Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Sarfaraz/
  4. Kun Fayakoon (3)

Kun Fayakoon (3)

کُن فیکون (3)

سورۃالحج اور سورۃ المعارج میں تو وقت کا کونسپٹ بڑی وضاحت کے ساتھ بدلنے کی فطرت رکھتا ہوا نظر آتا ہے۔ سورۃالحج کے مطابق تمہارے رب کے نزدیک ایک دن تمہارے ایک ہزار سال کے برابر ہے یا پھر سورۃ المعارج کے مطابق فرشتے اور روح ایک ایسے دن میں اس کی طرف بڑھتے ہیں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔ اب کہیں ایک دن ایک ہزار سال کے اور کہیں ایک دن پچاس ہزار سال کا۔

یہ تو بڑی ایڈونس لیول کی کتاب ہے جو وقت کے کونسیپٹ کو اتنی وضاحت کے ساتھ بتا رہی ہے۔ ورنہ باقی کسی مذہب میں وقت کی اس طرح سے کوئی تشریح نہیں ملتی ہے تو پھر تو ہمیں کائنات کی تخلیق کے حوالے سے قرآن پاک سے مزید رہنمائی لینی چاہئے۔ سورۃالانعام کی بالکل پہلی آیت ہے کہ تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے کہ جس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا اور روشنیوں اور اندھیروں کو بنایا۔۔ یہ ایک حیرت انگیزحد تک قیمتی آیت ہے کیونکہ اگر تم دیکھوتو اس میں ایک سے زیادہ آسمان بننے اور اندھیروں کے بننے کا ذکر ہے۔

بھلا سو چو عبدالرحمن، یہ اندھیرا کیسے بنتا ہے؟ عام الفاظ میں تو اندھیرا روشنی کے نہ ہونے کا نام ہے The absence of light is called the darkness اور پھر آسمانوں اور زمین بنانے کے لیے خلق کا لفظ اور اندھیروں او ر روشنیوں کو بنانے کے لیے جعل کا لفظ؟ ایسا کیوں؟ اور شاید سب سے اہم سوال کہ یہ سب بنانے والی ہستی اللہ کون ہے؟

سب سے پہلے اندھیرے کا معاملہ سمجھتے ہیں۔۔

سترہویں صدی میں ایک جرمن اسٹرانومرWilhelm Matthias Olbers نے ایک سوال کھڑا کیا جسے آج ہم آلبرز پیرڈاکس کہتے ہیں۔ اس نے کہا کہ اگر تو یہ کائنات لا محدود ہے اور یہ ہر طرف ایک جیسی پھیلی ہوئی بھی ہے تو رات کا آسمان اس موجودہ آسمان سے کہیں زیادہ روشن ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہے یوں لگتا ہے کہ جیسے کوئی چیز ان روشنیوں کو ڈھانپے ہوئے ہے۔ چھپائے ہوئے ہے۔ شایدکوئی سیاہ چیز۔ آج تین سو سال ہو گئے ہیں لیکن آلبر کے اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب سامنے نہیں آیا۔ البتہ مجھے اس کا جواب سورۃالشمس میں ملتا ہوا محسوس ہوتا ہے کہ قسم ہے رات کی کہ جب اسے ڈھانپ لے۔۔

تمہیں نہیں لگتا کہ یہ تو بڑی ایڈوانس لیول کی کتاب ہے اور دل میں مزید خواہش پیدا ہوتی ہے کہ تخلیق کے راز جاننے کے لیے اس کتاب کو مزید explore کیا جائے اور اگلا مرحلہ ہے آسمان کو سمجھنے کا کیونکہ بالاخر انسان کا آسمان سے بڑا ہی گہرا اور بڑا ہی پرانا تعلق ہے۔۔ ہم صدیوں سے آسمان کی طرف دیکھتے چلے آئے ہیں۔۔ یہاں تک کہ جس شخص کو آسمان کی گرج پسند ہوں اسے ہم نے نیفو فائل nephophile کا نام دے دیا۔ جسے اس آسمان سے آنے والی بارش پسند ہوں اسے پلویو فائل Pluviophile بولتے ہیں۔ جسے رات کا آسمان اور اس کے ستارے بہت پسند ہوں اسے ہم اسٹرو فائل astrophile کہنے لگے اور جو آسمان اور اس کے چاند سے محبت کرے اسے ہم نے سیرونو فائل Selenophileکا ٹائٹل دے دیا۔

اچھا ایک بات بتاؤ تمہارے خیال میں آسمان کسے کہتے ہیں؟ تم کہو گے کہ اوپر جو نیلا رنگ نظر آتا ہے اسے آسمان کہتے ہیں۔ یا یہ کہو گے کہ بہت دور اوپر جا کر ایک سفید سی چادر ہوگی اسے آسمان کہتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ چلو سرسری طور پر سائنس کے حساب سے دیکھتے ہیں کہ آسمان کیا ہے؟ اب یہ نیلا رنگ تو صرف ہماری فضا ہے اور یہ نیلا اس لیے ہے کیونکہ جب سورج کی سات رنگوں پر مشتمل روشنی ہماری فضا میں داخل ہوتی ہے تو فضا میں موجود گیسز کی وجہ سے نیلا رنگ باقی روشنی سے علیحدہ ہو کر ہر طرف پھیل جاتا ہے کیونکہ نیلے رنگ کی ویولنتھ wavelength سب سے کم ہوتی ہے اور شام کے وقت یہ نیلا ہٹ پھیل کر غائب ہو جاتی ہے لیکن یہ فضاء میں اوپر کہاں تک جاتی ہے؟

سائنس اس کا جواب دیتی ہے۔ یہ ساڑھے 6 میل اوپر تک آپ کو اسی فضاء میں ملے گی اسے troposphere ٹروپوسفیر کہتے ہیں۔ ہماری دنیا کا سارا موسم اسی فضا کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ بادل، بارش، طوفان، بلکہ ہم خود بھی اس میں ہی رہتے ہیں۔ دور دور تک نظر آنے والے بادل بھی اسی میں پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن پھر اس سے اوپر کیا ہے؟ اس سے اوپر آپ کو 31 میل تک ایک موٹی ایک اور تہہ ملے گی جسے Stratosphere سٹراٹوسفیر کہتے ہیں۔ تم نے یقینا مشہور زمانہ اوزون کی تہہ کے بارے میں بھی سنا ہوگا جو سورج کی خطرناک شعاؤں سے زمین کا تحفظ کرتی ہیں وہ بھی اسی تہہ میں پائی جاتی ہے۔

لیکن پھر اس سے اوپر کیا ہے؟ اس سے اوپر 53 میل موٹی ایک اور تہہ ہے جسے میزو سفیر mesosphere کہتے ہیں۔ یہاں پر انسان کے لیے زندگی ممکن نہیں ہے کیونکہ ایک تو یہاں پر درجہ حرارت مائنس 90 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے اور دوسرا یہاں پر ہوا نہ ہونے برابر ہے۔

لیکن پھر اس سے اوپر کیا ہے؟اس سے اوپر مزید ایک تین سو میل موٹی تہہ ہے جسے تھرموسفیر thermosphere کہتے ہیں۔ جہاں ہمارے زیادہ تر سیٹلا یٹس دنیا کے گرد گھوم رہے ہیں۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں دنیا کی خوبصورت ترین گہرے سبز رنگ کی روشنیاں پیدا ہوتی ہیں جنہیں ہم اورورا aurora لائٹس کہتے ہیں۔ لیکن اس سے اوپر کیا ہے؟

اس کے بعد ہماری زمین کی وہ حد ہے جسے کارمن لائن Kármán line کہتے ہیں۔ کیونکہ اس کے بعد پھر خلا کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اتنی دور تک پھیلی ہوئی کہ پھر GN-z11 کی روشنی کو بھی ہم تک پہنچنے کے لیے چودہ ارب سال تک سفر کرتے رہنا پڑتا ہے لیکن اس سب کے دوران آسمان کہاں پہ آیا ہے؟

یہاں پر سائنس ہماری کوئی مدد نہیں کرسکتی کیونکہ یہ مقام اس کے علمی دائرے سے باہر ہے یہاں سے آگے کی دنیا کیسی ہے؟آسمان آخر ہے کیسا؟ اور آسمان کے اوپر کیا ہے؟ ان جوابوں کے لیے اب ہمارا علمی source ہے۔ قرآن اور حدیث!

قرآن پاک میں آسمان سے پانی کے اترنے کا ذکر کم سے کم 22 مرتبہ ہے کہ ہم نے آسمان سے پانی اتارا لیکن پانی اتارنے والے بادل تو صرف دو کلومیٹر اونچائی پر ہوتے ہیں اس لئے ہمیں قرآن میں آسمان کی مزید صفات بھی ڈھونڈنی ہوں گی۔ اس لئے کم سے کم تین جگہ آسمان کے محفوظ چھت ہونے کا ذکر بھی ملا۔ پھر دو جگہ اس محفوظ چھت کو تھامے جانے کا بھی ذکر ملا کہ کہیں وہ گر نہ پڑے۔ اب یوں لگتا ہے کہ جیسے آسمان کسی چیز سے ہمارا پروٹیکشن کر رہا ہے۔ ہمیں تحفظ دے رہاہے اور خود آسمان کو بھی تحفظ مل رہاہے کہ کہیں یہ گرنہ پڑے۔ تو پھر کیا یہ آسمان اوزون یا اس جیسی زمین کی حفاظت کرنے والی تہہ میں سے کسی تہہ کا نام ہے؟

شاید ابھی بھی اشارے کافی نہیں ہیں اس لیے آسمان کی مزید صفات ڈھوننے کے لیے ہمیں اس کتاب کو مزید پڑھنا ہوگا۔ پھر تین جگہ پر مجھے سورج، چاند اور ستاروں کا اس طرح سے ذکر ملا کہ وہ بھی آسمان میں موجود ہیں۔ مزید دو جگہ پر مزین کردینے والے ستاروں کے بھی آسمان میں ہونے کا ذکر ملا اور تین جگہ آسمان میں موجود بروج کا ذکر ملا کہ آسمان میں برج بھی ہیں مثلا سورہ حجر کی سولویں آیت یہ بتاتی ہے کہ آسمان میں دیکھنے والوں کے لیے خوبصورت بروج رکھ کر اسے مزین کر دیا گیا۔ یہ ایک زیادہ کون سے بروج ہیں؟ کون جانتا تھا۔۔ لیکن 1995 میں خلاء سے ایک تصویر کھینچی گئی تھی جسے کائنات کی دس خوبصورت ترین تصویروں میں شامل کیا گیا تھا۔ یہ اس قدر خوبصورت تصویر تھی کہ اسے بعد میں بھی کئی مرتبہ کھینچا گیا تین بلند و بالاستونوں جنہیں ان فیکٹ نام بھی تخلیق کے بروج یعنی کہ Pillars of Creation ہی دیا گیا تھا۔

اب کم سے کم یہاں پہنچ کر اتنا ضرور واضح ہو جاتا ہے کہ آسمان بہت اوپر تک پھیلا ہوا ہے۔ سورج، چاند، ستاروں اور بروج کے علاوہ قرآن پاک میں آسمان کی اور بھی صفات ہیں مثلاً آسمان میں پگھلے ہوئے شعلوں کے جلنے اور تیزی سے لپکنے کے اشارے۔ ایسے ستاروں کے اشارے جہاں پوری کہکشائیں گم ہو جائیں اور ان کا پتا نہ چلے۔۔

اس قدر عظیم حیرت قدر اور مزین کردینے والے برج سورج چاند ستارے صرف ہماری اپنی کہکشاں کے تو ہو نہیں سکتے۔ ستارے تودراصل دوسری کہکشاؤں میں بھی موجود ہیں۔ تمہیں تو علم ہوگا کہ ہماری ملکی وے میں چار سوارب ستارے ہیں۔ مگر کیا یہ سارا پھیلاؤ آسمان ہے؟ آخر اس کی بلندی کہاں تک ہے؟

اس بات پر مزید تحقیق کرنے سے چار جگہ مجھے آسمان کی بلندی اور وسعت کے مطلق آیات ملی اور ان میں سے دو تو بڑی واضح آیات ہیں مثلا سورۃ الغاشیہ کی آیت کہ کیا یہ دیکھتے نہیں آسمان کو کس طرح بلند کیا گیا ہے یا پھر سورۃ الزاریات کی آیت کہ آسمان کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے اور ہم ہی اسے پھیلانے والے ہیں۔۔ اب ان تمام آیات کو سامنے رکھنے کے بعد کچھ کچھ اندازہ ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ آسمان کی حدود تو شاید ہمارے اوپر سے ہی شروع ہو جاتی ہے۔۔ لیکن یہ سوال ابھی باقی ہے کہ کیا اس کے پھیلاؤ کی کوئی آخری حد بھی ہے؟ اس کا جواب ہے کہ ہاں اس پھیلاؤ کی بھی ایک حد ہے۔ ایک کنارا ہے جس کے متعلق سورۃ النازیات اور سورہ رحمان میں ہے۔ سور ۃ النازیات کی آیت ہے کہ کیا تمہارا تخلیق کرنا زیادہ مشکل ہے یا آسمان کا؟ اسے اللہ نے بنایا ہے اور اس کی چھت یعنی اس کی بیرونی سطح کو بلند کر دیا ہے اور دوسری آیت تو بڑی قوت والی ہے جس میں ایک کھلا چیلنج بھی دیا گیا ہے۔

Check Also

Muaqaf Ki Talash

By Ali Akbar Natiq