Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Javed Chaudhry/
  3. Bakray Nahi Chala Saken Ge

Bakray Nahi Chala Saken Ge

بکرے نہیں چلا سکیں گے

مالٹا کے جنوب میں سسلی، مشرق میں تیونس اور شمال میں لیبیا واقع ہے، مالٹا کا رقبہ صرف 315 مربع کلومیٹر اور آبادی چار لاکھ 29 ہزار ہے یوں یہ یورپ کے مختصر لیکن خوبصورت ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے، یہ ملک یورپ میں ہونے کے باوجود پاکستان کے ساتھ ایک دلچسپ رشتے میں بندھاہوا ہے، یہ رشتہ آپ کو بھی حیران کر دے گا، مالٹا نے 1971ء میں اپنی ائیر لائین بنانے کا فیصلہ کیا، البرٹ میزی کو منصوبے کا چیئرمین بنایا گیا، میزی نے سول ایوی ایشن اور ائیر لائین تشکیل دینی تھی، انٹرنیشنل ٹینڈر ہوا۔

ہماری پی آئی اے ایشیا کی سب سے بڑی اور کامیاب ائیر لائین تھی، پی آئی اے نے ٹینڈر بھر دیا، مالٹا کو یورپ، مشرق بعید اور امریکا کی کمپنیوں کی طرف سے بھی کاغذات موصول ہوئے تھے، بورڈ نے پڑتال کی، امریکا، یورپ اور مشرق بعید کے ٹینڈرز مسترد کیے اور پی آئی اے کو سلیکٹ کر لیا، پی آئی اے نے مالٹا کے ساتھ ائیر لائین پارٹنر شپ کی اور صرف ایک سال میں ائیر مالٹا کے نام سے یورپ میں ایک شاندار ائیر لائین کھڑی کر دی، ائیر مالٹا 31مارچ 1973ء کو بنی اور پی آئی اے نے یکم اپریل 1974ء کو اس کا پہلا طیارہ ٹیک آف کرا دیا۔

پاکستانی ماہرین نے اس ایک برس میں مالٹا کی سول ایوی ایشن بنائی، ائیرپورٹس کو یورپین لُک دی اور ائیر لائین کو بھی آپریشنل کر دیا، آج ائیر مالٹا یورپ کی کامیاب اور منافع بخش ائیر لائینز میں شامل ہے، یہ یورپ، افریقہ اور امریکا کو بھی کور کرتی ہے اور اس کی فلائیٹس مشرق بعید بھی جاتی ہیں، ائیر مالٹا کو 43 برس ہو چکے ہیں، مالٹا کے لوگوں نے ان 43 برسوں میں پی آئی اے کا احسان یاد رکھا، مالٹا دنیا کا واحد ملک ہے جس نے پی آئی اے کو اپنے تعلیمی سلیبس میں شامل کر رکھا ہے، یہ لوگ آج بھی ساتویں جماعت کے بچوں کو پی آئی اے کی مہربانی پڑھاتے ہیں اور مالٹا کے بچے پی آئی اے پر مضمون لکھ کر آٹھویں جماعت میں جاتے ہیں۔

یہ اس پرانے زمانے کی بات ہے جب پی آئی اے نے پوری دنیا کو حیران کردیا تھا، ہماری قومی ائیر لائین نے اس گولڈن دور میں بے شمار کمالات کیے، اس نے ائیر مالٹا کی طرح سنگا پور ائیر لائین بنائی، کوریا کو سول ایوی ایشن اور ائیر لائین بنانے میں مدد دی، ملائشین ائیر لائین بنائی اور ایمریٹس کی بنیاد رکھی، یہ بات آج کے زمانے میں شیخی محسوس ہوتی ہے کہ ہم نے ایمریٹس کو کرائے پر جہاز بھی دیے تھے اور پائلٹ اور ائیر ہوسٹس بھی، ہم نے دنیا کی پانچ بڑی ائیر لائینز کے عملے کو ٹریننگ بھی دی تھی، آپ کو یہ بات بھی عجیب لگے گی کراچی کبھی ایشیا کا دروازہ ہوتا تھا۔

ایشیا کے 80فیصد مسافر کراچی سے ہو کر یورپ، افریقہ اور امریکا جاتے تھے اور یورپ، افریقہ اور امریکا کے مسافر بھی ایشیا میں داخل ہونے سے پہلے کراچی میں اترتے تھے لیکن وہ شاندار ماضی اور وہ شاندار ائیر لائین آج کہاں ہے؟ آپ اس سوال کا جواب چاہتے ہیں تو آپ سوموار کے اخبارات دیکھ لیجیے یا پھر اتوار 18 دسمبر کو سوشل میڈیا پر "سرکولیٹ" ہونے والی تصاویر دیکھ لیجیے، آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے اسلام آباد ائیرپورٹ پر پی آئی اے کا اے ٹی آر طیارہ کھڑا ہے اور اس طیارے کے سائے میں سیاہ بکرا ذبح کیا جا رہا ہے، یہ بکرا ملتان کی پرواز کا صدقہ تھا۔

پی آئی اے نے چترال سانحے کے بعد اپنے دس اے ٹی آر گراؤنڈ کر دیے تھے جس کے نتیجے میں پی آئی اے کی 180 فلائیٹس منسوخ ہوگئیں اور ادارے کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا، قومی ائیر لائین نے طیاروں کی پڑتال کی، طیاروں کو "فٹ فار فلائیٹ" ڈکلیئر کیا اور اتوار 18 دسمبر کو ملتان کے لیے پہلی فلائیٹ روانہ کر دی لیکن فلائیٹ کی روانگی سے قبل کافروں کے بنائے طیارے کی روحانی حفاظت کے لیے احتیاطاً کالے بکرے کا صدقہ بھی دے دیا یوں پی آئی اے کو ایک اور اعزاز حاصل ہوگیا۔

یہ دنیا کی پہلی ائیرلائین بن گئی جس نے طیارے چلانے، اڑانے اور اتارنے کے لیے سیاہ بکروں کی مدد لی، ہمیں یہ نسخہ اب ان تمام ائیر لائینز کو بھی "پاس آن" کر دینا چاہیے جن کی بنیاد ہم نے رکھی تھی اور جنہوں نے ہمارے فضائی ماڈل کو اپنے بچوں کے سلیبس میں شامل کیا تھا، ہمیں ان ممالک کو بھی یہ اطلاع کر دینی چاہیے کہ ہم پروفیشنل ازم میں چند قدم مزید آگے نکل آئے ہیں، ہم نے اب کالے بکروں کے ذریعے بھی جہاز اڑانے اور اتارنے کا طریقہ ایجاد کر لیا ہے چنانچہ آپ بھی اب اپنی "ایس او پیز" میں کالے بکرے شامل کر لیں، آپ کی ائیرلائین اور آپ کے جہاز بھی محفوظ ہو جائیں گے۔

کیا ہم پاگل ہیں یا پھر دنیا بے وقوف ہے!دنیا میں روزانہ ایک لاکھ فلائیٹس اڑتی ہیں، دنیا میں پانچ ہزار ائیر لائینز ہیں اور ان میں اسلامی دنیا کی چارسو ائیر لائینز بھی شامل ہیں، اے ٹی آر فرانس اور اٹلی کی مشترکہ پیداوار ہے اور کمپنی اب تک1500 اے ٹی آرز فروخت کر چکی ہے، پاکستان کے پاس صرف دس جہاز ہیں اور یہ تعداد شرح میں اعشاریہ چھ فیصد بنتی ہے، دنیا میں 1477 اے ٹی آر صدقے کے بغیر اڑ اور اتر رہے ہیں۔

دنیا بھر کی پانچ ہزار ائیر لائینز بھی صدقوں کے بغیر چل رہی ہیں اور دنیا میں روزانہ ایک لاکھ فلائیٹس بھی کالے بکروں کی قربانی کے بغیر اڑتی اور اترتی ہیں، یہ صرف ہم ہیں جن کے دس جہازوں کو اڑنے کے لیے بکروں کی ضرورت ہے، کیوں؟ شاید ہم آج بھی یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ ٹیکنالوجی کے لیے مہارت اور پروفیشنل ازم کی ضرورت ہوتی ہے، بکروں اور صدقوں کی نہیں، ہم یہ سمجھنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں کہ چترال کی فلائیٹ میں جنید جمشید جیسا نیک اور پارسا شخص بھی سوار تھا لیکن اس کی تمام تر نیکی اور پارسائی کے باوجود وہ فلائیٹ حادثے کا شکار ہوئی۔

فلائیٹ کو اگرجنید جمشید کی پارسائی نہیں بچا سکی تو پھر کالے بکرے جہاز کی کہاں تک حفاظت کریں گے، صدقہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے، میں دل سے اس سنت کو تسلیم بھی کرتا ہوں اور اس پر عمل بھی، بے شک صدقہ بلائیں ٹال دیتا ہے لیکن نالائقی، نااہلیت اور غفلت تین ایسی بلائیں ہیں جو صدقے اور خیرات کے قابو بھی نہیں آتیں، آپ غزوہ احد کا مطالعہ کر لیجیے، مسلمان احد کے میدان میں چند لمحوں کے لیے غافل ہوئے تھے، کیا نتیجہ نکلا؟ جانیں بھی گئیں اور زخم بھی اٹھائے۔

یہ صرف غفلت کا نتیجہ تھا۔ آپ اس سے نااہلی اور نالائقی کے نتائج کا اندازہ کر سکتے ہیں، یہ دنیا عالم اسباب ہے، اس میں سبب کے بغیر گزارہ ممکن نہیں اور سبب یہ کہتا ہے آپ جب تک تکنیکس اور آرگنائزیشن میں بہتر رہیں گے دنیا آپ کی قدر کرتی رہے گی، یہ آپ کو اپنے سلیبس میں بھی شامل کر لے گی لیکن جب آپ کی آرگنائزیشن میں سوراخ ہو جائیں گے یا آپ تکنیکی اعتبار سے کھوکھلے ہو جائیں گے توآپ کو اے ٹی آر جیسے محفوظ طیارے اڑانے کے لیے بھی صدقوں کی ضرورت پڑ جائے گی، آپ جہازوں کے سامنے کالے بکرے ذبح کرنے پر مجبور ہو جائیں گے اور دنیا کالے بکروں کی تصویریں دیکھ کر قہقہے لگائے گی۔

ہمیں سنبھلنا ہوگا، ہمیں اپنی غلطیوں کا ادراک کرنا ہوگا، ہمیں ماننا ہوگا پی آئی اے جیسا غریب اور تباہ حال ادارہ اٹھارہ ہزار سفید ہاتھیوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا، ہمیں ماننا ہوگا سرکاری ادارے سیاسی بھرتیوں کا قبرستان ہیں اور یہ قبرستان قبروں میں اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں، آپ المیہ دیکھئے ہمارے محکمہ ڈاک میں 49 ہزار502 ملازمین ہیں، یہ 50 ہزار لوگ مل کر 13 ہزار ڈاک خانے نہیں چلا پا رہے ہیں جب کہ اس کے مقابلے میں ٹی سی ایس میں صرف 12 ہزار ملازمین ہیں، یہ کمپنی جہاز خرید رہی ہے اور ہماری پوسٹل سروس کی سائیکلیں تک بک رہی ہیں، پی ٹی وی میں سات ہزار ملازمین ہیں۔

قوم ان ملازمین کو بجلی کے بلوں کے ذریعے پال رہی ہے، اسٹیل مل کے 16 ہزارملازمین ہیں جب کہ خسارہ اورقرضہ 400 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے، پاکستان ریلوے میں 78 ہزار ملازمین ہیں لیکن ملک میں تین برسوں میں ریلوے کے 300 حادثے ہوچکے ہیں، ریلوے سے دس ٹرینیں نہیں چل رہیں لیکن بے ایمانی کے 78 ہزار انجن دھڑا دھڑ چل رہے ہیں، کیوں؟ ہم نے کبھی سوچا! ہمیں حماقتوں کے غبار سے نکلنا ہوگا، ہمیں اپنی کوتاہیوں اور اپنی خامیوں کو ماننا ہوگا۔

ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا نااہلی ایسی بلا ہے جسے کالے بکروں کے ذریعے نہیں ٹالا جا سکتا، ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا اداروں کو پروفیشنل ازم کی ضرورت ہوتی ہے، ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا ادارے اگر صدقوں سے چل سکتے تو دنیا بھر کی ائیر لائینز پائلٹوں کے بجائے قصائی بھرتی کرتیں اور آسمان کی بلندیوں کو چھو لیتیں اور ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا اگر عیسائیوں کو ویٹی کن، یہودیوں کو یروشلم اور مسلمانوں کو مکہ مدینہ میں پروفیشنل ٹیموں کی ضرورت ہے تو پھرہم پی آئی اے بھی بکروں اور صدقوں سے نہیں چلا سکیں گے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Shah e Iran Ke Mahallat

By Javed Chaudhry