہونے وا لے ہو۔ سنِ وقوف سے سنِ کہولت میں داخل ہونا، ایک جانی پہچانی بستی سے، ایک ویرانے میں پہنچنے کے مترادف ہے۔ سنِ وقوف کی تنہائی دل کو بھلی لگتی ہے، سنِ کہولت کا اکیلا پن روح کو کاٹتا ہے۔ النکاح من سنتی"۔

"اب باقی عمر ہی کتنی رہ گئی ہے؟"مُلا شمس الدین کے لہجے میں مایوسی تھی۔ اسی لمحے مُلا کو اپنی پہلی بیوی یاد آئی، جو پہلے بچے کو جنم دیتے ہوئے چل بسی تھی۔ مُلا کو وہ بچہ بھی یاد آیا جو اگلے دن گزر گیا۔ اسی پل مُلا کو یہ خیال بھی آیا کہ عورت اور مرد ایک دوسرے کے دلوں میں کتنی دور تک جاسکتے ہیں؟

"عمر کا حساب رکھنا تمھارا کام نہیں شمس الدین"۔ مولانا نے انھیں ڈانٹا۔ " تم نے طب جی لگا کر پڑھی ہوتی تو تمھیں اپنے قلب کا غضب اور تخیل کا فساد اچھی طرح سمجھ آجاتا۔ تم جنون سبعی کی طرف بڑھ رہے ہو۔ تم عناصر کی بے اعتدالی کاشکار ہو۔ جملہ اعضا میں قلب سے زیادہ گرم ہے۔ حکما کے مطابق، قلب اس لیے گرم ہے کہ روح کا مرکز و معدن ہے۔

قلب خون کو لطیف بناتا ہے اور اسے روح میں تبدیل کرتا ہے۔ تم میں آتش و باد کی کثرت اور خاک و آب کی قلت ہے۔ اس سے تمھاری قوتِ نفسانیہ ا شیا کا صحیح ادراک کرنے میں خطائیں کررہی ہے۔ تم قلیل الغذا پر کثیر الغذا کو فوقیت دو۔ تمھارے حواس میں لمس شامل ہی نہیں رہا، لمس تمام حواس کی ماں ہے۔

شمس الدین، لمس سب سے پہلے، سب سے قدیمی اور تمام جانداروں میں واحد مشترک حس ہے۔ تم نے سمع، بصر، شم، ذوق سے محروم لوگ اور جاندار دیکھے سنے ہوں گے مگر لمس سے نہیں"۔ مولانا وجیہ الدین نے مُلا کا ہاتھ اپنے رعشہ زدہ ہاتھوں میں لیا، دبایا اور پھر ان کے لیے دعا کی اور رخصت ہوئے۔

مُلا اپنے استاد کا احترام کرتے تھے۔ ان کی فقہی آراکو قبول کر لیا کرتے تھے، مگر انھیں لگا کہ وہ ان کی روح کی آزردگی کو محسوس نہیں کرسکے۔ ہر روح کی اپنی آزردگی ہوا کرتی ہے، اور اسی کے ذریعے وہ آدمی کو اپنے خالق سے خالص انفرادی اور سچا باطنی تعلق قائم کرنے کی تحریک دیتی اور راہ سمجھاتی ہے۔

اپنی بیوی اور بچے کی موت نے مُلا کو پہلے تشکیک کا شکا ر کیا تھا، اسے لگا کہ خالق اپنی مخلوق کی آزمائش کرتا ہے، اس کا دکھ محسوس نہیں کیا کرتا۔ جس نے ایک یتیم کے طور پر ایک مدرسے میں پرورش پائی ہو، جس کی بیوی عین جوانی میں، بچہ بس دوروز بعد گزرگیا ہو، وہ رات کو جب اکیلا ہوتا ہے، اس کی آنکھوں سے دریا بہتا اورقلب ایک ریگستان ہوتا ہے، وہ شکوے بھرے دل سے سوچتا ہے: اسےاس حالت کو کس نے پہنچایا اور کیوں؟ اتنی کڑی آزمائش کیوں؟

آزمائش کا یہ کھیل کیسا ہے کہ آدمی کو بس اس میں دھکا دے دیا گیاہے، اس کی منشا معلوم کیے بغیرکہ وہ اس کھیل میں شامل ہونا چاہتا بھی تھا کہ نہیں؟ تشکیک اور شکوے نے مُلا کو مزید دکھی کردیا تھا۔ ایک رات مُلا نے تہجد کے وقت طویل سجدہ کیا، اور دیرتک گریہ کیا۔

مُلا نے محسوس کیا کہ ان کے دل نے خودکو اللہ کے سپرد کردیا ہے، اور وہ اپنی تقدیر پر راضی ہے۔ انھو ں نے اپنے دل کو تشکیک اور شکوے سے خالی اور شکر سے لبریز پایا۔ اب آٹھ سالوں بعد، ان کا دل اور طرح کی ویرانی اور وحشت کا شکار تھا۔ مُلا نے کئی راتوں تک اسی طرح طویل سجدے کیے اور مسلسل گریہ کیا مگر دل کی حالت میں کوئی فرق نہ آیا۔ تاہم مُلا کو یقین تھا کہ ان کی وحشت وویرانی، غضب وفساد کا علاج، چاروں عناصر سے ماورا، جملہ عناصر کے مبدااوّل میں ہے جو انسانوں پر اپنے اسما سے ظاہر ہے۔

Check Also

Sarmaya Minton Se Nahi Aata

By Javed Chaudhry