Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Javed Chaudhry/
  3. Penguin Ke Jazeeray Per

Penguin Ke Jazeeray Per

پینگوئن کے جزیرے پر

میلبورن کے مضافات میں تین اٹریکشن تھیں، پہلی ہیلز وِلے (Healesville)کی سینکچری تھی، ہیلز وِلے میلبورن سے ایک گھنٹے کی مسافت پر یارا کے پہاڑی سلسلے میں واقع ہے، یہ گاؤں اپنی سینکچری (چڑیا گھر) کی وجہ سے پورے آسٹریلیا میں مشہور ہے، سینکچری چڑیا گھر ہوتا ہے لیکن یہ ہمارے چڑیا گھر سے مختلف ہوتا ہے، سینکچری میں جانوروں، پرندوں اور مچھلیوں کو قدرتی ماحول میں رکھا جاتا ہے، آپ جوں ہی سینکچری میں داخل ہوتے ہیں محسوس ہوتا ہے آپ جنگل میں آ گئے ہیں اور جنگلی جانور آپ کے دائیں بائیں گھوم پھر رہے ہیں۔

ہیلز وِلے کی سینکچری بھی ایک وسیع جنگل ہے جس میں آسمان کو چھوتے درخت بھی ہیں، گھاس بھی، پھول بوٹے بھی اور جھاڑیاں بھی، جھیلیں بھی اور آبشاریں بھی۔ ہیلز وِلے کے درمیان ایک وسیع اسٹیپی ہے، آپ کو اپنے دائیں بائیں دور دور تک انگوروں کے باغات نظر آتے ہیں، باغات کے ساتھ وائین فیکٹریاں ہیں، وائین فیکٹریوں کے ساتھ گھوڑوں، گائیوں اور بھیڑوں کے باڑے ہیں، دنیا میں چلتی گاڑیوں کے شیشے سے چرتے ہوئے گھوڑے، گائیں اور بھیڑیں دیکھنا ایک شاندار تجربہ ہوتا ہے، آپ سو کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آگے بڑھتے ہیں اور آپ کے ساتھ ساتھ منظر تبدیل ہوتے جاتے ہیں، ڈاکٹر شہباز نے مجھے سینکچری کے گیٹ پر ڈراپ کر دیا، میں اندر داخل ہوا اور مسمرائزڈ ہو گیا، یہ سینکچری جنگل تھی، جانور، پرندے اور آبی مخلوق قدرتی ماحول میں زندگی گزار رہی تھی، سینکچری کے اندر چھوٹی چھوٹی پگڈنڈیاں بنی تھیں۔

ان پر اسکولوں کے بچے اور فیملیزایک سیکشن سے دوسرے سیکشن میں آ جا رہے تھے، سینکچری میں تین دلچسپ چیزیں تھیں، پرندوں کا سیکشن لائف ٹائم تجربہ تھا، بلند و بالا درختوں اور بیلوں کے اوپر لوہے کی جالی لگی تھی، لوگ جالی دار دروازوں سے گزر کر داخل ہوتے تھے اور پرندوں کے عین درمیان کھڑے ہو کر انھیں محسوس کرتے تھے، پرندے ایک درخت سے اڑان بھر کر دوسرے درخت پر جاتے تھے اور آپ انھیں اپنے سامنے اڑتے اور چھلانگ لگاتے دیکھ کر حیران ہوتے تھے، یہ اچھا تجربہ تھا، دوسرا تجربہ آبی پرندوں کا سیکشن تھا، یہ سیکشن چھوٹی سی جھیل پر بنا تھا، یہ جھیل بھی جالیوں سے کور تھی، آپ جالی کا دروازہ عبور کر کے اندر داخل ہوتے تھے اور آبی پرندوں کو چٹانوں پر بیٹھے، پانی میں اترتے اور بھاگتے دوڑتے دیکھتے تھے۔

یہ بھی ایک دلچسپ تجربہ تھا لیکن سینکچری کا سب سے شاندار تجربہ جانوروں کا اسپتال تھا، سینکچری کے عین درمیان اسپتال کی خوبصورت اور جدید عمارت تھی، اسپتال میں باقاعدہ آؤٹ ڈور اور ان ڈور سیکشن تھا، آپریشن تھیٹر بھی تھا اور لیبارٹری اور فارمیسی بھی۔ میں آدھی سے زائد دنیا دیکھ چکا ہوں لیکن میں نے اتنا خوبصورت اور اچھا اسپتال نہیں دیکھا اور وہ بھی جانوروں کا اسپتال۔ اسپتال میں لومڑی کا آپریشن ہو رہا تھا، سرجن اندر آپریشن کر رہے تھے اور اسکول کے چھوٹے بچے شیشے کے ساتھ ناک جوڑ کر یہ آپریشن دیکھ رہے تھے، کاش ہمارے ملک کے حیوانات کے ماہرین یہ سینکچری دیکھیں، یہ اس سے سیکھیں اور پاکستان میں بھی کوئی ایک ایسی سینکچری بنائیں جسے دیکھ کر ہمارے بچے بھی خوش ہوں اور ہم بھی دنیا کو یہ پیغام دے سکیں ہم بھی جانوروں سے پیار کرتے ہیں۔

گمبویا پارک (Gumbuya Park) میلبورن کی دوسری بڑی اٹریکشن تھی، یہ بھی شہر کے مضافات میں ہے اور لوگ دنیا بھر سے یہاں آتے ہیں، ہم کینگروز، کوالا اور لاما دیکھنے وہاں گئے، یہ تینوں جانور صرف آسٹریلیا میں پائے جاتے ہیں، پارک میں کینگروز کا باقاعدہ سیکشن ہے اور آپ اس سیکشن میں داخل ہو کر کینگروز کو نہ صرف چھو سکتے ہیں بلکہ آپ انھیں کھلا بھی سکتے ہیں، کینگرو اللہ تعالیٰ کا عظیم معجزہ ہے، یہ جانور پچھلی دو ٹانگوں پر لمبے لمبے جمپ لگاتا ہے، مادر کینگرو کے پیٹ پر چھوٹی سی تھیلی ہوتی ہے، اس کا بچہ اس تھیلی میں پیدا ہوتا ہے۔

بچہ آہستہ آہستہ بڑا ہوتا ہے، ماں بچے کو تھیلی میں ڈال کر دوڑتی بھاگتی رہتی ہے، بچہ جب تک خود کو سنبھالنے کے قابل نہیں ہوتا یہ اس وقت تک تھیلی کے اندر رہتا ہے، یہ جوں ہی اپنے قدموں پر کھڑا ہو جاتا ہے ماں اسے تھیلی سے باہر نکال دیتی ہے تاہم یہ ابتدائی دنوں میں خطرے یا پریشانی کے عالم میں بچے کو تھیلی میں ڈال کر دوڑ پڑتی ہے، کینگرو کا منہ بکری کی طرح ہوتا ہے، یہ امن پسند جانور ہے اور یہ عموماً چارہ کھاتا ہے، میں نے گمبویا پارک میں زندگی میں پہلی بار کینگرو دیکھے، میں آدھا گھنٹہ ان کے ساتھ کھیلتا بھی رہا، یہ بکری کی طرح ہاتھ پر رکھی خوراک بھی کھا جاتے تھے، یہ بھی اچھا تجربہ تھا، پارک میں لاما کی جوڑی بھی موجود تھی، یہ طویل قامت بھیڑ ہوتی ہے۔

یہ بھی سیاحوں سے کھیلتی ہے تاہم یہ شرارتی جانور ہے، یہ سیاحوں کے ساتھ عموماً ایسا مذاق کرتا ہے جس سے وہ بے چارے عمر بھر کے لیے مذاق بن جاتے ہیں، آپ اسے جو کھلاتے ہیں یہ کھاتا جاتا ہے اور عین تصویر بنانے کے وقت یہ کھائی ہوئی خوراک "پھوں " کر کے کسی نہ کسی پر پھینک دے گا، وہ بے چارہ چیخ مارتا ہے اور لاما خوشی سے ڈانس شروع کر دیتا ہے، کوالا بھی آسٹریلیا کا جانور ہے، یہ دنیا کے سست ترین جانوروں میں شمار ہوتے ہیں، یہ سارا سارا دن سوئے رہتے ہیں، آپ کو کوالا شاذونادر ہی جاگتے نظر آئیں گے، یہ بھی اس پارک میں موجود تھے، پارک سینکچری کی طرح وسیع تھا، وہاں بچوں کے لیے جھولے بھی تھے اور باربی کیو ایریا بھی، لوگ وہاں آتے ہیں اور سارا دن گزار کر چلے جاتے ہیں۔

سینکچری اور گمبویا پارک اپنی جگہ لیکن میلبورن کی اصل اٹریکشن فلپ آئی لینڈ تھا، یہ میلبورن کے مضافات میں ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے، یہ پل کے ذریعے خشکی سے جڑا ہوا ہے، فلپ آئی لینڈ ایک پرسکون ٹاؤن ہے، آپ کو اس کی فضا میں ایک عجیب سی طمانیت کا احساس ہوتا ہے، میلبورن کا پہلا شخص فلپ آئی لینڈ میں آباد ہوا تھا، وہ شخص کیپٹن لاک تھا، کیپٹن لاک کا گھر آج بھی جزیرے میں موجود ہے، یہ اب ہوٹل بن چکا ہے، لوگ کیپٹن لاک کے بیڈ روم میں رہتے ہیں اور ماضی میں چلے جاتے ہیں، یہ جزیرہ میلبورن سے 140 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

یہ 26 کلو میٹر لمبا اور نو کلومیٹر چوڑا ہے، ساحل 97 کلو میٹر لمبا ہے، لوگ کم ہیں، آپ کو وہاں دس ہزار لوگ ملیں گے لیکن سیاح بے شمار آتے ہیں، آپ اگر فلپ آئی لینڈ کے پل پر کھڑے ہو جائیں تو آپ کو سہ پہر کے وقت سیکڑوں گاڑیاں جزیرے میں آتی نظر آئیں گی، یہ لوگ جزیرے میں کیا کرنے آتے ہیں؟ یہ لوگ ایک دلچسپ اور منفرد تجربہ کرنے یہاں آتے ہیں، فلپ آئی لینڈ میں روز غروب آفتاب کے بعد پینگوئن پریڈ ہوتی ہے، جزیرے کے گرد سمندر میں 33 ہزار پینگوئن رہتے ہیں، یہ پینگوئن غروب آفتاب کے بعد پانی سے باہر آتے ہیں، ساحل پر چہل قدمی کرتے ہیں اور چلتے چلتے پہاڑی پر موجود اپنے گھروں میں گھس جاتے ہیں۔

یہ اس لحاظ سے ایک منفرد جگہ ہے، حکومت نے پینگوئن کے ساحل پر ریسرچ سینٹر بنا دیا، ٹکٹ لگایا اور سیاحوں کو پینگوئن پریڈ دیکھنے کا موقع فراہم کر دیا، ٹکٹوں سے حاصل ہونے والی آمدنی پینگوئن کی بہبود اور تحقیق پر خرچ ہوتی ہے، میں اور ڈاکٹر شہباز غروب آفتاب سے قبل جزیرے پر پہنچ گئے، ٹکٹ مہنگے تھے لیکن یہ تجربہ ضروری تھا، سیاحوں کو غروب آفتاب سے چند لمحے قبل ساحل پر لے جایا گیا، ساحل پر اسٹیڈیم بنا تھا، لوگ سیٹوں پر اس طرح بیٹھ گئے جس طرح کرکٹ، ہاکی یا فٹ بال کا میچ دیکھنے کے لیے بیٹھتے ہیں۔

ہماری پشت پر فلڈ لائیٹس تھیں، سامنے ساحل تھا، ساحل پر پانی کی خوفناک لہریں تھیں، درجہ حرارت منفی میں تھا، ساحل پر پھر ایک عجیب واقعہ پیش آیا، سامنے پانی سے چاند نکل آیا، وہ چودھویں رات تھی، میں نے زندگی میں پہلی بار پورے چاند کو سمندر سے طلوع ہوتے دیکھا، آسمان پولوشن سے بھی پاک تھا چنانچہ چاند سورج محسوس ہوتا تھا، وہ جوں جوں اوپر اٹھ رہا تھا وہ مقناطیس کی طرح نظروں کو اپنی طرف کھینچ رہا تھا، چاند جوں ہی پانی سے الگ ہوا وہ دو ہو گیا، ایک چاند آہستہ آہستہ آسمان کی طرف اٹھنے لگا اور دوسرا چاند پانی میں گھلنے لگا، پانی کا چاند لہروں کے ساتھ ساتھ ہمارے قدموں میں ڈولتا تھا، ہمارے سامنے پورا چاند تھا اور پشت پر زہرہ (وینس) سیارہ چمک رہا تھا، یہ رمضان اپنے ساتھ زہرہ لے کر آیا، وینس کا سیارہ زمین سے 261 ملین کلو میٹر کے فاصلے پر ہے، یہ گرم سیارہ ہے اور محبت کی دیوی زہرہ کا گھر کہلاتا ہے۔

یہ 584 دن بعد زمین کے انتہائی قریب آ جاتا ہے، وینس اس رات فلپ آئی لینڈ کے بہت قریب تھا، یہ فلڈ لائیٹس کی طرح نظر آتا تھا چنانچہ منظر کچھ یوں تھا، ہمارے سامنے پوری رات کا چاند چمک رہا تھا، بیک پر وینس کا سیارہ تھا اور ساحل سے ٹھنڈی یخ ہوائیں آ رہی تھیں اور ہم اس تصویر میں خاموش بیٹھے پینگوئن کے آنے کا انتظار کر رہے تھے، پینگوئن بھی اللہ تعالیٰ کی عجیب مخلوق ہیں، یہ پانی اور خشکی دونوں پر زندہ رہتے ہیں، ٹھندے پانیوں کی مخلوق ہیں، گرم علاقوں میں زندہ نہیں رہ سکتے، فلپ آئی لینڈ میں انھوں نے اپنے گھر بنا رکھے ہیں، یہ صبح کے وقت پانی میں چھلانگ لگاتے ہیں اور پانی میں تیرتے ہوئے دور نکل جاتے ہیں، یہ زندگی کا 80 فیصد حصہ پانی اور 20 فیصد خشکی پر گزارتے ہیں۔

یہ زندہ مچھلیاں کھاتے ہیں، یہ پیٹ بھرنے کے بعد زمین پر آ جاتے ہیں اور انسان کی طرح دو پاؤں پر چلتے ہوئے اپنے گھروں میں داخل ہو جاتے ہیں، یہ اس وقت تک گھروں میں رہتے ہیں جب تک انھیں بھوک نہیں لگتی، یہ جوں ہی بھوک محسوس کرتے ہیں، یہ دوبارہ پانی میں اتر جاتے ہیں، یہ گروپ کی شکل میں رہتے ہیں، گروپ کا لیڈر پہلے خشکی پر آتا ہے، یہ دس پندرہ منٹ تک خشکی کا جائزہ لیتا ہے اور یہ جب مطمئن ہو جاتا ہے تو یہ حلق سے تیز آواز نکالتا ہے اور اس آواز کے ساتھ ہی پانی میں موجود پینگوئن ساحل پر آ جاتے ہیں۔

یہ تمام پینگوئن اس کے بعد مٹر گشت کرتے ہیں اور پھر ٹہلتے ٹہلتے اپنے گھروں میں چلے جاتے ہیں، گھروں میں ان کی مادہ یا نر ان کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں، فلپ آئی لینڈ پر 33 ہزار پینگوئن رہتے ہیں، اس رات کتنے پینگوئن پانی سے باہر آئیں گے کوئی نہیں جانتا تھا، ہم بس ساحل پر نظریں جمائے بیٹھے تھے اور سامنے چاند تھا، دوسرا چاند پانی میں ہلکورے لے رہا تھا اور وینس سیارہ فلڈ فلائیٹ کی طرح ہماری پشت پر چمک رہا تھا اور ٹھنڈی یخ ہوا چھریوں کی طرح ہمارے بدنوں میں اتر رہی تھی۔

فلپ آئی لینڈ اس وقت جادو کا جزیرہ بن چکا تھا۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Babo

By Sanober Nazir