Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Arif Nizami/
  3. Phir 18 Wi Tarmeem Ka Shosha?

Phir 18 Wi Tarmeem Ka Shosha?

پھر 18 ویں ترمیم کا شوشہ؟

اپریل 2010ء میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں آئین میں 18ویں ترمیم متفقہ طور پر منظور ہوئی تھی، جس پر تمام سیاسی جماعتوں نے صاد کیا تھا۔ اس ترمیم کے تحت این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے زیادہ تر اختیارات اور مالی وسائل صوبوں کو منتقل کردیئے گئے۔ اس کا مقصد 1973ء کے آئین کووفاقی اور پارلیمانی بنانے کے علاوہ مالی اختیارات صوبوں کو منتقل کرنا تھا۔ دیکھا جائے تومتذکرہ ترمیم کا زیادہ فائدہ سب سے بڑے صوبے پنجاب کو ہی ہوا، اس وقت پنجاب میں شہبازشریف وزیر اعلیٰ تھے، مرکز میں پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم جبکہ مسلم لیگ(ن) اپوزیشن میں تھی۔ چھوٹے صوبوں سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں نے بھی 18ویں ترمیم کی حمایت کی کیونکہ وہ روز اول سے ہی مصر تھیں کہ 1973ء کے آئین جس کی بعد میں آنے والے آمروں نے شکل ہی بگاڑ دی، وفاقیت کے اصولوں پر پورا نہیں اترتا تھا۔ بعض نا قدین وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کے 18ویں ترمیم چھیڑنے سے متعلق انکشاف کو عین اس وقت جب وطن عزیز کورونا وائرس کے باعث سقوط ڈھاکہ کے بعدسب سے بڑے قومی بحران کا شکار ہے بے وقت کی راگنی قرار دے رہے ہیں۔ ویسے تو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت روز اول سے ہی 18ویں ترمیم سے خائف ہے اور اس کا متعدد بار ذکر کر چکی ہے۔ فوجی قیادت بھی اس ترمیم کو پسند نہیں کرتی اورآرمی چیف اس کا اظہار اپنی میڈیا کے ساتھ میٹنگز میں بھی کر چکے ہیں۔

18ویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ جس کے ذریعے صوبوں کو وفاق سے مالی وسائل میں حصہ ملتا ہے، میں ترمیم کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اس کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ترمیم کے نتیجے میں صوبے زیادہ بااختیار اورامیرہو گئے ہیں جبکہ وفاق غریب۔ مثال کے طور پر صحت، تعلیم اور دیگر اہم شعبے صوبوں کے پاس چلے گئے ہیں۔ گویا کہ سب لے دے کر وفاق کے پاس بہت کم وسائل باقی رہ جاتے ہیں۔ کو رونا وائرس کو جواز بنا کر ہی آئین میں ترمیم کرنے کا شوشہ چھوڑا گیا ہے۔ اسد عمرکا کہنا ہے کہ اس ترمیم کی بنا پر صوبوں اور وفاق کے مابین وبا سے نبٹنے کے لیے مکمل ہم آہنگی نہیں ہو پائی، دوسرے الفاظ میں وہ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے کورونا وائرس سے نبٹنے کے لیے فیصلہ کن اقدامات پر معترض ہیں۔ اس امر کے باوجود کہ مراد علی شاہ کے فیصلوں کو عالمی اداروں نے بھی سراہا ہے، حکومتی ترجمانوں نے اپنی توپوں کا رخ ان کی طرف کردیا ہے شاید اس لئے کہ وزیراعظم اور ان کی ٹیم عوام کی نظروں میں ہنوز قائدانہ اور فیصلہ کن رول ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کی حکومت کے انوکھے فیصلے18ویں ترمیم کی وجہ سے نہیں بلکہ تحریک انصاف کی حکومت کے مخصوص میلان طبع کی بنا پر ہیں۔ مثال کے طور پر کورونا لاک ڈاؤن روز اول سے ہی ہر چندہے کہ نہیں ہے، ایک قدم آگے دو قدم پیچھے کی پالیسی کا 18ویں ترمیم سے کیا تعلق ہے؟ ۔ اسی طرح رمضان المبارک میں ساری اسلامی دنیا کے برعکس صدر مملکت کی طرف سے علما کے ساتھ 20نکاتی معاہدے کے تحت مساجد کھول دینا ہے، کیا 18ویں ترمیم کی وجہ سے ملک بھر کے سینئر ڈاکٹرز اس گومگوکی پالیسی پر سراپا احتجاج ہیں لیکن ان کی باتوں پرکان دھرنے کے بجائے مسلسل یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ یہ سب شرارت سندھ کے وزیراعلیٰ کی ہے جو انہیں اکسا رہے ہیں۔

18ویں ترمیم میں ردوبدل تحریک انصاف کی حلیف چھوٹے صوبوں کی جماعتوں کے علاوہ قوم پرست جماعتوں کو بھی قابل قبول نہیں ہو گی۔ نہ جانے اسد عمر نے کس بنا پر کہا ہے حکومت کے ایسے فیصلوں کے حوالے سے مثبت اشارے ملے ہیں۔ اسد عمر نے درست کہا ہے کہ جب تک وفاق اور صوبے مل کر کام نہیں کریں گے معاملات درست نہیں ہونگے۔ ان کاکہنا ہے یہ اختیارات کی جنگ نہیں، ہم مل کر کام کرنا چاہتے ہیں اور محض 18ویں ترمیم میں بعض خرابیوں کو دور کرنا چاہتے ہیں لیکن یحییٰ خان کے قریب ترین جرنیل لیفٹیننٹ جنرل عمر کے صاحبزادے جو سیاست میں نسبتاً نوآموز ہیں، کو گویا پاکستان کے وفاق کی پیچیدگیوں کا ادراک نہیں ہے۔ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے، ایسے مرحلے پر جبکہ حکومت نے تمام اپوزیشن جماعتوں کو دھتکارنے اور لعن طعن کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے یہ نیا پنڈورا باکس کھولنے کے مترادف ہو گا۔ 18ویں ترمیم کوئی آسمانی صحیفہ نہیں ہے، اگر حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان جیساکہ اس ترمیم کی منظوری کے موقع پر اتفاق رائے ہوا تھا، ایسا ماحول ہوتا تو کچھ لو اور کچھ دو کی بنا پر بات چیت آگے بڑھ سکتی تھی۔ اس وقت تو صورتحا ل یہ ہے پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتیں آ ئین میں چھیڑ چھاڑ کو صوبائی خود مختاری ختم کر کے وفاقی سسٹم لانے کے مترادف سمجھ رہی ہیں۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے اٹھارہویں ترمیم پر کسی صورت سمجھوتا نہیں کریں گے اور اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ برداشت نہیں کی جائے گی۔ اس حوالے سے بلاول اور مولانا فضل الرحمان کے مابین ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے جس میں 18ویں آئینی ترمیم کے تحفظ کے حوالے سے اتفاق کیا گیا۔ بلاول نے مزید کہا ملک کورونا وائرس کی وجہ سے سنگین حالات سے گزررہا ہے، وفاق آئین میں ردوبدل کے بجائے صوبوں کی مدد کرے۔ مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے کہا ہے کہ صوبوں کو مالی اور انتظامی امور میں بااختیار بنانے سے متعلق آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کو ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق رائے سے منظور کیا، حکومت کی طرف سے اس ترمیم کو ختم کرنے کے حوالے سے شرانگیز بیانات کا مقصد قوم سمجھنے سے قاصر ہے، انہوں نے کہا ایک نیا انتشاراورتنازع کھڑا کرنے کا مقصد کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ ادھر مولانا فضل الرحمان نے میاں شہباز شریف سے بھی صلاح مشورہ کیا ہے۔ ان حالات میں موجودہ پارلیمنٹ سے اس قسم کی آئینی ترمیم منظور کرانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا۔ شاید اسد عمرکو یہ غلط فہمی ہو کہ اپوزیشن کی کنپٹی پر نیب کی پستول تان کر اور ماورائی قوتوں سے دباؤ ڈلوا کر آئینی ترمیم منظور کرائی جا سکے گی لیکن تاریخ سے اتنا مذاق شایدعملی طور پر ناممکن ہو گا۔

18ویں ترمیم کو پارلیمنٹ میں منظور کرانے کے پیچھے تمام بڑی سیاسی جماعتوں کا دو سالہ باہمی اتفاق رائے تھا۔ اس کے ذریعے 1973ئکے آئین کو اوور ہال کیا گیا اور آئین کی 102اہم شقوں میں ترامیم بھی کی گئیں۔ یہ18 ویں ترمیم ہی تھی جس کے ذریعے جنرل پرویز مشرف کی1973ء کے آئین میں اپنے اختیارات کے لیے کی گئی 17 ویں ترمیم ختم کر دی گئی تھی۔ اسی طرح آرٹیکل 52ٹو۔ بی جس کے تحت صدر مملکت فوجی قیادتوں سے ملی بھگت کر کے وزیراعظم کو گھر بھیج سکتا تھا ختم ہو گئی۔ یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس میں صوبائی حکومتوں کو گھر بھیجنے اور گورنر راج کے نفاذکے عمل کو خاصا مشکل اور پیچیدہ بنا دیا گیا۔

18ویں ترمیم سے صوبوں کو مالی اختیارات اور وسائل تومل گئے لیکن ان کی عوام کی فلاح وبہبود پر ذمے داری سے خرچ کرنے کی صلاحیت نہ بڑھ سکی۔ اگرچہ پنجاب میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے اس ترمیم کے بعد اپنے آٹھ سالہ دور اقتدار میں خاصے نئے منصوبے بنائے اور ان پر عمل درآمد کیا گیا تاہم ان کی ترجیحات پر آج بھی شدید نکتہ چینی کی جاتی ہے۔ 18ویں ترمیم کی منظوری کے بعد جو کام ہونے چاہئیں تھے وہ نہیں کیے گئے۔ مشترکہ مفادات کونسل کاغذوں میں تو موجود ہے لیکن اس کا کوئی سیکرٹریٹ بن سکا اور نہ ہی یہ ادارہ صوبوں اور وفاق کے درمیان ہم آہنگی اور تال میل بڑھانے کا ذریعہ بن سکا۔ کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال میں اپوزیشن نے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے کا متعدد بار مطالبہ کیا لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ اس ضمن میں یہ عذر لنگ پیش کیا گیا کہ مشترکہ مفادات کونسل کا سیکرٹریٹ ہی نہیں بن سکا۔

یہاں یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر سابق حکومتوں نے اس بارے میں کوتاہی برتی تو آپ کی حکومت کو کس نے روکا ہے کہ وہ ایسا سیکرٹریٹ نہ بنائے جبکہ کورونا وبا کے باوجود باقی امور تو معمول کے مطابق چل رہے ہیں۔ 18ویں تر میم کی سپرٹ کا تقاضا تو یہ تھا کہ صوبوں سے اختیارات نچلی سطح پر حکومتوں کومنتقل کیے جاتے لیکن بد قسمتی سے ایسانہیں ہواکیونکہ اس کے لیے فنڈز بھی لوکل باڈیز کو منتقل کرنے پڑنا تھے۔ حکومتیں ہوں یا اپوزیشن جماعتیں انہیں فنڈز خود استعمال کر نے کی لت پڑ گئی ہے اور یہ لت جنرل ضیاء الحق نے اپنے مخصوص مقاصد کے لیے ڈالی تھی جوآج بھی جاری ہے۔ حال ہی میں حکومتی حلیف مسلم لیگ(ق) کے جھگڑے کی ایک وجہ نام نہاد ترقیاتی فنڈ زبھی تھے حالانکہ اصولی طور پر دیکھاجائے تو ارکان قومی وصوبائی اسمبلی کاکام قانون سازی کرنا ہے، سڑکیں اور نالیاں بنوانا نہیں۔ اس پس منظر میں دیکھاجائے تو عملی طور پر 18 ویں ترمیم صرف آئین سے ماورا طریقے سے ہی ختم ہوسکتی ہے۔

Check Also

Zara Bhoolna Seekhen

By Javed Ayaz Khan