Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Irshad Ahmad Arif/
  3. Ghalti Ki Gunjaish

Ghalti Ki Gunjaish

غلطی کی گنجائش نہیں

سازشی کہانیاں ہر سو پھیلی ہیں اور حکمرانوں کو خطرناک مستقبل سے ڈرایا جا رہا ہے۔ دسمبر میں مائنس ون، ان ہائوس چینج اور مارچ میں عام انتخابات کی باتیں افواہیں، قیاس آرائی یا واقعی مصدقہ اطلاع؟ وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے زمینی حقائق برعکس ہیں مگر یہ پاکستان ہے بسا اوقات جہاں افواہیں اور قیاس آرائیاں حقیقت کا روپ دھار لیتی ہیں اور دیکھتے دیکھتے حقیقت خرافات میں کھو جاتی ہے۔ فی الوقت حالات اگرچہ ان سازشی کہانیوں کی تائید کرتے ہیں نہ اداروں کا طرز عمل حکومت کے حوالے سے مخاصمانہ تو دور کی بات ہے، ناسازگار نظر آتا ہے۔ میاں نواز شریف بغرض علاج بیرون ملک جا چکے ہیں، باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں، مریم نواز شریف مراقبے میں ہیں اور خاموشی کا روزہ طویل ہوا تو خوش گمانیوں کی عمارت زمین بوس ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ مولانا فضل الرحمن کے بیانات اور ہمنوائوں کے تجزیوں پر اب کوئی معقول شخص سنجیدگی سے غور کرنے کو تیار نہیں کہ آزمودہ را آزِمودن۔ جہل است۔ اتفاق سے مائنس ون، ان ہائوس چینج اور مارچ میں نئے انتخابات کی باتیں وہی لوگ کر رہے ہیں جو آزادی مارچ کی کامیابی کا ڈنکا بجا رہے تھے۔ مولانا فضل الرحمن نے تو ڈیرہ اسماعیل خان کی نشست کے ذریعے پارلیمنٹ میں واپسی کی پیشکش کا دعویٰ کر کے ڈھول کا پول کھول دیا ہے، ملک میں بڑے پیمانے پر تبدیلی اور حکومت کے خاتمے کا ایجنڈا لے کر میدان میں اُترنے والے مذہبی سیاستدان کو اگر ایک نشست اور بلوچستان حکومت میں شمولیت کی پیشکش ہوئی اور وہ اس کا اعلان فرما رہے ہیں تو شرمندگی کی بات ہے، فخر کی نہیں۔

پبلک اکائونٹس کمیٹی کی سربراہی سے میاں شہباز شریف کا استعفیٰ اس بات کا اشارہ ہے کہ اب پارلیمنٹ میں معاملات خوش اسلوبی سے چلیں گے اور فوری تبدیلی کی خواہش دن میں خواب دیکھنے کے مترادف ہے۔ کوئی احمق ہی یہ سوچ سکتا ہے کہ ایک دو ماہ بعد سیاسی صورتحال میں ڈرامائی، تبدیلی آنے والی ہو اور میاں نواز شریف اپنے برادر خورد کے ساتھ طویل عرصہ قیام کے لئے رخت سفر باندھ لیں اور میاں شہباز شریف پبلک اکائونٹس کمیٹی کی سربراہی سے مستعفی ہو جائیں۔ امکانی طور پر پبلک اکائونٹس کمیٹی کی سربراہی رانا تنویر کریں گے جو خواجہ آصف اور احسن اقبال کی طرح میاں شہباز شریف کے ہمنوا ہیں اور مریم نواز و پرویز رشید کے بیانیے سے نالاں۔ گویا فرینڈلی اپوزیشن کی تشکیل یا پھر مسلم لیگ(ن) میں تقسیم کا عمل فطری انداز میں آگے بڑھ رہا ہے۔

حکومت کے لئے سازگار حالات کا مطلب ہرگزیہ نہیں کہ وہ نالائقوں کی نشو و نما اور نااہلی کے ریکارڈ قائم کرنے میں آزاد ہے، کمزور، منقسم اور مجبور اپوزیشن حکومت کی ذمہ داریوں بلکہ آزمائش میں اضافہ کرتی ہے اور پرفارمنس و ڈلیوری کا مطالبہ زور پکڑتا ہے۔ عمران خان ریاست مدینہ کی بات کرتے اور ہر جگہ اللہ تعالیٰ و رسول اکرم ﷺ کے فرامین کا حوالہ دیتے ہیں معلوم نہیں انہیں کسی نے بتایا یا نہیں کہ اقتدار انسان کو بطور انعام ملتا ہے یا بغرض آزمائش و امتحان، جو سلیم الفطرت لوگ اسے امتحان سمجھتے اور اس امتحان سے سرخرو ہونے کے لئے مخلصانہ کدوکاوش کو شعار کرتے ہیں، جواقتدار و اختیار کو امانت جان کر حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں مگن ہو جاتے ہیں حکمرانی ان کے لئے انعام بن جاتی ہے مگر جو اسے انعام سمجھ کر خرمستیاں کریں انہیں امتحان اور آزمائشوں کا دریا پار کرنا دشوار ہو جاتا ہے ؎

ایک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا

عوام نے موجودہ حکومت کا سوا سال جس طرح گزارا، وہی جانتے ہیں، مافیاز کی ملی بھگت، بیورو کریسی کا عدم تعاون اور ٹیم کی ناتجربہ کاری اپنی جگہ مگر عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے بھی زیادہ تر وقت نعرے بازی میں گزارا اور قدرت نے مضمحل اپوزیشن، پرجوش تعاون پر آمادہ اسٹیبلشمنٹ اور سازگارعلاقائی و عالمی حالات کی صورت میں جو موقع عطا کیا اس سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ مخلوط حکومت کی مجبوریاں اپنی جگہ لیکن عمران خان کو یہ نسخہ کس حکیم حاذق نے لکھ کر دیا کہ اپنے پرانے ساتھیوں میں سے بھی چن چن کر ان لوگوں کو آگے لایا جائے جن میں سے بعض کا اخلاقی کردار کمزور ہے کچھ نیب کو مطلوب اور چند دوہری شہریت کے حامل۔ زلفی بخاری کسی نے باہر سے مسلّط کیا نہ نعیم الحق کا انتخاب مجبوری کے تحت ہوا اور نہ وزیر اعظم ہائوس کی بدنامی کا باعث بننے والے دیگر کردار ورثے میں ملے، پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے بارے میں جو کہانیاں بیورو کریسی اور پارلیمنٹ میں گشت کرتی ہیں ان کا اگر دس بیس فیصد درست ہے تو انجام معلوم۔ میڈیا کے ساتھ جو سلوک اس حکومت میں ہوا اس کے ذمہ دار قریبی مشیر ہیں جس کا خمیازہ عمران خان کو آزادی مارچ کے موقع پر بھگتنا پڑا۔ عمران خان کی گڈ بک میں شامل کم و بیش سارے ہی اینکر، تجزیہ کار اور صحافی مولانا کی بلائیں لیتے اور حکومت کی رخصتی کی تاریخیں دیتے نظر آئے۔ اپنے حامی اور خیر خواہ میڈیا کو جتنی جلد موجودہ حکمرانوں نے مخالفین کی صف میں دھکیلا، اس کی کوئی مثال ماضی میں نہیں ملتی، یوں لگتا ہے کہ عمران خان میڈیا سے بدلہ چکانے کا ایجنڈا لے کر اقتدار میں آئے اور اس کی سرکوبی کے بعد ہی وہ ملک و قوم اور اللہ تعالیٰ کے حضور سرخرو ہو سکتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ ان مشیروں اور معاونین کا کمال ہے جو سوا سال سے عمران خان کی مونچھ کا بال ہیں اور حکومت کو رسوا کرنے کے مشن پر کاربند۔

آزادی مارچ کی ناکامی، شریفوں کی بیرون ملک منتقلی اور معیشت میں قدرے استحکام سے حکومت کو اطمینان کا سانس لینے کا موقع ملا ہے۔ اگر عمران خان اگلے سال دو تہائی اکثریت لینے کے لئے وسط مدتی انتخابات کا ارادہ رکھتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ اس سے متفق ہے تو پھر ضروری ہے کہ وہ گڈ گورننس کو یقینی بنائیں، مہنگائی کی روک تھام اور عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں میں تیزی لائیں اور فرینڈلی میڈیا کے لئے ٹھوس اقدامات کریں، یہ اہداف حاصل کرنے کی بنیادی شرط ٹیم میں تبدیلی ہے، ایسے مشیروں سے فی الفور نجات ضروری ہے جو عمران خان کو میڈیا، اسٹیبلشمنٹ اور بلا تخصیص پوری اپوزیشن سے لڑانے کے مشن پر ہیں اور معلوم نہیں کس کس کے پے رول پر۔ اگر اپوزیشن اور میڈیا کے ایک حصے کی طرف سے پھیلائی جانے والی افواہوں میں تھوڑی بہت صداقت ہے تو ان مشیروں کی نشاندہی اور رخصتی، تقاضا عقل و دانش ہے جو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے میں ملوث ہیں، سول اور خاکی کے مابین بہترین تعلقات کار کا تاثر سیاسی استحکام اور قومی ترقی کا ضامن ہے اور باہمی مشاورت سے خوشحالی کے سنگ میل عبور کئے جا سکتے ہیں۔ شریف اور زرداری دور میں زیادہ تر خرابی اسلام آباد اور راولپنڈی کے مابین بدگمانیوں کے سبب پیدا ہوئی اور جو عناصر دوبارہ اختلافات کی خلیج پیدا کر نے کے درپے ہیں وہ ملک قوم کے خیر خواہ نہیں، جہاں اسٹیبلشمنٹ کے اہم ستونوں کویہ سوچنا چاہیے کہ اس وقت ربط و ضبط میں کمی اس کے مفادمیں نہیں، دشمنوں کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ ادارے ایسی حکومت کو چلنے نہیں دیتے جسے اپوزیشن کے بقول ریاضت اورخوش دلی سے لایا گیا وہاں عمران خان اور ان کے ساتھیوں کا بھی فرض ہے کہ وہ نواز شریف کی طرح خواہ مخواہ بدگمانی اور تصادم کے راستے پر چل کر اپنی اور خان کی منزل کھوٹی نہ کریں اور مشکلات و رکاوٹوں کا خاتمہ حسن تدبیر سے کیا جائے، دیوارسے سر پھوڑ کر نہیں۔ بہترین کارگزاری، اہلیت و صلاحیت، خلوص نیت اور دانش مندی وہ رخت سفر ہے جو منزل تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے اور سازشوں، ریشہ دوانیوں سے نمٹنے کی واحد تدبیر بھی یہی ہے۔ آگے تیرے بھاگ لچھئے۔

Check Also

Zara Bhoolna Seekhen

By Javed Ayaz Khan